تھر کی تپتی،پیاسی سر زمین جہاں کے باسی صدیوں سے بھوک
اور پیاس کے ننگے ناچ پر مجبور اُمید و نااُمیدی کے چراغ جلائے نہ جانے کس
کی آس پر سانسوں کی ڈور کو تھامے جیے جا رہے ہیں۔ڈھانچے نُما جسم، دھنسی
ہوئی آنکھیں،سو کھی زبانیں،خالی پیٹ اور ضرورتوں کو ترستی روحیں۔یہ ہے تھر
کی وہ مخلوق جسے تھری کہا جا تا ہے۔اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے پتھر کے
بتوں میں آخرکا ر کچھ جنبش کے آثار ہیں۔شاید ان بُتوں نے صدآئے ابراہیم سُن
لی ہے اور اپنے انجام کی ہوا کے گرم اور جُھلسادینے والے جھونکوں کو محسوس
کر لیا ہے۔
ایسا کیا ہے جو اس دھرتی میں نہیں ہے۔قدرتی وسائل سے مالا مال اور مصنوعی
مسائل کے انبار سے لدی اس سر زمینِ پاک کی کو ئی مثال نہیں۔پنجاب کی زرعی
زمینیں ہوں یا خیبر پختون خواہ کے خوش نُما اور دلفریب سیاحتی مقامات
ہوں۔بلوچستان کے معدنی وسائل کی بات کریں یا سندھ کے کو ئلے کا ذکر
کریں۔سندھ کی مٹی کچھ الگ ہی تاثیر لیے ہو ئے ہے۔اس کی مثال کسی ہو ٹل کے
ایک پلیٹرPLATTER) (کی سی ہے جس میں ہو ٹل کے تمام سالن مو جود ہو تے
ہیں۔سند ھ کی دھرتی کے ساتھ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔یہاں زرعی زمینیں بھی
ہیں تو معدنی وسائل بھی،سیاحتی مقامات سے صحراؤ ریگستان اور سمندر سے دریا
اللہ تعالی ٰ کے انعامات کی صُورت موجود ہیں۔فقدان ہے تو بس نیت کا۔خدا خدا
کر کے کُفر ٹو ٹا کے مصداق سندھ گو رنمنٹ نیند سے بیدار ہو ئی ۔صحرائے تھر
کے عظیم و شان کو ئلے کے ذخائر کو استعمال میں لانے کے لیے سندھ حکومت حرکت
میں آچُکی ہے۔سند ھ کے کو ئلے کے حوالے سے متضاد بیانات اور آراء سُننے کو
ملتی ہیں لیکن وہاں کے جاری ترقیاتی کاموں کا عینی شاہد ہو نے کے بعد خوشی
ہے کے دیر سے ہی سہی صُبح ہو نے کو ہے۔اس منصوبے پر دو کمپنیاں "سندھ
اینگرو کول مائن (SECMECاور "اینگرو پاور تھر لیمٹڈ" (EPTL) کام کر رہی
ہیں۔اس منصوبے کو بُنیادی طور پر سندھ حکومت تعاون کر رہی ہے۔دیگر تعاون
کار کمپنیوں میں "اینگرو" (ENGRO)"حبکو "(HUBCO) " سی میک (CMEC) "ایچ بی
ایل"(HBL) اور "لبرٹی"(LIBERTY) شامل ہیں۔ بر یگیڈئیر طارق(ر) نے ہمیں
بتایا کے بُنیادی طور پر اس منصوبے کا مقصد بجلی کی پیداوار ہے۔ان کے بقول
تھر کے کو ئلے کے ذخائر دُنیا کا ساتواں بڑا ذخیرہ ہے۔جس سے مجموعی طور پر
ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔اس منصوبے سے پیدا ہو نے والی
بجلی اگلے پا نچ سو سال کے لیے کا فی ہے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہو ئے کہا
کہ تھر کے کوئلے کے مُتعلق یہ افواہ کے یہ استعمال کے قابل نہیں بے بُنیاد
ہے۔اُن کے بقول ڈاکٹر "ثمر مند مُبارک"کا منصوبہ اس لیے کامیابی سے ہمکنار
نہ ہو سکا کہ وہ گیس فیکیشن(gasification)کے عمل کے ذریعے سے بجلی کی
پیداوار چاہتے تھے جو اس لیے ممکن نہ تھا کہ ہمارے کو ئلے میں
نمی(moisture)کا تناسب زیادہ ہے۔جبکہ ہم اس کو ئلے کو زمین سے باہر نکال کر
استعمال کریں گے۔اِنھیں تکنیکی زبان میں اووپن پٹ مائن(open pit mines)کہتے
ہیں۔ اس طریقہ کار میں کو ئلہ نہ صرف قابلِ استعمال ہو گا بلکہ یہ پانی جو
نمی کی صورت مو جود ہے اللہ پاک کی ایک نعمت ہے اسے پاور پلانٹ کی چمنیوں
(stak)کو ٹھنڈا کرنے میں استعمال کیا جا ئے گا.
