امت کے مابین اجنبیت اور دوری بڑھانے میں مسلکی شدت پسندی
نےجس قدر منفی کردار ادا کیا ہے اورجتنا نقصان پہنچایا ہے شاید ہی کسی
دوسرے عمل سےپہنچا ہو ،ایسا نہیں ہے کہ ان علماء یا ائمہ و مشائخ نےایسا
کہیں لکھ دیا ہو کہ خبردار نہ صرف یہ کہ آنکھ بند کرکے ہماری تقلید کی
جائے بلکہ دیگر علماءو مجتہدین کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔لیکن آج
ہمارا طرز عمل اور فکری انتشار اسی بات کی شہادت دے رہا ہے جبکہ حقیقت یہ
ہے کہ ان ائمہ و مجتہدین کے درمیان اختلاف رائے کےباوجود حسن ظن اور باہمی
احترام و محبت کاجذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا تاریخی واقعات اس بات کے
گواہ ہیں کہ ان علمائے کرام نے ساری عمریں دین سمجھنے اور سمجھانے میں صرف
کردیں دن رات قرآن و احادیث کے لامحیط سمندر میں ڈوب کر فقہ کی تدوین کی
اور امت کیلئے دین فہمی آسان کردی ہمیں ان کا احسان مندہونا چاہیئے کہ
انہوں نے اپنے عیش وآرام کو تج کرامت کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافی
مسائل کا حل اپنی علمی ذہانت سے پیش کردیا ۔امام شافعی ؒکے تعلق سے بتایا
جاتا ہے کہ ایک بار وہ کوفہ تشریف لے گئے تو امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے مزار
اقدس پر حاضر ہوئے اور اس سے متصل مسجد میں تین دن قیام کیا ،اس دوران
انہوں نے نمازوں میں آمین بالجہر اور رفع یدین کا اہتمام نہیں کیاتو لوگوں
نے استفسار کیا کہ آپ نماز میں آمین بالجہر اور رفع یدین کے نہ صرف قائل
ہیں بلکہ زندگی بھر اسی کی تبلیغ وتوجیح کرتے رہے ، لیکن آج آپ کا عمل اس
کے برعکس کیوں ہے، آپ نے فرمایامیرا موقف آج بھی وہی ہے اور انشاءاللہ
آئندہ بھی رہےگا دراصل اس طرز عمل کی وجہ صاحب مزارہیں، امام ابوحنیفہ ؒچونکہ
اس کے قائل نہیں تھے اس لئے ان کے احترام میں یہ عمل عارضی طور پر میں نے
ترک کردیا ہے ۔اسی طرح ایک مرتبہ امام ابوحنیفہ ؒمدینہ منورہ تشریف لے گئے
وہاں مسجد نبوی ؐمیں معروف محدث امام مالک ؒدرس حدیث میں مصروف تھے امام
مالک استقبال کیلئے اٹھ کھڑے ہوئےاور طلباءکو چھٹی دے دی طلباء نے سوال کیا
کہ حضرت آپ کے اس عمل نےہمیں حیرت زدہ کردیا ہے آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا
کہ دوران درس کتنی ہی بڑی شخصیت کیوں نہ آجائے یہاں تک کہ بادشاہوں اور
وزراء تک کے آجانے پر بھی آپ نے درس بند نہیں کیا نہ ہی استقبال کیلئے
کھڑے ہوئے، ہمیں بتایئے کہ آخرکیا وجہ ہوئی کہ آپ نےمعمولات میں تبدیلی
کردی ۔ فرمایا تم نہیں جانتے یہ بہت بڑے عالم دین اور علم کلام کے ماہر ہیں
ان کی خدادا ذہانت اور علمی رفعت کا حال یہ ہے کہ اگر وہ چاہیں تو مسجد میں
جو لکڑی کے ستون نصب ہیں وہ اپنے علم کے زور پر ثابت کردیں کہ یہ لکڑی کے
نہیں سونے کے ہیں ۔
امام حنبل ؒ جنہوں نے پوری حیات مبارکہ دین کے حصول اور اس کی نشر و اشاعت
میں صرف کردی اور مسئلہ ٔ ’خلق قرآن ‘ پر عباسی خلفاءکے سامنے سینہ سپر
ہوگئے ،طرح طرح کی اذیتیں برداشت کیں لیکن حق کو سرنگوںنہیں ہونے دیا وہ
کہتے ہیں کہ میں نےاپنے زمانے میں زہد و تقویٰ کی زندگی گزارنے میں امام
شافعی ؒ کا ثانی نہیں دیکھا ان کا علم و فضل بے مثال تھا ۔یہی حال دوسرے
علماء ائمہ و مجتہدین کا تھا جو زہد و تقویٰ میں بے مثال تو تھے ہی ان کے
آپسی تال میل اور محبت کی قسمیں کھائی جاسکتی تھیں ۔عجیب بات ہے ان کی
صفات کا تذکرہ محض ہم فخریہ طور پر تو کرتے ہیں لیکن ان سے کوئی سبق نہیں
لیتے ۔’’مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ قادیان ( پنجاب ) میں
