گھر

 شہزاد احمد پچھلے بیس برس سے واپڈا کے محکمے میں کام کررہے ہیں۔اپنی عمر کے پچسویں برس وہ بطور سب انجنیر اس محکمے سے وابستہ ہوئے اور آج وہ اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے پراپرٹی ڈیلر کے پاس پہنچے وہ اسوقت اپنی زندگی کے پینتالیس برس گزار چکے تھے اور اس کے دل میں ایک ہی خواہش تھی وہ یہ کہ اپنی اولاد کے لیے شہر میں گھر بنا سکے ۔اسے جب ملازمت ملی تو اسکی ماں نے پورے گاوں میں شیرنی بنا کر بانٹ دی گاوں کے سب لوگ اس پر رشک کررہے تھے کیونکہ وہ واحد شخص تھے جسے سرکاری ادارے میں ملازمت ملی ورنہ باقیوں کا یہ حال تھا کہ جب بھی کوی لڑکا جوان ہوتا تو اسکے لیے ویزے کا بندوبست کرنا پڑتا تاکہ ملک سے باہر بھیج کر وہ اتنا کما سکے کہ گھر میں دال روٹی دو وقت ارام سے کھای جا سکے اور چند سال باہر ملک میں محنت مزدوری کرنے کے بعد اسکی شادی کرای جاتی اور یوں وہ اپنے بچے کے بڑا ہونے کا انتظار کرنے لگتاگویا کہ سب کی زندگیاں انتظار کرتے کرتے گزر جاتی لیکن انتظار کی یہ روایت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھی یہی وجہ تھی کہ سب کی نظریں شہزاد احمد پر تھی اور وہ گاوں میں ایک منفرد شخص نظر آنے لگتا ۔جب وہ پراپرٹی ڈیلر کے آفس گیا اور ان سے شہر میں گھروں کی قیمت معلوم کرنے لگا ۔پراپرٹی دیلر نے بتایا کہ آجکل تو گھر دومنزلہ ہونا چاہییآسانی سے بندہ ایک اپنی رہایش کے لیے استعمال مے لا سکتا ہے اور دوسری منزل کراے پر دیکر کمائی بھی کی جاسکتی ھے اور شہر کا تو یہ حال ہے کہ لوگ کھروں کے کمروں تک کرائے پر لگادیتے ہیں۔شہزاد احمد نے دیلر کی یہ باتیں سن لی تو دومنزلہ گھر سونے پہ سہاگا دکھای دینے لگا اور اسکی باتوں کی حمایت کرتا رہا۔پراپرٹی ڈیلر سے واپسی پر انھوں نے گھر کے لیے سوداسلف خریداور گھر آکر بیگم کو اپنے سھانے خوابوں کی تعبیر سنای۔بیگم یہ سن کر اور بھی خواب دیکھنے لگی بچوں کا مستقبل جو پہلے کبھی دھندلہ ہوتا مگر اب روشن دکھای دینے لگااور کچھ محفوظ بھی۔یہ نہ صرف شہزاد کی بیگم ہی نہ تھی بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوے جب اسے توڑنے کی کوشش نہیں کی جاتی اور مایوسیت کا نشہ قوموں پر طاری ہوجاتا ہے تو انکے خواب کھبی بھی حقیقت نہی بنتیاور زوال ہی کی ترف ایسی قومیں چھلانگیں لگاجاتی ہیں قیونکہ ایسی قومیں کسی ایسی طاقت کے انتظار مین رہتی ہیں جو ہوا بھی نہیں کرتا ۔شہزاد احمد کے کچھ دوست تھے جو شہر میں رہتے تھے اس نے ان دوستوں سے بھی مشورہ کرنے کے لیے شہرجانے کا ارادہ کیا گاوں کے راستوں اور پگڈنڈیوں سے گزرتے ہوے اسے برتری کا احساس ہونے لگااس کے زہن میں یہ باتیں گردش کررہی تھی کہ یہ سب کچھ یہی پر تھا ہی اور رہیگا مگر وہ اب ترقی کرنے لگا ہے برتری کا احساس ہونا ناجایز نہں لیکن حقایق سے منہ موڑنا بیوقوفی ہے کیونکہ اگر کوی ایسا شخص جس کے پیروں تلے زمین تک نہ ہو اس پر سوار ہوجاے تو وہ آسمانون کی سیر تو کرجاتا ہے لیکن جب زمین پر آتا ہے تو اسکی اپنے حصے کی زمین بھی اسے میسر نہیں آتی۔جب اسکی ملاقات اپنے دوستوں سے ہوی تو اس نے دوران ملازمت پینتالیس لاکھ روپیہ جمع پونجی کا ذکر کیا اور اس سے وہ ایک گھر خریدنا چاہتاتھا انہوں نے مختلف علاقوں کے حساب سے قیمتیں بتای تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گی۔اسکے ایک دوست نے بتایا کہ اندرون شہر میں تقریباـــ تیس لاکھ کے مرلہ کے حساب سے صرف جگہ مل سکتی ہے لیکن اگر تم اپنے بچوں کو ایک اچھی جگہ ایک خوبصورت گھر بنا کر دینا چاہتے ہو تو اس حساب سے قیمت دوگنی ہو جاتی ہے شہزاد احمد نے جب یہ سنا تو دل میں کہا کہ بیس سالہ جمع پونجی سے وہ ایک مرلہ گھر بھی تعمیر نہیں کر سکتا اور اسے شہر تاریک دکھائی دینے لگا

Waqar Ahmad
About the Author: Waqar Ahmad Read More Articles by Waqar Ahmad: 15 Articles with 30297 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.