1904سے اب تک درجنوںتہلکہ خیز فکسنگ اسکینڈلز منظر عام پر
آئے
کرکٹ میں سٹے بازی، میچ و اسپاٹ فکسنگ کے اسکینڈلز تو اکثر و بیشتر منظر
عام پر آتے رہتے ہیں، جن میں کھلاڑیوں کو سزاؤں کے علاوہ پابندیوں کا بھی
سامنا کرنا پڑتا ہے، اسکینڈلز کی جب ذرائع ابلاغ پرگونج سنائی دیتی ہےتو
ساری دنیا کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوجاتی ہے ۔ کرکٹ کے کھیل کے علاوہ ٹینس،
بیس بال اور دیگر کھیلوںمیں بھی سٹے بازی عروج پر رہتی ہے اور اکثرکھلاڑی
میچ و اسپاٹ فکسنگ اسکینڈلز میں ملوث پائے جاتے ہیں لیکن اسکینڈلزتہلکہ
مچانے کے باوجود لوگوںکی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ کرکٹ کے بعد میچ فکسنگ
کے سب سے زیادہ واقعات فٹ بال میچوں کے دوران رونما ہوئے اور موازنہ کیا
جائے تو ان کی شرح کرکٹ کےفکسنگ اسکینڈلز سےبہت زیادہ ہے۔ فٹ بال میں میچ
فکسنگ کی تاریخ بہت قدیم ہے، 1904-05میں میچ فکسنگ کا پہلا اسکینڈل منظر
عام پر آیا۔ آسٹن ولا اور مانچسٹر سٹی کے درمیان فٹ بال میچوں کا انعقاد
ہوا جن میں دونوں ٹیموں نے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ چار ماہ بعد
آسٹن ولا کے کپتان ایلس لیک ، فٹ بال ایسوسی ایشن کے سامنے پیش ہوئے اور
مخالف ٹیم کے کپتان ،میریڈتھ پر الزام عائد کیا کہ انہوں میچ ہارنے کے لیے
انہیں 10پونڈ کی پیش کش کی تھی۔بعد ازاںفٹ بال ایسوسی ایشن نے میریڈتھ کے
کھیلنے پر دو سال کی پابندی عائد کردی تھی۔ 1915ء میں لیورپول اور مانچسٹر
یونائیٹڈ کے درمیان ہونے والامیچ بھی فکس ثابت ہوا۔ اس میچ میں مانچسٹر
یونائیٹڈ نے صفر کے مقابلے میں دو گول سے فتح حاصل کی تھی۔ میچ میں دونوں
ٹیموں کے سات کھلاڑی اس جرم کے مرتکب پائے گئے تھے، جن پر فٹ بال ایسوسی
ایشن کی طرف سے تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔1964میں برطانیہ میں اس کھیل
میں اسپاٹ فکسنگ کا سب سے بڑا اسکینڈل منظر عام پر آیا، جس میں 1960ء میں
لیگ فٹ بال میچ کے دوران کئی کھلاڑی ملوث پائے گئے تھے، جنہیں پابندی سمیت
قید و بند کی سزائیں بھی دی گئیں۔
1980ء میں اٹلی کے ایک اخبار نے میچ فکسنگ کے ایک اور اسکینڈل کا انکشاف
کیا جس میں دو رومن دکانداروں’’ الویرو اور ٹرنکا‘‘ کے حوالے سے بتایا گیا
کہ، اٹلی کے کچھ فٹ بالر جن میں اے سی میلان اور لازیوٹیم کے کھلاڑی شامل
ہیں، بھاری رقومات لے کر میچ فروخت کرتے ہیں۔ تحقیقات کے نتیجے میں ریفریز
سمیت اٹلی کی عالمی کپ کی ٹیم کے گول کیپر انریکوالبرٹوسی پؤلو اور میلان
ٹیم کے صدر فلیک کولمبو پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔فروری 1999ء میں