ہر سال ہمارا جلسہ ہوتا اس جلسے میں مولانا محمد انورشاہ کشمیری ؒبھی شریک
ہوا کرتے ،دوران قیام ایک دن نماز فجر کے وقت ان کی خدمت میں پہنچا تو حضرت
سرپکڑے مغموم بیٹھے تھے میں نے خیریت دریافت کی تو کہنے لگے میاں کیا
پوچھتے ہو ہم نے اپنی عمر ضائع کردی میں نے عرض کیا حضرت آپ کی تو ساری
عمر علم کی خدمت اور اشاعت دین میں گزری ہے آپ کے ہزاروں شاگرد علماء ہیں
جو آپ سے مستفید ہوکر خدمت دین میں مصروف ہیں ۔فرمایا میں صحیح کہتا ہوں
عمر ضائع کردی ،ہماری تقریروں کا ہماری ساری کدوکاوش کا خلاصہ یہ رہا ہے کہ
دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کریں ،امام ابوحنیفہ کے مسائل کے
دلائل قائم کریں ،دوسرے ائمہ کے مسائل پر آپ کے مسلک کی ترجیح ثابت کریں ،یہ
رہا ہے کہ محور ہماری تقریروں کا ،کوششوں کا اور علمی زندگی کا ۔حضرت شاہ
صاحب کےالفاظ یہ تھے ،اللہ نہ شافعیؒ کو رسوا کرے گا نہ ابوحنیفہؒ کو نہ
مالکؒ کو نہ ہی احمد بن حنبلؒ کو جن کو اللہ نے اپنے دین کے علم کا انعام
دیا ہے ،جنہوں نے نورہدایت چہارسوپھیلایا جن کی زندگیاں سنت کا نور پھیلانے
میں گزریں اللہ ان میں سے کسی کو رسوا نہیں کرے گا کہ وہاں میدان حشر میں
کھڑاکرکے یہ معلوم کرے کہ ابوحنیفہ نے صحیح کہا یا شافعی نے غلط کہا تھا یا
اس کے برعکس ،یہ نہیں ہوگا ۔تو جن چیزوں کو نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے نہ
برزخ میں نہ ہی محشر میں ،اسی کے پیچھے پڑکر ہم نے عمر ضائع کردی اور ساری
قوت صرف کردی اورجو صحیح اسلام کی دعوت تھی اور سبھی کے مابین جو مسائل
متفقہ تھے اور جو دین کی ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں ،جن کی دعوت کو
عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا اور وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر
فرض تھی آج یہ دعوت نہیں دی جارہی ہے ۔یہ ضروریات دین تو لوگو ں کی نگاہوں
سے اوجھل ہورہی ہے او ر اپنے و اغیار کے چہرے کو مسخ کررہے ہیں اور وہ
منکرات جنہیں مٹانے میں ہمیں لگنا تھا وہ پھیل رہے ہیں ۔گمراہی پھیل رہی ہے
، الحاد بڑھ رہا ہے ،شرک و بت پرستی پھیل رہی ہے ، حلال و حرام کا امتیاز
اٹھ رہا ہے لیکن ہم انہی فرعی و فروعی بحثوں میں لگے ہوئے ہیں ۔( ماخوذاز
اسباق تاریخ ،مولانا وحیدالدین خان ) آج ہماری حیثیت صفر سے بھی نیچےپہنچ
رہی ہے ، بابری مسجدکےجبری انہدام کے بعد سے ہی اس جگہ پرعظیم مندر کی
تیاری برسوں سے جاری ہے ۔ گایوں کے تحفظ کے نام پر پورے ملک میں قتل و غارت
گری کا طوفان مچا ہوا ہے ،داڑھیاں نوچی جارہی ہیں،مساجد کے اماموں کوقتل
کیا جارہا ہے۔ ظلم و طغیان کا سیلاب بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گیا کہ اب
کھلے عام شریعت میں مداخلت شر وع ہوگئی ہے ،طلاق ثلاثہ کا معاملہ جو کہ
خالص مذہبی شق سے تعلق رکھتا ہے جس کی آئین ہند میں اجازت دی گئی ہے اس کے
باوجود مسلمانوں کو اتنا کمزور و بے وقعت سمجھ لیا گیا ہے کہ حکومت نے اتنی
بھی ضرورت نہیں محسوس کی کہ اس تعلق سے مسلم علماء اور دانشوروں سےہی صلاح
ومشورہ کرلیا جائے۔ دوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ گذشتہ ۲۸؍دسمبر کو
پارلیمنٹ میں جب بل پیش کیا گیا تو اس کی مخالفت اسدالدین اویسی نے تنہا کی
اور ۲۲؍مسلم ممبران پارلیمنٹ کوجیسے سانپ سونگھ گیا وہ خاموش رہے یا حاضر
ہی نہیں ہوئے ۔جس کا مطلب صاف ہے انہیں پارٹی عزیز ہے مذہب نہیں،کچھ سمجھے
آپ ، اگر ہم اب بھی نہ جاگے توآنے والاکل کتنا سنگین ہوگا کچھ کہا نہیں
جاسکتا ۔آپ سن رہے ہیں نا ۰۰۰ |