ذرا سوچیے اس کرکٹر پر کیا گزرتی ہوگی جسے پاکستان کی
ٹیسٹ کیپ سر پر سجانے کی نوید سنائی گئی لیکن میدان میں اترنے سے پہلے ہی
اسے یہ سننے کو مل گیا کہ وہ یہ میچ نہیں کھیل رہا ہے۔
پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں ایسے متعدد کرکٹرز موجود ہیں جن کے لیے ٹیسٹ
کھیلنے کی خوشخبری محض چند لمحے کی خوشی ہی ثابت ہوئی۔
|
|
عبدالرقیب کا شمار پاکستانی فرسٹ کلاس کرکٹ کے چند کامیاب ترین لیفٹ آرم
سپنرز میں ہوتا ہے۔
وہ سنہ 1979-80 میں آصف اقبال کی قیادت میں انڈیا کا دورہ کرنے والی
پاکستانی ٹیم میں شامل تھے۔
کانپور میں کھیلے جانے والے چوتھے ٹیسٹ سے ایک دن پہلے آصف اقبال نے
عبدالرقیب کو خوشخبری سنائی کہ وہ یہ ٹیسٹ کھیل رہے ہیں لیکن میچ کی صبح
ٹاس کے لیے جاتے ہوئے آصف اقبال نے گرین پارک کی گرین وکٹ دیکھ کر اپنا
فیصلہ تبدیل کر دیا اورعبدالرقیب کو آواز دے کر بلایا اور کہا کہ آپ یہ میچ
نہیں کھیل رہے ہیں بلکہ فاسٹ بولر احتشام الدین کو کھلایا جا رہا ہے۔
عبدالرقیب کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا یہ سنہری موقع ضائع ہو گیا اور وہ اس
کے بعد پھر کبھی ٹیسٹ نہ کھیل سکے اور ان کا فرسٹ کلاس کریئر 643 وکٹوں پر
اختتام کو پہنچ گیا۔
|
|
انڈیا کے اسی دورے کے بعد جب آسٹریلوی ٹیم پاکستان آئی تو کراچی میں کھیلے
جانے والے پہلے ٹیسٹ کے کیمپ میں آف سپنر الیاس خان کو بلایا گیا تھا اور
عام خیال یہی تھا کہ وہ اقبال قاسم کے ساتھ یہ ٹیسٹ میچ کھیلیں گے لیکن اسی
دوران ایک اور آف سپنر توصیف احمد کیمپ میں شامل ہوئے اور انھوں نے اپنی
بولنگ سے سب کومتاثر کرڈالا یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ کپتان جاوید میانداد
اور مینیجر مشتاق محمد نے الیاس خان پر توصیف احمد کو موقع دینے کا فیصلہ
کرڈالا۔
یوں ڈرگ کالونی سےتعلق رکھنے والا ایک گمنام بولر دیکھتے ہی دیکھتے
پاکستانی کرکٹ کے دھارے میں شامل ہو گیا اور الیاس خان ٹیسٹ کرکٹ کے بہت
قریب آ کر اس سے دور ہو گئے۔
الیاس خان نے 95 فرسٹ کلاس میچز کھیلے جن میں انھوں نے 282 وکٹیں حاصل کیں۔
بعد میں انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے میچ ریفری کی ذمہ داری بھی نبھائی۔
دوسری جانب توصیف احمد نے 34 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے
93 وکٹیں حاصل کیں۔
پاکستانی کرکٹ کی تاریخ محمد برادران کے بغیر ادھوری ہے۔
|
|
محمد برادران میں شامل حنیف محمد، وزیرمحمد، مشتاق محمد اور صادق محمد نے
بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی طویل عرصے تک نمائندگی کی لیکن پانچویں
بھائی رئیس محمد کو ٹیسٹ کھیلنے کا موقع نہ مل سکا حالانکہ عبدالرقیب کی
طرح انھیں بھی کپتان نے ٹیسٹ کھیلنے کی نوید سنائی تھی۔
رئیس محمد اس لمحے کو یوں بیان کرتے ہیں ’نیوزی لینڈ کے خلاف ڈھاکہ ٹیسٹ سے
ایک رات قبل کپتان عبدالحفیظ کاردار میرے کمرے میں آئے اور کہا کہ تم کل
میچ کھیل رہے ہو لہذا جلدی سو جاؤ لیکن میچ کے دن پتہ چلا کہ میری جگہ
مقصود احمد کو ٹیم میں شامل کرلیا گیا ہے اور مجھے 12 واں کھلاڑی بنادیا
گیا۔‘
رئیس محمد کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ ان کے بیٹے بھی ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیل
سکے۔
’میں تو نہ کھیل سکا لیکن میری دیرینہ خواہش تھی کہ میرا بیٹا آصف محمد
ٹیسٹ ضرور کھیلے لیکن یہ خواہش بھی پوری نہ ہوسکی۔ سلیکشن کے وقت آصف محمد
اور شعیب محمد کے درمیان مقابلہ تھا اور حنیف بھائی (حنیف محمد) نے جو اس
وقت چیف سلیکٹر تھے شعیب محمد کا انتخاب کیا تھا۔‘ |