مختلف جگہوں پر چائینیز(Chinese)کام کرتے نظر آئے جس کی وجہ بر یگیڈئیر
طارق(ر) اس منصوبے کو سی پیک (CPEC)کا حصہ بننا بتایا۔اس منصوبے پر نہایت
تیزی سے کام جاری ہے۔جون 2015ء تک اسے مکمل کر لیا جا ئیگا اور 660 میگا
واٹ نیشنل گرڈ میں شامل کر دیئے جا ئیں گے۔ابتدا ئی طور پر اسکی پیداوار کو
4000 میگا واٹ تک لے جایا جائے گا۔ منصوبے کا تخمینہ سوا دو سو ارب روپے
رکھا گیا ہے۔
مجموعی طور پر تھر کول 13 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے۔اس وقت بلاک میں 2
میں کام جاری ہے۔بلاک 2 میں 8 گاؤں اور کچھ دھانیاں ہیں۔(50 سے کم گھروں پہ
مشتمل آبادی کو دھانی کہا جا تا ہے)۔اس منصوبیکا سب سے اہم اور مشکل کام اس
بلاک میں موجود دو گا ؤں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ مُنتقل کرنا تھا۔لوگ اپنا
آبائی گھر چھو ڑنے کو تیار نہ تھے۔اس مقصد کے لیے اینگرو نے اُنھیں ماڈل
گھر بنا کر دکھایا۔
1100 گز پر ایک خاندان کو جدید خطوط پر استوار گھر بنا کر دیا جائے گا۔ اس
گھر میں تین کمرے،ایک بیٹھک،مویشی رکھنے کی جگہ اور "چورا" بنا کر دیا جائے
گا۔ "چورا" تھر کے رہاشیوؤں کی ثقافت کا ایک اہم جُز ہے اور اُن کی خواہش
پر اسے شامل کیا گیا ہے۔ان گھروں کو دو کمیونیٹی میں تعمیر کیا جا ئے
گا۔مُسلم اور ہندو۔ان کمیونیٹی میں تمام سہولیات میسر ہوں گی جس میں
مسجد،مندر،اسکول،ہسپتال،جانوروں کا ہسپتال،خریداری بازار وغیرہ شامل
ہیں۔قابلِ تعریف بات یہ ہے کے اس گھر کے نقشے میں خواتین کی رائے کو خاص
اہمیت دی گئی ہے نیز یہ گھر خؤاتین کی ملکیت ہوں گے۔اس گھر کی لاگت 15 سے
17 لاکھ کے درمیان ہو گی۔
تعلیم کے حوالے سے ہمیں بتایا گیا کہ اینگرو نے "مہران انجینئرنگ یو
نیورسٹی" کے تعاون سے مائننگ اسکالر شپ پروگرام شروع کیا ہے جس میں صرف
تھری نو جوانوں کو داخلہ دیا جائے گا۔ٹیکنیکل ایجوکیشن کے حوالے سے بھی کئی
پروگرام اس منصوبے کا حصہ ہیں۔جس کے تحت مُختلف ٹریڈ میں تھری نو جو انوں
کو تربیت دی جا ئے گی۔ان میں
پائپنگ(PIPING)،پلمبرنگ(PLUMBRING)،شٹرنگ(SHUTTRING)،سکیفولڈنگ(SCAFFOLDING)وغیرہ
شامل ہیں۔اس پروگرام میں اب تک 5670 تھری نو جوان رجسٹرڈ ہو چُکے ہیں۔تھر
بُلاک 2 سے 200 کے قریب نو جوان اپنی ابتدائی تربیت کے بعد اس پراجیکٹ پر
کام شروع کر چُکے ہیں۔
ٹرانسپورٹ اس منصوبے کا بُنیادی عنصر ہے۔اس حوالے سے ڈرائیونگ کی خصوصی
تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔تھری مرد و خواتین جنھیں ڈرائیونگ آتی ہے انھیں
نیشنل ہا ئی وے اتھارٹی (NHA) سے تربیت دلوائی گئی ہے جو اب اس منصوبے پر
با قاعدہ ڈرائیور کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔کم سے کم تنخواہ 25
ہزار مقرر کی گئی ہے۔اس پروگرام کے تحت 37 خواتین ٹرک چلانے کی تربیت لے
رہی ہیں۔ یہ ماحول دوست منصوبہ ہے۔تکنیکی لحاظ سے آگاہ کرتے ہو ئے کہاکہ
100 میٹر کی اُونچائی سے بُلند آلودگی کے عناصر پنپ نہیں پاتے یہ ہی وجہ ہے
کہ عالمی معیار کے مُطابق اس طرح کے پراجیکٹ کی چمنیاں 120 میٹر تک کی
اُونچائی پر ہوتی ہیں۔ہم نے اس پراجیکٹ میں چمنیوں کو 180 میٹر تک اُٹھا یا
ہے تا کہ کسی قسم کا سُقم نہ رہے۔
مُختصرا َََ یہ کہ ہمارے تمام سوالوں کے جوابات تسلی بخش تھے۔ کافی سارے
خدشات کے باوجود عام پاکستانی کی حیثیت سے دل سے یہ ہی دُعا ہے کہ جس
جانفشانی اور تندہی سے لوگ کام کر رہے ہیں کرتے رہیں اور پا کستان ترقی کی
راہ پر گامزن رہے۔تھر کے لوگ جو اس جدید دور میں بھی صدیوں پُرانی زندگی
جینے پر مجبور ہیں اُن کے لیے یہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھے گا۔یقیناََ
آنے والے ادوار میں تھر انشائاللہ تعالیٰ اتنی ترقی کر جا ئے گا کہ دُنیا
میں پاکستان کی پہچان بنے گا اور لوگ پاکستان کو تھر کی نسبت جانیں گے کے
یہ ہے تھر کا پاکستان………………… |