زندگی ایک بار ملتی ہے مگر ہم دکھوں ،پریشانیوں اور
مصیبتوں کی نظر کرکے دنیا میں ہی اپنی زندگی کو عذاب بنا لیتے ہیں اور
ہماری زندگی میں آنے والی اکثر مشکلات خود ہماری پیدا کی ہوئی ہوتی ہیں
کیونکہ ہم اکثر دوسروں کو ٹینشن،تکلیف اور دکھ پہنچانا چاہتے ہیں ایک دوسرے
کا برا سوچتے ہیں منافقت میں ایک دوسرے پر بازی لے جانا چاہتے ہیں اور کسی
کو ترقی کرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے اسکی ٹانگیں کھینچنا اپنا فرض سمجھتے ہیں
غیبت ایک عام بیماری بن چکی ہے جہاں چار دوست اکٹھے ہوں وہاں کسی نہ کسی
غیر موجود فرد کی برائی کرنا ضروری ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ جسکا جتنا زور
چلتا ہے وہ اپنی اوقات کے مطابق اس برائی میں شامل ہوجاتا ہے اپنے گھر کا
کچرا دوسروں کے دروازے پر پھینکنا بھی عام سی بات ہے اور تو اور لائن میں
لگے ہوئے افراد کو چھوڑ کر براہ راست کھڑکی تک پہنچنے کی کوشش بھی کرتے ہیں
اور ہر کام میں کوئی نہ کوئی سفارش،تعلق اور دوستی ڈھونڈ کر سب سے پہلے
اپنا کام کروانا چاہتے ہیں بغض اور حسد ہم ہر وقت اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں
اور موقعہ ملتے ہیایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں
کھانے میں زہر ،لفظوں میں زہر اور اپنی حرکتوں میں زہر لیے ہم دوسروں کی
خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں اور تو اور اچھے کام کرنے والوں کو بھی ہدف
تنقید اور انکے اچھے کاموں میں کیڑے تلاش کرنا ہم نے اپنی عادت بنا لی ہے
ایک بار ملنے والی زندگی کو ہم نے خوشیوں کی بجائے ایسی پریشانیوں سے دوچار
کررکھا ہے جو خود ہماری اپنی پیدا کی ہوئی ہیں ہم میں سے ہر فرد خریداری
کرتا ہے ہم ایک ہاتھ سے پیسے دیتے ہیں تو دوسرے ہاتھ سے چیز لے لیتے ہیں یہ
ایک دنیا وی معاملہ ہے اور جس نے یہ ساری کائینات بنائی وہ ہمیں اپنا اور
کسی کا مقروض کیسے رکھ سکتا ہے مگرہم اگر کسی کے ساتھ بھلائی کریں تو وہ اﷲ
کریم کی ذات اس بھلائی کا بدلہ فورا ہمیں لوٹا دیتے ہیں اگر کسی کے ساتھ
برائی کرتے ہیں تواس کا بدلہ بھی لازمی طور پر ہمیں ملے گا مگر کچھ وقت کے
بعد کہ شائد انسان سمجھ جائے اور اپنی کی کوئی برائی پر شرمندہ ہو کر توبہ
کرلے ایک بات طے ہے کہ اگر ہم کسی کے ساتھ کوئی برائی کرتے ہیں تو اسکا
نقصان بھی ہمیں اسی دنیا میں ہو گا خواہ کسی بھی صورت میں ہو اگر ہم نے
کوئی اچھائی والا کام کرلیا تو اسکا بدلہ ہمیں دنیا میں بھی ملے گا اور
آخرت میں تو لازمی وہ اچھائی ہمارے لیے باعث مسرت ہوگی بس ہم اپنی نیت کو
اچھی رکھ کر دوسروں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرتے رہیں ہماری فلاح وبہبود
خود بخود ہونا شروع ہوجائیگی یہ تجربہ آج سے شروع کردیں پھر دیکھنا کہ دنیا
کی تمام آسائشیں ہاتھ باندھیں آپ کے سامنے کھڑی ہونگی آپ کو جس چیز کی
ضرورت ہو اسے دوسروں میں بانٹنے کا حوصلہ پیدا کیجیئے۔ پھر چاہے وہ رزق ہو،
سکون ہو، عزت ہو، محبت ہو یا پھر آسانیاں ہوں۔ یقین مانیئے، وہ واپس پلٹ کر
