مناقب حضور شیخ عبد القادر جیلانی ؒ

حضرت قطب الاقطاب، غوث اعظم،محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کی پیدائش یکم رمضان ۱۰۷۷ء کو ایران کے جنوبی ساحلی قصبہ گیلان میں ہوئی۔
آپ حسنی و حسینی سید اور مادر زاد ولی تھے۔ ولادت کے بعد آپ کی والدہ نے آپ کو دودھ پلانا چاہا تو آپ نے دودھ نہیں پیا حتیٰ کہ یوں ہی سارا دن گزر گیا ،آخر کار مغرب کی اذان ہوئی تو افطار کے وقت آپ نے دودھ پیا ،چنا چہ ساری بستی میں مشہور ہو گیا کہ سادات کے گھرانے میں ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان میں سارے دن دودھ نہیں پیتا ۔
آپ کا پورا خاندان نور نبوت سے منور تھا اس لئے آپ کی سب سے بڑی تربیت گاہ خود آپکا اپنا گھر تھا آپ نے والدین سے قرآن پاک حفظ کیا اور ابتدائی تعلیم بھی پائی۔اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے مدرسہ نظامیہ بغداد تشریف لے گئے۔
حضور شیخ عبد القادر جیلانی شریعت نبوی کے علمبردار اور میدان طریقت کے شہ سوار تھے آپ ہمیشہ باوضو رہا کرتے تھے اور ساری عمر کوئی نماز قضا نہ کی ۔چالیس سال تک عشاء کیے وضو سے فجر کی نماز ادا کی ۔آپ اکثر روزے سے رہا کرتے کئی کئی دن بغیر کچھ کھائے گزر جاتے،کثرت نوافل کے سبب آپ کے پاؤں میں ورم آجاتا ۔ آپ ہمیشہ غریبوں ،ناداروں اور کمزوروں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے مسکینوں کی دلجوئی فرماتے آپ کی خواہش یہ ہوتی کہ دنیا میں کوئی بھوکا نہ رہے چناچہ خود فرماتے کہ ’’ساری دنیا کی دولت اگر میرے قبضہ میں ہو تو بھوکوں کو کھانا کھلا دوں‘‘آج بھی آپ کے مریدین گیارہویں شریف کے موقع پر کثیر مقدار میں لوگوں کو کھانا کھلا کر حضور غو ث الاعظم علیہ الرحمہ کی اسی خواہش کی تکمیل کرتے ہیں۔
حضرت غوث اعظم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کی آپ ﷺ نے فرمایا، اے عبدالقادر! تم لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لئے وعظ کیوں نہیں کرتے؟ عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ میں عجمی ہوں اس لئے عرب کے فصحاء کے سامنے کیسے وعظ کروں؟ فرمایا اپنا منہ کھولو پھر حضور علیہ السلام نے میرے منہ میں سات بار اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا جاؤ اور لوگوں کو اﷲ تعالیٰ کے راستے کی طرف بلاؤ۔ بعد ظہر جب آپ نے وعظ کاارادہ فرمایا تو کچھ جھجک طاری ہوئی حالت کشف میں دیکھا کہ سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ سامنے موجود ہیں اور فرما رہے ہیں منہ کھولو آپ نے تعمیل ارشاد کی تو باب علم وحکمت نے اپنا لعاب چھ بار آپ کے منہ میں ڈالا۔ عرض کی یہ نعمت سات بار کیوں عطا نہیں فرمائی، ارشاد فرمایا’’رسول معظم ﷺ کا ادب ملحوظ خاطر ہے‘‘۔ یہ فرماکر حضرت علی رضی اﷲ عنہ غائب ہوگئے اور جب سرکار غوث اعظم نے خطاب فرمایا تو فصحائے عرب آپ کی فصاحت وبلاغت کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔آپ کے وعظ میں ستر ہزار سے زائد لوگ شرکت کرتے جن میں علماء فقہاء اور اکابر اولیاء کرام کے علاوہ ملائکہ،جنات اور رجال الغیب بکثرت شریک ہوتے۔ اخبارالاخیار میں ہے کہ جتنے لوگ آپ کی مجلس میں نظر آتے ان سے کہیں زیادہ ایسے حاضرین ہوتے جو نظر نہیں آتے۔ آپ کی آواز دور ونزدیک کے سامعین کو یکساں سنائی دیتی تھی۔
شیخ شہاب الدین سہروردی فرماتے ہیں کہ شیخ عبد القادر جیلانی رضی اﷲ عنہ طریقت کے بادشاہ اور موجودات کے تصرف کرنے والے تھے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کرامات کا تصرف واختیار ہمیشہ حاصل رہا۔ امام عبد اﷲ یافعی فرماتے ہیں کہ آپ کی کرامات حد تو اتر کو پہنچ گئی ہیں اور بالاتفاق سب کو اس کا علم ہے دنیا کے کسی شیخ میں ایسی کرامات نہیں پائی گئیں(اخبارالاخیار)۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں!’’قرب وولایت کا مرکزی منصب ائمہ اہل بیت سے منتقل ہوکر حضرت غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کو عطا ہوا اور آپ ہی کیلئے مخصوص کردیا گیا،ائمہ اہل بیت اور آپ کے درمیان کوئی اور اس مقام پر فائز نہ ہوا۔ پس راہ ولایت میں اقطاب اور نجباء سب آپ ہی کے ذریعہ فیض پاتے ہیں کیونکہ یہ مقام آپ کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔
تفسیر مظہری میں سورۂ رعد کی آیت کے تحت مذکور ہے کہ’’حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کے دونوں صاحبزادے ایک عالم ملاطاہر لاہوری سے درس لیتے تھے۔ حضر ت مجدد رضی اﷲ عنہ نے کشف سے دیکھا کہ اس عالم کی پیشانی پر شقی(بدبخت)لکھا ہے۔ آپ نے اپنے بیٹوں سے اس بات کا ذکر کردیا۔بیٹے استاد کی شفقت ومحبت کے باعث بضد ہوئے کہ حضرت مجدد ان کیلئے دعا فرمائیں کہ ان کی شقاوت سعادت سے بدل دی جائے۔ حضرت نے فرمایا!میں نے لوح محفوظ میں لکھا دیکھا ہے کہ یہ قضاء مبرم ہے جس کو بدلا نہیں جاسکتا۔ بیٹوں نے اصرار کیا تو فرمایا! مجھے یاد آیا کہ حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تھا کہ میری دعا سے قضاء مبرم بھی بدل دی جاتی ہے اسلئے میں دعا کرتا ہوں، اے اﷲ تیری رحمت وسیع ہے تیرا فضل کسی ایک پر ختم نہیں ہو جاتا میں پرامیدہو کر تیرے فضل وکرم کا طالب ہوں کہ تو ملاطاہر کی پیشانی سے شقاوت مٹا کر اس کی جگہ سعادت تحریر فرما۔ جیسے تو نے میرے آقا حضور غوث اعظم (رضی اﷲ عنہ) کی دعا قبول فرمائی تھی۔ سبحان اﷲ!حضرت مجدد الف ثانی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کی شقاوت سعادت سے بدل گئی۔ سبحان اﷲ حضرت مجدد الف ثانی نے حضور غوث اعظم کو آقا کہہ کر ان کے وسیلے سے دعا فرمائی اور وہ قبول ہوئی یہ شان ہے حضرت پیران پیر دستگیر کی۔
حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں،جو شخص خود کو میری طرف منسوب کرے اور مجھ سے عقیدت رکھے تو اﷲ تعالیٰ اسے قبول فرماکر اس پر رحمت فرمائیگا اگر اسکے اعمال مکروہ ہوں تو اسے توبہ کی توفیق دے گا، ایسا شخص میرے مریدوں میں سے ہوگاا ور اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ میرے مریدوں،میرے سلسلے والوں،میرے پیروکاروں اور میرے عقیدت مندوں کو جنت میں داخل فرمائیگا۔(اخبار الاخیار)
٭٭٭
سوال: گیارہویں شریف کیا ہے؟بعض لوگ کہتے ہیں فاتحہ پڑھنے سے کھانا حرام ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ گیارہویں شریف تو اعلیٰ حضرت بریلوی نے شروع کی اس سے پہلے کسی نے نہ کی تھی،رہنمائی فرمایئے؟
جواب: حضور غوث اعظم سید نا عبد القادر جیلانی رضی اﷲ عنہ کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی،ذکر واذکار اور فاتحہ ولنگر وغیرہ پر مشتمل محفل عموماً کسی بھی دن اور خصوصاً چاند کی ۱۱تاریخ کو منعقد ہوتی ہے اسے گیارہویں شریف کہاجاتا ہے۔اسکی اصل ایصالِ ثواب ہے جوکہ قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہوا!’’عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جوہم سے پہلے ایمان لائے‘‘۔(سورۂ حشر،آیت۱۰)
معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا دوسرے مسلمانوں کیلئے دعائے مغفرت کرنا قرآن سے ثابت ہے اور ایصال ثواب بھی دراصل دعا ہی کی ایک صورت ہے۔
ابوداؤد اور نسائی نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بارگاہ نبوی ﷺ میں عرض کی،یارسول اﷲ ﷺ !ام سعد کا وصال ہوگیا ہے اب ان کے ایصالِ ثواب کیلئے کونسا صدقہ بہتر ہے؟فرمایا،پانی،لہٰذا حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے کنواں کھدواکرفرمایا! ’’یہ ام سعد کیلئے ہے‘‘۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شے کو میت کی طرف منسوب کرنا نہ تو گناہ ہے اور نہ ہی اس طرح وہ شے حرام ہوتی ہے جیسے حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے کنوئیں کو اپنی والدہ کی طرف منسوب کیا اسی طرح ہم گیارہویں شریف کو سرکار غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ایک حدیث پاک بخاری ومسلم میں ہے جس میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے اپنی والدہ کے ایصال ثواب سے متعلق سوال کیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا،تمہارے صدقہ خیرات کا انہیں ثواب پہنچے گا۔ ترمذی کی ایک حدیث میں ایک شخص کا اپنی والدہ کے ایصال ثواب کیلئے باغ کا صدقہ دینا بیان ہوا ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ نے بارہ گانبوی میں عرض کی ہم اپنے مردوں کیلئے دعائیں، صدقات وخیرات اور حج کرتے ہیں کیا یہ چیزیں انکو پہنچتی ہیں؟ فرمایا!ہاں ضرور پہنچتی ہیں اور وہ ان سے ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے تم ایک دوسرے کے ہدیے سے خوش ہوتے ہو۔(مسند احمد)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہمیشہ حضور علیہ السلام کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے۔(ترمذی)
نبی کریم ﷺنے اپنی امت کی طرف سے قربانی فرمائی۔(مسلم،ابوداؤد،ترمذی)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایصال ثواب سنت سے ثابت ہے،نیز مالی وبدنی عبادات کا ایصال ثواب ارواح مسلمین کو ہوتا ہے اور وہ ایصال ثواب کا ہدیہ پاکر خوش ہوتے ہیں۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں!’’ امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم اور ان کی اولاد کو تمام امت اپنے مرشد کی طرح سمجھتی ہے اور امور تکوینیہ کو انہی سے وابستہ جانتی ہے اور فاتحہ،درود،صدقات اور انکے نام کی نذریں مسلمانوں میں رائج و معمول ہیں چنانچہ تمام اولیاء سے بھی یہی معاملہ کیاجاتاہے‘‘۔(الامن والعلیٰ بحوالہ تحفہ اثناعشریہ صفحہ۳۹۶)
آپ اپنے فتاویٰ کی پہلی جلد میں فرماتے ہیں!’’نیاز کا وہ کھانا جس کا ثواب امام حسن اور امام حسین رضی اﷲ عنہما کو پہنچایا جائے اور اس پر فاتحہ،قل اور درود پڑھاجائے تو وہ کھانا برکت والا ہوجاتا ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے‘‘۔
شاہ صاحب کی اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانے پر فاتحہ پرھتے وقت سورۂ فاتحہ،چاروں قل اور درود شریف پڑھاجاتا ہے اور اس سے طعام متبرک ہوجاتا ہے۔
شیخ شہاب الدین سہروردی عوارف المعارف میں اسکی حکمت یوں بیان فرماتے ہیں کہ!’’تلاوت کرنے سے کھانے کے اجزاء ذکر کے انوار سے معمور ہوجاتے ہیں اور کھانے میں کوئی خرابی بھی پیدا نہیں ہوتی اور ایسا طعام کھانے سے دل کی کیفیت بھی بدل جاتی ہے‘‘۔
کھانا سامنے رکھ کر کچھ پڑھنا اور دعائے برکت کرنا متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ غزوۂ تبوک کے دن حضور علیہ السلام نے کھانے پر برکت کی دعا فرمائی، بخاری ومسلم میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے کھانا سامنے رکھ کر کچھ پڑھا اور دعا فرمائی۔ بخاری ومسلم ہی کی ایک اورحدیث میں نبی کریم ﷺ کا حلوہ پر دعائے برکت فرمانا مذکور ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ کھانا سامنے رکھ کر اس پر تلاوت کرنا اور دعا مانگنا بلاشبہ جائز ہے۔ بلکہ مسلم شریف میں ہے کہ جس کھانے پر اﷲ کا نام نہ لیا جائے شیطان اسے اپنے لیے حلال سمجھتا ہے یعنی بسم اﷲ پڑھ کر کھانا چاہے۔
سورۂ انعام،آیت۱۱۸ میں ارشاد ہوا!’’تو کھاؤ اس میں سے جس پر اﷲ کانام لیا گیا اگر تم اس کی آیتیں مانتے ہو‘‘۔
آپ بتایئے کہ فاتحہ میں کیا پڑھاجاتا ہے۔ کیا چاروں قل اور سورۂ فاتحہ پڑھنے سے کھانا حرام ہوجاتا ہے؟ حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ بسم اﷲ پڑھنے سے شیطان اس کھانے کو حلال نہیں سمجھتا اور قرآن سے معلوم ہوا کہ جس طعام پر اﷲ تعالیٰ کانام لیا جائے وہ بر کت والا ہے۔

٭……٭……٭

 

Moulana Khalil Ur Rehman
About the Author: Moulana Khalil Ur Rehman Read More Articles by Moulana Khalil Ur Rehman: 3 Articles with 2253 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.