ملائیشیاء سے تعلق رکھنے والے بکیز کا سینڈیکیٹ پکڑا گیا، جو چارلٹن
ایتھلیٹکس گراؤنڈ میں ایف اے پریمئیر لیگ کے میچوں کے دوران ریموٹ کنٹرول
ڈیوائس کے ذریعے فلڈ لائٹس کو تباہ کرنے میں ملوث تھا، جب کہ ان کے ساتھ
اٹالین فٹ بال ایسوسی ایشن کا ایک سکیورٹی افسر بھی شامل تھا، جب ان کے
خلاف تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ مذکورہ گروہ کے ارکان نومبر 1997ء میں
’’ویسٹ ہیمرگراؤنڈ‘‘ اور اس کے ایک ماہ بعد کرسٹل پیلس گراؤنڈ میں ایک
میچ کے دوران بھی فلڈ لائٹس بند کرکے میچ خراب کرنے میں ملوث تھے۔ 2000ء
میں اٹلی کے آٹھ کھلاڑی میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے۔ ان میں سے تین
کھلاڑی اٹلانٹا اے سائیڈ اور 5کھلاڑی قسٹوئسی بی سائیڈ کے طرف سے کھیل رہے
تھے۔ 2004 ء میں پرتگالی پولیس نے ’’ایپیٹو ڈوریڈو‘‘ کے نام سے ایک آپریشن
کرکے میچ فکسنگ میں ملوث کئی فٹ بال کلبوں کے صدور اور نمایاں کھلاڑیوں کو
گرفتار کرلیا۔ جون2014میں جنوبی افریقہ میں فٹ بال کے 19 ریفریز، فٹ بال
کلبوں کے حکام، میچ کمشنر اور جنوبی افریقن فٹ بال ایسوسی ایشن کے اعلی
عہدیداروں سمیت 31افراد کو میچ اور اسپاٹ فکسنگ کے الزامات کے تحت گرفتار
کیاگیا۔2005ء میں جرمنی میں ’’بنڈسلیگا اسکینڈل‘‘ منظر عام پر آ ّیا۔
جنوری 2005ء میں جرمن فٹ بال ایسوسی ایشن اور جرمن پراسیکیوٹرز نے فٹ بال
ریفری رابرٹ ہوئزر کے خلاف علیحدہ علیحدہ تحقیقات کی گئیں ،جن میں انکشاف
ہوا کہ وہ جرمن کپ سمیت کئی دیگر مقابلوں میں اسپاٹ فکسنگ کے جرائم میں
ملوث تھے۔ تحقیقاتی رپورٹوں میں بتایا گیا کہ وہ کروشیا کے سٹے بازوں کے
ساتھ مل کر کام کرتے تھے ، انہوں نے اپنے میچ فکسنگ کے نیٹ ورک میں کئی
ریفریز اور کھلاڑیوں کو شامل کیا ہوا تھا۔ تحقیقات کے نتیجے میں اس کیس میں
پہلی گرفتاری 28جنوری کو برلن میں عمل میں آئی جب کہ ہوئزر کو 12فروری کو
گرفتار کیا گیا۔ اقرار جرم کے بعد ہوئزر پر تاحیات پابندی کے علاوہ دوسال
پانچ ماہ قید کی سزا بھی دی گئی۔
ستمبر 2005ء میں برازیل میں شائع ہونے والے ایک جریدے کی رپورٹ میںایک فٹ
بال میچ کے دوران، میچ فکسنگ اسکینڈل کا انکشاف ہوا، جس میں دو ریفری
ایڈلسن پریرا، جن کا تعلق فیفا کے آفیشل ریفری پینل سے تھا اور جوز
ڈینلین، رشوت لے کر میچ فکس کرنے کے جرم میں ملوث پائے گئے۔ دونوں ریفریز
کے خلاف تحقیقات ہوئیں جس کے بعد ان پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔2008ء
میں ایک اسپورٹس صحافی، ڈکلن ہال کی کتاب ’’دی فکس‘‘ میں الزام لگایا گیا
