پاکستان میں معذور افراد کی حالت زار

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںل14 اکتوبر 1992 کو منظور ہونے والی قرار داد نمبر47/3 کے مطابق ہر سال دسمبر کے پہلے ہفتے میں "معذور افراد کا عالمی دن" منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں مختلف سرکاری و غیرسرکاری تنظیموں کے زیراہتمام سیمینارز اور ورکشاپس کا اہتمام کیاجاتا ہے تاکہ اس اہم مسئلہ کو اجاگر کیا جاسکے۔راقم پچھلے کچھ دنوں سے پاکستان میں قیام پزیرہے۔ سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کے بے شمار مسائل کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک اہم مسئلہ "معذور افراد کی ناگفتہ بہ حالت زار" دکھائی دے رہی ہے۔ میری ایک بیٹی پیدائشی طور پر معذور ہے جو ہمارے ساتھ برطانیہ میں مقیم ہے۔ اسلئے معذوری کی تکالیف کو سمجھنے اور برطانوی حکومت کے نظام کفالت میں معذوروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے ذاتی طور پر کافی حد تک آگاہی ہے۔ پاکستان میں معذوروں کی کسمپرسی کی حالت کو دیکھ کر حد درجہ افسوس ہوتا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ معاشرہ خود غرض اور بے حس ہے جبکہ حکومتیں اپنے منصبی فرائض کی انجام دہی سے غافل اور نا اہل ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ریپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں 65 کروڑ سے ذائد افراد معذور ہیں۔ پاکستان میں معذور افراد کی تعداد ڈیڑھ سے پونے دوکروڑ کے لگ بھگ ہےجو مختلف نوعیت کی ذہنی اور جسمانی مشکلات کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے قانون کے تحت معذور افراد (جنہیں "خصوصی افراد" یا "سپیشل پرسنز" بھی کہا جاتا ہے) وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی ایسی جسمانی یا دماغی بیماری میں مبتلا ہوں جو ان کے معمولات زندگی سرانجام دینے کی اہلیت و صلاحیت پرگہرے اور طویل اثرات مرتب کرے۔ یا وہ بیماری اس معذور فرد کو کام کرنے کی اہلیت یا صلاحیت سے ہی محروم کردے۔ معذوری ذہنی ہو تی ہے اور جسمانی بھی، یہ پیدائشی ہو سکتی ہے اور حادثاتی بھی۔ پاکستان میں مقیم غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے معذور افراد انتہائی کسمپسری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سوچا جائے تو یہ کوئی حیران کن بات نہیں۔ کیونکہ جب وفاقی اور صوبائی بجٹ میں معذور افراد کو نظر انداز کیا جائےگا، ان کے لئے تعلیم، اور مفت علاج معالجے کی سہولیات عملا نہ ہونے کے برابر ہوں گی، معذوروں کیلئے وظائف کا کوئی معقول اہتمام نہیں ہو گا، تو پھر ان کی زندگیوں میں بہتری آئے تو کیسے آئے؟ حکومتوں نے وقتا فوقتا معذوروں کے حوالے سے کچھ اعلانات کیے اور قانون بھی بنائےلیکن ان پر عمل ہوتا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔پاکستان میں معذور افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق صرف ایک ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن آرڈیننس 1981موجود ہے، جس میں معذور افراد کے لیے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ متعین ہے۔ اس کے علاوہ علاج کی مفت سہولتیں اور معذور افراد کے بچوں کی سرکاری اداروں میں 75 فیصد جبکہ پرائیویٹ اداروں میں 50 فیصد فیس معافی اور روزگار کی یقینی فراہمی بھی اس قانون کا حصہ ہے۔ مگر اس کے باوجود اکثرمعذور افراد کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہےاور پولیس کے ڈنڈے بھی کھانے پڑتے ہیں الامان والحفیظ۔ مذکورہ آرڈیننس میں خاصی خامیاں، کمزوریاں موجود ہیں جنہیں رفع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کے اعلان کے مطابق خدمت کارڈ سکیم کے تحت معذور افراد کو ماہانہ 1200 روپے مالی امداد دی جانی تھی مگر اس اعلان پر تاحال عمل درآمد نظر نہیں آیا۔

