دل کا بگاڑنا بڑا آسان ہے ۔ دیکھئے جیسے گھر کے اندر
روشندان ہوتے ہیں اگر وہ کھلے رہیں تو پھر سارے کمرے میں مٹی آتی ہے ۔ اسی
طرح سے اگر آنکھ ، کان وغیرہ کا روشندان کھلا رہے تو دل کے کمرے میں مٹی
آئیگی اور آج کل کے نوجوانوں کا تو یہ روشندان بند ہی نہیں ہوتا۔
ایک شخص حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوا، کہنے لگا، حضرت ! پتہ نہیں
ہمارے دل سو گئے ہیں۔ فرمایا وہ کیسے ؟ عرض کیا کہ حضرت ! آپ درس دیتے ہیں
، وعظ نصیحت کرتے ہیں لیکن دل پر اثرا نہیں ہوتا ۔ حضرت نے فرمایا ' اگر یہ
معاملہ ہے تو یہ نہ کہو کہ دل سو گئے ، تم یوں کہوں کہ دل موگئے (مر گئے)
وہ بڑا حیران ہوا ، کہنے لگا ، حضرت یہ دل مر کیسے گئے ؟ حضرت نے فرمایا ،
دیکھو جو انسان سویا ہوا ہو اسے جھنجھوڑا جائے تو وہ جاگ اٹھتا ہے اور
جھنجھوڑنے سے بھی نہ جاگے وہ سویا ہوا نہیں وہ مویا ہوا ہوتا ہے ۔ جو انسان
اللہ کا کلام سنے ، نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان سنے اور پھر دل اثر
قبول نہ کرے یہ دل کی موت کی علامت ہوتی ہے ۔ تو ہم اس دل کو مرنے سے پہلے
پہلے روحانی اعتبار سے زندہ کرلیں ۔ جب یہ دل سنور جائے پھر اس میں اللہ رب
العزت کی محبت بھر جاتی ہے ۔ پھر اس کی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔
دل گلستان تھا تو ہر شے سے ٹپکتی تھی بہار
یہ بیابان جب ہوا عالم بیاباں ہو گیا
یہ اللہ والوں کی کیفیت ہوتی ہے ، ان کا دل اللہ کی محبت سے بھرا ہوتا ہے ۔
پھر اللہ کےسوا کسی اور کی جانب دھیان ہی نہیں جاتا ،پھر بندہ کا دل قیمتی
بن جاتا ہے ۔ اس دل کو سنوارنے کے لیے مشائخ باقاعدہ ذکر بتاتے ہیں ۔ہم ان
کو باقاعدگی سے کریں تاکہ دل اللہ رب العزت کی محبت سے لبریز ہوں پھر ہمیں
راتوں کو اٹھنے میں مزہ آئے گا ، پھر ہمیں راتوں کو اٹھنے کے لیے گھڑیوں کی
ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ بستر ہی اچھال دے گا
قطب الارشاد ڈاکٹر حفیظ اللہ صاحب مہاجر مدنی رحمتہ اللہ علیہ جب بیان میں
اہل دل کے واقعات سناتے تو فرماتے کہ ان لوگوں کا دل بنا ہوا تھا ۔اے اللہ
ہمارے دل کو بھی سنوار دیجئے ۔
ماخوذ از:" آج کا سبق "صفحہ 124
تالیف :مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ |