دوسری جنگ عظیم میں جب یو
رپ کے شہروں پر بمبا ری شروع ہو ئی تو صدیوں پر انے مصوری کے اعلیٰ نمو نے
، قدیم گھڑیا ں ، قیمتی مر تیا ں اور بر تن میو زیم کے تہ خا نوں میں
انتہائی حفا ظت سے چھپا دیے گئے ایک طر ف خوراک ،دواﺅں کی قلت تھی لوگ رو
ٹی کے ایک لقمہ کو ترس رہے تھے ان حالات میں لوگ بھوک مٹانے کی خاطر کوئی
بھی قیمت لگا نے کو تیا ر ہو سکتے تھے یو رپی اقوام کو اپنی جان بچانے کی
فکر تھی مگر وہ اپنی جا ن دینا تو قبول کر سکتے تھے مگر اپنی تہذیب و ثقا
فت کا سودا کر نا قبول نہ تھا انھیں اس با ت کا ذ مہ دارانہ احسا س بھی تھا
کہ وہ اپنی اگلی نسل تک اپنے تہذیب وثقا فت اپنے تا ر یخی ورثے کو منتقل کر
نے کا کام بھی پورا کر نا ہے آج یو رپی شہروں میں آبا د میو زیم ، فن وثقا
فت سے بھر پو ر آرٹ گیلر یاں انھی عظیم لو گو ں کی قر با نیوں کا ثمر ہیں
جنھوں نے اپنی جا ن کی پروا نہ کر تے ہو ئے اپنے ورثے کی حفا ظت کی اسے
اپنی اگلی نسلوں کے لیے محفو ظ کیا زندہ قو میں اپنی تہذ یب و ثقا فت کی
حفا ظت میں ہمیشہ کمر بستہ رہتی ہیں ان سے وا بستگی کا اظہا ر زند ہ قو موں
کی نشا نی ہے وہ قو میں بہت خو ش قسمت ہو تی ہیں جن کا ایک مضبو ط کلچر ،
تا ریخ اور ثقا فت روایا ت ہو ۔
پاکستا ن اس لحا ظ سے بہت خو ش قسمت ملک ہے جس کے چا روں صو بے اپنی رو ایا
ت ، کلچر ، فن و ثقا فت کی دولت سے ما لا ما ل ہے ۔ ۴ دسمبر کو صوبے سندھ
نے فن و ثقا فت کے حوا لے سے منا نے کا فیصلہ کیا ہے صوبہ سندھ تاریخی
حوالے سے ہزاروں برس پر انی روایا ت ا ور لو ک داستا نو ں کی تاریخ رکھتی
ہے مو ئن جو دوڑو اور ہڑپہ کے آثار سے لے کر آج کے سا نئسی دور تک اس سر
زمین پر بہت سے با دشاہ ، فاتح اور حکمر اں گزرے جنھوں نے اپنے اپنے ادوار
میں عوام پر اور ان کے دلوں پر فتح حا صل کر نے کو ششیں کی مگر نا کا م ہو
ئے حقیقی فتح بزرگان دین اور صوفیا کرام کو نصیب ہوئی آج بھی لو گوں میں
سماجی بیداری اور شعور پیدا کر نے میں مزار عرس اور خانقا ہوں نے اہم کر
دار ادا کیا ہے شاہ عبدالطیف بھٹا ئی، سچل سر مست ،عنا یت شاہ اور سامی
جیسے بز رگوں نے اس کی تہذیب وتمدن میں اہم کردار ادا کیا میلے ٹھیلے ،
مزار ،عرس خانقا ہوں کے صوفیا نہ ماحول دلوں کے کدورت دور کر نے میں پیش
پیش رہے آج کی تہذیب و ثقا فت سے سندھی شعراء کرام کو الگ کر کے نہیں دیکھا
جا سکتا موجودہ زما نے میں بھی شاہ لطیف کا پیغا م سندھ کی رگوں میں لہو بن
کر دوڑ رہا ہے سندھ کی تہذیب وثقا فت کا اہم حصہ اس کے ما یہ ناز ادیب بھی
ہیں جنھوں نے اپنی کتا بوں اور لو ک داستا نوں میں اس سر زمین کی روایا ت
اور تہذیب کو زندہ رکھا ہوا ہے وہ خواہ سو ھبو گیا ن چندانی ہوں شیخ ایا ز
اور امر جلیل یا دیگر ہوں ۔
۴دسمبر یو م ثقا فت منا نے کا اعلا ن جس کی تیا ریا ں زور و شور سے جا ری
وسار ی ہیں اس کا مقصد سند ھ کی تہذ یب وثقا فت کو اجا گر کر نا ہے اس مو
قع پر مختلف سما جی اور سیا سی جما عتیں ثقا فتی پر واگر م منعقد کر یں گی
سندھی اجر ک اور ٹو پیا ں جو سند ھی تہذ یب کا خاص حصہ ہیں بڑے پیما نے پر