شہروں میں معذور بچوں کیلئے چند سکول بنا کر امیروں کے معذور بچوں کا خیال رکھ لینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بلکہ اس کی سنگینی اور اہمیت کا احساس کرکے ہر سطح کی شہری و دیہی آبادی میں موجود معذور افراد کی مکمل دیکھ بھال کی منصبی ذمہ داریوں کو نبھانے کی اشد ضرورت ہے۔معذور افراد بھی نارمل لوگوں کی طرح ملک و قوم کیلئے کچھ کر گزرنے کا حسین جذبہ اور تڑپ رکھتے ہیں۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور ڈھلکتے آنسو ہم سے تقاضہ کررہے ہوتے ہیں کہ خدارا انہیں نظر انداز مت کیجئے۔ کسی بھی صورت ان کی معذوری کی وجہ سے انہیں نارمل انسانوں سے کمتر نہ سمجھا جائے۔ ان کے ساتھ خیر خواہی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں معاشرے کی "مین سٹریم" کا حصہ بنانے میں عوام الناس اور حکومتیں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مثبت کردار ادا کریں۔بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ خصوصی افراد نے دنیا کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے اپنی لگن اور کاوش سے معذوری کو شکست دیکر معاشرے میں اپنا با وقارمقام بنایا۔ انہوں نے خداداد صلاحیتوں سے یہ ثابت کر دیا کہ اگران کے ساتھ معاشرہ اور حکومت تعاون کرےتو یہ عام آدمی کی طرح خوددار اور خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔ ایک المیہ یہ ہے کہ معذور افراد کو ہمارے معاشرے میں بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ انہیں بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔ سرکاری اور نجی دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، شاپنگ سینٹرز، ایئرپورٹس، ریلوے اسٹیشنوں اورہسپتالوں میں معذور افراد کو بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تعمیر کے وقت معذوروں کیلئے سہولیات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ ان عمارتوں کے انفراسٹرکچر میں معذور افراد کے لیے ریلنگ اور ریمپ نہیں بنائے جاتے جس کی وجہ سے جگہ جگہ ان کو اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غربت کی وجہ سے ویل چیئر، واکر اور ٹرائی سائیکلز نہیں خرید سکتے۔ اس کے نتیجے میں اکثریت گھروں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ معذوروں کے احساس محرومی کا خاتمہ کرنے اور ان کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی اشد ضرورت ہےتاکہ یہ معاشرے کا حصہ بن کر فعال کردار ادا کر سکیں۔ افسوسناک صورت حال یہ کہ معذوروں کو پبلک مقامات پر بھکاری بنا کر کمائی کی مشین کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو کہ حد درجہ قابل مذمت فعل ہے۔ اسلام نے معذور افراد کی عزت و تکریم اور ان کا خیال رکھنے کا خصوصی طور پر حکم دیا ہے۔ دوسرے افراد کو ان پر ترجیح دیتے ہوئے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ دوسرے افراد پر انہیں ترجیح دی جائے۔ اسلام نے معذور افراد پر کسی طرح کا معاشی بار نہیں رکھا ہے، کسبِ معاش کی الجھنوں سے وہ آزاد ہیں۔ وہ تمام قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ جن میں کمزوروں، بے سہاروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان پر انفاق کی تلقین کی گئی ہے، معذورین بھی ان کے مفہوم میں داخل ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی ”الفاروق“ میں لکھتے ہیں: کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عام حکم تھا اور اس کی ہمیشہ تعمیل ہوتی تھی کہ ملک کے جس قدر اپاہج اور مفلوج افراد ہوں بلاتخصیص مذہب و ملت سب کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کردی جائیں، لاکھوں کی تعداد میں معذور افراد کو گھر بیٹھے خوراک ملتی تھی (الفاروق: 2/197) یہی قانون آج کل من و عن برطانیہ میں رائج اور مکمل طور پر قابل عمل ہے۔ معذور افراد کا دن منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم رنگ، نسل اور ذات سے بالاتر ہو کر یہ عہد کریں کہ خصوصی افراد کی بحالی اور انہیں معاشرے کا حصہ بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے ۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240822 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More