کہ 2006ء کے فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران گھانااور اٹلی، گھانااور برازیل کے
درمیان ہونے والے میچزجب کہ اٹلی اور یوکرائن کے درمیان ہونے والا کوارٹر
فائنل فکس تھا، اور سٹے بازوں کا تعلق ایشیاء کے میچ فکسر سینڈیکیٹ سے تھا
جنہیں میچ کے فیصلوں کا قبل از وقت علم رہتاتھا۔ اکتوبر 2009ء میں جرمن
پولیس نے17 ایسے افراد کو گرفتار کیا جو 9ممالک میں منعقد ہونے والے
200مقابلوں کے دوران میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے تھے۔ ان میں سے12یورپین
لیگ اور تین چیمپئنز لیگ کے میچوں میں بھی شامل رہے تھے۔جون 2011ء میں فن
لینڈ میں فٹ بال میچز کے دوران میچ فکسنگ کے الزام میں بعض ٹیموں کے خلاف
تحقیقات کی گئیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے ’’ٹیمپرے یونائیٹڈ ‘‘کی ٹیم نے
اعتراف کیا کہ انہوں نے ایک مشہور سٹے باز سے پیسے لے کر میچ فکس کیا
تھا۔جولائی 2011ء میںترکی کی پولیس کی جانب سے فٹ بال میچوں میں میچ و
اسپاٹ فکسنگ اسکینڈلز کی وسیع پیمانے پر تحقیقات کی گئیں، جس کی بنیاد پر
محکمہ پولیس کے کرائم کنٹرول بیورو نےچیمپئن کلب ،فیزبینس کے چیئرمین، کلب
کے عہدیداروں، کھلاڑیوں کے علاوہ دیگر پندرہ صوبوں میں آپریشن کرکے سٹے
بازی میں ملوث 60 افراد کو حراست میں لیا گیا ، لیکن کسی ٹیم کے خلاف کوئی
بھی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ وہ اب بھی ٹرکش فٹ بال لیگ کی جانب سے میچوں
میں شرکت کرتی ہیں۔ 2013ء میں فٹ بال میچوں میں فکسنگ کے الزام میں
22لبنانی فٹ بالرز کے کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔2013 -
میںبرطانیہ میں’’ بلیک برن ٹیم‘‘ کے فارورڈ ڈی جے کیمبل سمیت 6افراد میچ
فکسنگ کے الزامات میں ملوث پائے گئے۔ بلجیم سے تعلق رکھنے والے اینٹی کرپشن
ادارے، ’’فیڈربیٹ‘‘ کی رپورٹ کے اجراء کے بعد برطانیہ کی نیشنل
کرائمزایجنسی نے مذکورہ افراد کو حراست میں لے لیا۔
ہالینڈ میں بھی فٹ بال میچوں میں اسپاٹ و میچ فکسنگ کی صدائیں سنائی
دیں،ذرائع ابلاغ میںان الزامات کی بازگشت کے بعد ملک کی فٹ بال ایسوسی ایشن
نے معاملے کی تحقیقات کروانے کا اعلان کیا۔ہالینڈ کے روزنامے ’’ڈی
ولکسکرانت ‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں درج تھاکہ، 10-2009 کے سیزن
کے دوران دوفٹ بال میچ فکس تھے۔ان میں ایک ٹیم ٹلگرک سے تعلق رکھنے والی ’’
ولم توے‘‘ تھی جب کہ اس کے مدمقابل ایمسٹرڈیم سے تعلق رکھنے والی
’’آئیکس‘‘ اور روٹرڈیم کی ’’فینورد ‘‘تھیں۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق میچ فکس