تقسیم کی جا رہی ہیں پچھلے سال جب یہ دن منا یا گیا تھا تو ر یکا رڈ تعداد
میں سند ھی ٹو پیا ں اور اجر ک فروخت ہو ئیں تھیں ایم کیو ایم سمیت دیگر
جما عتوں نے سند ھ سے اظہا ر یک جہتی اور محبت کے لیے ٹو پی اور اجر ک پہنی
او ر تحفہ میں بھی دیں سندھ کی روایات کے مطا بق جب کو ئی مہما ن سند ھو
دیش میں قد م رکھتا ہے تو اس کی عزت وتکریم کے لیے بطور تحفہ سند ھی ٹو پی
اور اجر ک دی جا تی ہے سندھی ٹو پی کی خوبصورت بنا وٹ اس میں لگا ئے گئے
شیشے ، ستارے اور موتی کے ساتھ با ریک کام کی بنا ئی میں جو عرق ریزی بلکہ
دیدہ ریزی درکا ر ہے وہ اسے دیگر صوبوں سے ممتا ز کرتی ہے اس کا سارا کا م
ہا تھوں کی محنت کا ثمر ہے سندھی اجر ک کے با رے میں سندھ کی ما یہ نا ز
مصنفہ کہتی ہیں کہ ” اگر کو ئی نہیں جا نتا کہ ہما ری تا ریخ اور تہذ یب
میں اجر ک کی قدامت کتنی ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے تو اس کی نا واقفیت کے
با رے میں صرف افسو س کیا جا سکتا ہے سند ھو کے کنا رے کپڑا بننے اور اس کی
چھپا ئی کی شہا دت کا قدیم ثبوت دجلہ و فرات کی کھدا ئی میں نکلنے والی گا
ئے اور بیلوں کے مجسموں پر پڑے ہو ئے کپڑے کے ٹکڑے پر بھی ہما رے مو ئن جو
دڑو کے راج پروہت کے شا نے سے لپٹی ہو ئی شال پر چھپا ہوا سہ بر گے کا نمو
نہ دکھا ئی دیتا ہے ہزاروں برس پہلے سند ھو کے میٹھے پا نی نے کپا س کو
سینچا عورتوں نے کپا س چنی مردوں اور عورتوں نے مل کر چر خے پر سوت کا ٹا
اور اجر ک کا تا ریخی سفر شروع ہو ا اور پھر یہ سلسلہ ڈھاکہ کہ ململ اور
سوسی کے تھا نوں تک درازہو تا گیا “
اجر ک سوتی کپڑے سے بنا ئی جا تی ہے جس تیا ری میں سندھو دیش کی زرخیز مٹی
، پانی ، گو ند ، گو بر ، نیل اور دیگر اجزا کی آمیز ش شامل ہے پھر اسے
دنوں دریا میں ڈبو یا جا تا ہے مو ئن جو دڑو کی کھدا ئی کے دورا ن ایک رنگ
ریز حوض بھی دریا فت کیا گیا سند ھو کے ساحل پر نیل کی کا شت کے آثار بھی
ملے ہیں لکڑی کے دیدہ زیب ٹھپوں پر سبز یوں کے قدرتی رنگوں سے سوتی کپڑے پر
نقش و نگا ر سندھ کے ہنر مندوں کی مہا رت کا منہ بو لتا ثبو ت ہے ان ہنر
مندوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہو ئے شاہ عبد ا لطیف فرما تے ہیں
چلو تو کو ریوں ( جو لا ہوں) کے پا س چلتے ہیں جہا ں پیا ر بنا جا تا ہے
وہ لو گ سارا دن دھا گے جو ڑتے ہیں کیو ں کہ انھوں نے محبت کا دھا گہ توڑنا
نہیں سیکھا
سندھی ٹو پی اور اجر ک منا نے کا مقصد پو رے ملک میں سندھ کی تہذیب و ثقا
فت کو جا ننے کا مو قع فر اہم کر نا بھی ہے سندھ کی تہذیب اس کی میٹھی زبا
ن کے با رے میں دیگر صو بوں کو اور خو د ہما ری نسلوں کو آگا ہی دینا ہے
وطن سے محبت ایک قدرتی جذ بہ ہے انسا ن جس دھرتی پر پیدا ہو تا ہے اس سے بے
پنا ہ محبت کر تا ہے پاکستا ن کے چاروں صوبے ہما ری روایا ت تہذیب وثقافت
کا مہکتا گلدستہ ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ تما م صوبوں کے ثقافت و روایات کو
منا یا جا ئے کیو نکہ ہم سب کو پا کستا ن کے تما م ثقافتی روایا ت اور
قدروں سے محبت ہے۔ |