تحریر: عالیہ ذوالقرنین، کراچی
کسی بھی قسم کے حالات کو ماضی، حال اور مستقبل کے تناظر میں دیکھنے کو ’’وژن‘‘
کہتے ہیں۔ ’’وژن ‘‘ کہنے، سننے اور لکھنے میں بظاہر ایک چھوٹا سا لفظ ہے
مگر درحقیقت سمندر کی سی گہرائی کا منبع ہے۔ وژن کی دو اقسام بصارت اور
بصیرت ہیں ۔ اﷲ کریم نے اپنی تمام جاندار مخلوقات کو بصارت یعنی’’ مادی
آنکھ ‘‘کی نعمت سے نوازا ہے مگر بصیرت کی نعمت صرف خاص لوگوں کو عطا کی
جاتی ہے۔مسائل کو دل کی آنکھ سے تجربے اور علم کی روشنی میں حل کرنا بصیرت
کہلاتا ہے ۔ یہ وژن کا وسیع تر مفہوم ہے ۔
ہر انسان اپنی ذات میں اپنے وژن کے مختلف معنی رکھتا ہے جو اس کے لیے اس
فانی دنیا کی حد تک محدود ہیں لیکن بحیثیت مسلمان جب ایک شخص اپنے معاملات
اور معمولات کو بصارت کی بجائے بصیرت کے تناظر سے جانچتا ہے تو اس کی نظر
’’حیات ما بعد الموت‘‘ تک سفر کرتی ہے اور اسی بصیرت کی روشنی میں مسائل کے
حل کو قرآن مجید میں’’ حکمت‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے پھر یہی بصیرت ایک
مسلمان کے لیے ایک ’’نورانی رہنما ‘‘ بن کر اسے حق اور حقیقت تک پہنچنے کا
راستہ دکھاتی ہے ۔ بصیرت کے فقدان سے انسان حالات کا درست تجزیہ کر سکتا ہے
نہ درست فیصلے۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’وہ گونگے ہیں، بہرے ہیں، اندھے ہیں
پس وہ نہیں لوٹیں گے۔‘‘ مذکورہ بالا آیت میں کفار کے پاس آنکھ، کان اور
زبان میں سے ہر نعمت کی موجودگی مگر بصیرت کی عدم موجودگی نے اﷲ رب العزت
کے نزدیک انہیں اندھا، گونگا اور بہرہ بنا دیا۔ افراد و اقوام کی درستگی کا
تمام تر انحصار’’ وژن ‘‘کی درستگی پر ہے ۔ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی
صورت کسی نہ کسی ذمہ داری کا جواب دہ ہے اور ذمہ داری کادرست حق ادا کرنا
بھی اسی بصیرت کے مرہون منت ہے۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ’’ تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی
رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔‘‘ تو جب ہر شخص اس حدیث مبارکہ کی روشنی
میں اپنے وژن کو درست کرتے ہوئے دائمی بصیرت اور دائمی حساسیت سے معاملات
طے کرے گا تو معاشرے خود بخود راحت و برکت کا گہوارہ بنتا چلا جائے گا ۔
ہمارے معاشرے کے تمام تر مسائل کا حل بھی محض’’ بصیرت ‘‘ کے درست استعمال
میں پوشیدہ ہے۔ آغاز اسلام میں ارتداد کے گیارہ پیش آنے والے مسائل کو محض
بصیرت و حکمت کے تحت حل کیا گیا۔ جن میں سے 3کا آقا علیہ السلام کے دور میں
سامنا کرنا پڑا اور 8 کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے دور حکومت میں حل
کیے گئے۔
بحیثیت مسلمان ہمارے وژن کو بہتر بنانے کے لیے اﷲ کریم نے آقا علیہ السلام
کی ہستی کو نمونہ بنا کر پیش کیا ۔قرآن و سنت ہر واقعہ اور حادثہ میں بصیرت
کا استعمال کرتے ہوئے کام کرنے کی دعوت دیتے ہیں چنانچہ اگر ہم دینی، سماجی،
معاشرتی اور سیاسی شخصیات کی زندگی کا جائزہ موجودہ اور مستقبل کے وژن کے
مطابق لیں گے، نتائج کا موازنہ موجودہ حالات کے تناظر میں کریں گے، اپنی
فکر کو روشن کریں گے اور اپنی عقلوں کو تھکائیں گے تو یقینا اﷲ کریم ان کے
تمام تر معاملات کو حکمت و بصیرت کے ذریعے بہترین طریقے سے حل فرما دے گا۔ |