کرنے کے لیے رقم سنگاپور سے تعلق رکھنے والے ایک سنڈیکیٹ نے فراہم کی
تھی۔اس رپورٹ میں افریقی ملک سیرالیون سے تعلق رکھنے والے’’ ولم توے ٹیم‘‘
کے مڈفیلڈر ابراہیم کارگبو کومیچ فکسنگ کا اصل کردار بتایا گیا۔واضح رہے کہ
کارگبو کو ایک سال قبل سیرالیون کی قومی ٹیم سے تین دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ
معطل کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے2008 میں جنوبی افریقہ کے
خلاف ورلڈ کپ کوالیفائرمقابلہ فکس کیا تھا۔2007ء میںہالینڈ کے ایک انگریزی
اخبار کے رپورٹر نے خفیہ پلاننگ کے تحت ہالینڈ کے ایک کھلاڑی سے ملاقات کی
تھی، جو تیس ہزار پاؤنڈز کی خطیر رقم کے عوض میچ فکس کرنے پر تیارہو گیا
تھا۔ اس پلیئر نے پریمیئر لیگ کے علاوہ اس سے اگلے سال ورلڈ کپ کے میچوں
کوبھی فکس کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔اخبار کی رپورٹ کے مطابق میچ
فکسرز کا یہ سینڈیکیٹ پورے یورپ میں پھیلا ہوا ہے اور فٹ بال کے زیادہ تر
میچز اسی کی ایماء پر فکس ہوتے ہیں۔ ہالینڈ میں میچ فکسنگ کے اسکینڈل کے
منظر عام پر آنے کے بعدجرمن شہر بوخم میں یورپی فٹ بال کے نگراں ادارے
یوئیفا کے ماہرین اور جرمن استغاثہ Peter Limacher نے ایک نیوز کانفرنس میں
کہا کہ اِس اسکینڈل کی نوعیت دیکھ کر یوئیفا کے اراکین شش و پنج میں مبتلا
ہیں۔یوئیفا کے حکام کا کہنا ہے کہ، جرمنی میں بھی چمپیئنز لیگ کے تین میچوں
کے علاوہ یورپین لیگ کے بارہ میچ فکس کئے جانے سے متعلق انکوائری جاری ہے۔
یہ تمام میچ2007اور 2008کے درمیان کھیلے گئے تھے۔یوئیفاکے سیکریٹری جنرل
گیانی انفینٹن نے اِس معاملے کو ناقابلِ برداشت قرار دیا ۔پولیس نے اِس
سلسلے میں جرمنی کے علاوہ سوئٹزر لینڈ، برطانیہ اور آسٹریا میں پچاس مختلف
مقامات پر چھاپے مارے۔ اِن کارروائیوں میں سترہ افراد کو حراست میں لیا گیا
ہے جبکہ بھاری مقدار میں کرنسی اور گرفتار شدگان کی جائیداد بھی ضبط کر لی
گئیں۔ اِن میں سے پندرہ افراد کو جرمنی جب کہ دو کو سوئٹزرلینڈ میں گرفتار
کیا گیا ہے۔جرمنی میں اس سےچار سال قبل بھی میچ فکسنگ اسکینڈل سامنے آیا
تھا۔
اکتوبر 2015ء میں نیپال فٹ بال ٹیم کے کپتان اور ان کی ٹیم کے چار کھلاڑی
میچ فکسنگ کے الزام میں گرفتار کئے گئے ۔اس سلسلے میں پولیس ترجمان،
سربندرا کھنال نے بتایا کہ کپتان ساگر تھاپا، سندیپ رائے، رتیش تھاپا، بخش
سنگھ اور آنجن پر، ملائیشیا اور سنگاپور میں میچ ہارنے کے لئے بک میکر سے
رقم وصول کرنے کا الزام ہے۔ان کھلاڑیوں پر ان کے ’’بینک اسٹیٹمنٹ‘‘ چیک
کرنے کے بعدمقدمات درج کئے گئے جن میں میچ سے پہلے ان کے کھاتوں میں 2008ء