آپ کے پاس آئیں گی ضرور۔۔۔کیونکہ یہی قانون قدرت ہے اور ایسے ہی انسان کو
اندرونی خوشی میسر آتی اس کے ساتھ ساتھ انسان اپنی زندگی کو صحت مندرکھنے
کے لیے سیر ضرور کرے فضول کھانے پینے سے پرہیز کرے بلخصوص بازاری کھابے جن
میں سوائے ملاوٹ والی اشیاء کے اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ ہم منافع خوری میں
اس حد تک اوپر جاچکے ہیں کہ ایک دوسرے کو کھانے میں بھی زہر بیچ رہے ہیں
ملاوٹ والا دودھ ،ملاوٹ والا جوس ،ملاوٹ والی مرچیں اور ملاوٹ والے رویے
ہماری پہچان بن چکے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں شوگر کا مرض ایک خطرناک
حد تک جا پہنچا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں شوگر کے مریضوں کی
تعداد 70 لاکھ سے زائد ہے تاہم اگر اس سے بچاؤ کے لیے عوام میں شعور بیدار
نہ کیا گیا اور موثر اقدام نہ کیے گئے تو 2040 میں شوگرکے مویضوں کی تعداد
ایک کروڑ 40 لاکھ سے تجاوزکر جائے گی اور ہم شوگر کے مرض کے حوالے سے دنیا
میں ساتویں سے چوتھے نمبر پر آجائیں گے اور اس مرض کے حوالہ سے ماہر
ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ شوگر کوئی بیماری نہیں آپ کا لائف سٹا آئل ہے بس اسے
تبدیل کرکے شوگرکے مرض سے بچا جا سکتا ہے اور اسکے لیے کچھ یونیورسل ٹپس
ہیں جیسے کھانا زندہ رہنے کے لیئے کھائیں یعنی کم کھائیں،رات کا کھانا سونے
سے ڈھائی گھنٹے پہلے کھائیں ،ورزش کو معمول بنائیں، صبح میں چہل قدمی کیجیے،
بہت ہی کم فاصلے کے لیے بجائے گاڑی یا موٹر سائیکل کی بجائے پیدل چلنے کی
عادت ڈالیے، میٹھے کا استعمال کم کیجیے (کوشش کریں کہ قدرتی میٹھا استعمال
کریں جیسے شہد، کھجور، دیگر فروٹس )، ہر موسمی پھل ضرور کھائیں، چینی زہر
ہے، ہوسکے تو '' گڑ اور شکر '' استعمال کریں اس میں کیمیکل نہ ہونے کے
برابر ہوتے ہیں، تیس سال کی عمر کے بعد چینی کی جگہ مصنوعی میٹھا '' کینڈرل
یا میڈیکم سویٹنر '' استعال کریں وہ بھی کم اسکے اپنے سائیڈ افیکٹ ہیں،
سبزی سلاد کا استعمال زیادہ کیجیے، کولڈ ڈرنک سے مکمل پرہیز کریں، تلی ہوئی
چیزیں بجائے پیٹ بھرنے کے صرف ذائقے کے لیے استعمال کریں، چکنائی سے پاک
دودھ اور دہی استعمال کریں،بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل کو مکمل چھوڑ کر دیسی
گھی یا سرسوں کا تیل استعمال کریں جو انسانی جسم میں قوت مدافعت پیدا کرتا
ہے اسکے ساتھ ساتھ ایک نارمل انسان کو پورے دن میں آٹھ سے دس گلاس پانی
پینا اپنامعمول بنالینا چاہیے ویسے آجکل ایک اور بیماری بہت تیزی سے پھیل
رہی ہے جسے خاموش قاتل بھی کہا جارہا ہے یہ انسان پرخاموشی سے حملہ آور
ہوتی ہے اور چپکے چپکے اپنا کام جاری رکھتی ہے اور جب یہ اپنا آپ طاہر کرتی
ہے تو اس وقت تک انسان کا جگر یہ ختم کرچکی ہوتی ہے اس بیماری کو
ہیپاٹاٹئٹس کہتے ہیں جو اکثر بے احتیاطی سے لگ جاتی ہے اس حوالہ سے بھی
تفصیل کے ساتھ بات ہوگی مگر پھر کبھی کسی وقت اب یاد رکھنے کی اہم بات یہ
ہے کہ بہترین زندگی کے لیے سادگی اپنائیں جبکہ خوشیوں بھری زندگی کے لیے
خوشیاں بانٹیئے ۔ |