یوں تو حضرت انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا
ہے مگر جب یہی انسان اپنے نفس اور ہوس کا پجاری بن کر درندگی سفاکیت اور
شیطانیت پر اترآئے تو درندگی بھی پناہ مانگنے لگتی ہے اور شیطانیت بھی
شرمندہ ہو جاتی ہے۔
قصور میں حالیہ رونما ہونے والا انسانیت سوز واقعہ کوئی پہلا واقعہ تو
نہیں۔زینب کوئی پہلی بچٌی نہیں ہے،اس سے پہلے جج صاحب کے گھر میں کام کرنے
والی طیبہ، معصوم عمران جس کی معصومیت کو مدرسے میں مولویوں نے روند ڈالا
اور ان جیسے بہت سے بچے ہر روز کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حضرت انسان کی
درندگی اور شیطانیت کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے کیونکہ ہم
برائی اور گناہ کی ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنا اب آسان نہیں
رہا۔خود سوچیں جب ہم نے مدرسے اور مسجد جیسی مقدس جگہ کو بھی نہیں بخشا اور
اپنی شیطانیت کی آماجگاہ بنا لیا ہے تو کیا زینب آخری بچی ہوگی؟ جب مولوی
شیطان کا روپ دھار لیں گے تو کیسے کوئی عمران بچ پائے گا؟۔ان واقعات پر تو
شیطان بھی پریشان اور حیوان اور درندے بھی خوف زدہ ہیں۔
اب ہم باتیں کریں گے کہ اس انسان کو شرم نہیں آئی،رحم نہیں آیا،اس کی اپنی
کوئی بہن ،بیٹی نہیں ہے کیا؟ پھرہم حکومت کو برا بھلا کہیں گے پولیس کو
القابات سے نوازیں گے۔مظاہرے کریں گے احتجاج کریں گے۔لیکن اب یہ باتیں
پرانی ہو گئی ہیں۔یہ باتیں نہ اس ماں کو سکون دے سکتی ہیں اور نہ ہی دوسری
بچیوں کو محفوظ کر سکتی ہیں۔کیونکہ اس انسان کے ساتھ ساتھ ہم بھی قصوروار
ہیں جو خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔اور اس وقت جاگتے ہیں جب کچرے میں لاش
ملتی ہے۔پھر ہم احتجاج کرتے ہیں شور مچاتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں سو
جاتے ہیں۔پھر کسی زینب کسی عمران کی لاش ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم انسان ہیں
حضرت انسان،بنی آدم،اشرف المخلوقات۔
خدارا ہر بات ہر مسئلے کے لئیے حکومت اور پولیس کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں۔کچھ
زمہ داری ہماری بھی ہے۔اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اپنے اطراف دیکھیں اور غور
کریں ایسے درندوں کے چہرے پہچانیں۔سمجھیں پہچاننے کی کوشش کریں کہ کہیں کسی
بچی کے ساتھ ہاتھ پکڑ کر چلنے والے کی آنکھوں میں ہوس تو نہیں،اس کو اپنی
منزل تک پہنچنے کی جلدی تو نہیں،اس کے چہرے پر اپنی چوری پکڑے جانے کا خوف
تو نہیں۔اور اگر ایسا محسوس کریں تو روکیں بچی سے پوچھیں کہ وہ کس کے ساتھ
جارہی ہے یہ انکل کون ہیں؟یہ نہ دیکھیں کہ وہ بوڑھا ہے،جوان ہے یا پھر
مولوی یاد رکھیں شیطان کا کوئی روپ نہیں ہوتا۔
خدارا ایسا صرف یہ سوچ کر کریں کہ کل کو یہ شیطان کسی اور روپ میں آسکتا ہے
اور اس کی ہوس اور درندگی کا نشانہ بننے والی آپ کی اپنی بیٹی بھی ہو سکتی
ہے۔یاد رکھیں جس انسان میں احساس مر جاتا ہے وہ مردے سے بھی بدتر ہو جاتا
ہے۔اپنی بساط بھر کوشش کریں تاکہ ہم کو سکون کی نیند آئے کسی ذینب کسی
عمران کی آہیں ہم کو بے چین نہ کریں۔اور روذِقیامت اللہ اور اس کے رسول کے
سامنے ہم سرخ رو ہو سکیں۔وہ دن کہ جب اللہ پوچھے گا کہ تمہارے شہر میں
درندے پھر رہے تھے تم نے کیا کیا؟وہ دن کہ جب رسول اللہ پوچھیں گے کہ میں
نے تو بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کی روایت ختم کی تھی تم نے کتنی بیٹیوں کو
بچایا؟
یہ معصوم ہمارا آنے والا کل تھے کوئی ڈاکٹر کوئی انجینئر کوئی سائنسدان
کوئی ٹیچر اور کوئی عالم یہ سوچ کر ان معصوموں کو آج بچا لیں کہ یہ ہمارا
آنے والا کل ہیں۔آج ان کلیوں کو درندوں کے ہاتھوں مسلے جانے سے بچائیں ورنہ
کل ہمارا گلشن ویران رہ جائے گا۔ |