کے دوران بھاری رقومات کے اندراجات تھے۔2014ء میں فٹ بال کی عالمی تنظیم ،
فیفا کی انضباطی کمیٹی نے نیپال فٹ بال فیڈریشن کے سربراہ اور ایشین فٹ بال
کنفیڈریشن کے سابق نائب صدر، گنیش تھاپا کے خلاف مالی بے قاعدگیوں کے ضمن
میں تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
جون 2015میں اسپین کی درجہ اول کی لیگ کھیلنے والے نابارا کے کلب ۔
اوساسونا کے خلاف میچ فکسنگ اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے جج
نےمذکورہ کلب کو 9 لاکھ یورو کے عوض گزشتہ سیزن میں 3 میچ فکس کرنے کا
مرتکب قرار دیا۔ان میں سے ایک میچ میں بارسلونا کےکلب اسپانیول کو میچ
برابر کھیلنے کے عوض 250000 یورو کی ادائیگی اور بیتیس کلب کو بایادولید
کلب سے میچ جیتنے کے عوض 4 لاکھ یورو اور اوساسونا سے ہارنے کے عوض 250000
یورو کی ادائیگی شامل ہے۔ جج نے اوساسونا کلب کے بینک کھاتوں سے 24 لاکھ
یورونکالنے کی بھی تفتیش کرتے ہوئےاس بات کا سراغ لگانے کی کوشش کی کہ
مذکورہ رقم کن مدات میںخرچ کی گئی۔2013 میںیورپی یونین کے اسپیشل پولیس
یونٹ یورو پول نے اپنی ایک رپورٹ میںلکھا کہ اس نے 2008ء سے 2011ء کے
درمیان380 فٹ بال میچوں کے فِکس ہونے کے شواہد حاصل کیے ہیں۔ ہالینڈ کے
شہرہیگ میں یورو پول کے سربراہ روب وین رائٹ نے ذرائع ابلاغ سے گفتگوکرتے
ہوئے الزام لگایاکہ، فٹ بال کے مقابلوں اور اسپاٹ فکسنگ کی پشت پر ایشیا
میں قائم ایک منظم نیٹ ورک ملوث ہے۔ ان کے مطابق15 ممالک میں420 افراد میچ
فِکسنگ میں ملوث پائے گئے۔2012میںاٹلی کی عدالت نے فٹ بال پریمئر لیگ میں
میچ فکسنگ کرنے والے افراد پر ساڑھے باون لاکھ ڈالر کا جرمانہ عائدکیا
۔اطالوی عدالت نےفٹ بال فیڈریشن کی ساکھ تباہ کرنے کے جرم میں 14 افراد پر
بھاری جرمانے عائد کیے ہیں۔ اٹالین فٹبال لیگ کے2006 کے سیزن میں میچ فکسنگ
میں ملوث افراد میں سابق ریفری پاؤلو برگامو پر ڈیڑھ لاکھ ڈالر اور سابق
سلیکٹر پائرلوگی پر دس لاکھ ڈالر کا جرمانہ عائدکیا گیا جب کہ فٹ بال
فیڈریشن کے سابق نائب صدر پر 91لاکھ، 8ہزار ڈالرجرمانہ عائد کیا گیا
۔نومبر2016میں لاؤس سے تعلق رکھنے والےچارفٹ بالر زکو ایشین فٹ بال
کنفیڈریشن نے میچ فکسنگ کے الزام میں 60 دن کیلئے معطل کر دیا ۔ کنفیڈریشن
کا کہنا تھا کہ ان پر صرف سالیڈریٹی کپ میں میچ فکسنگ کا الزام نہیں ہے
بلکہ 2010 سے مختلف میچوںکو فکس کرنے کے الزامات بھی ہیں ۔ فروری 2012ء میں
میچ فکسنگ الزامات ثابت ہونے کے بعد زمبابوے کی فٹ بال فیڈریشن نے 80
کھلاڑیوں کو معطل کر دیا۔ان پلیئر ز میں قومی ٹیم کی جانب سے کھیلنے والے
کھلاڑی بھی شامل ہیں۔ |