زینب کے والدین خدا کے گھر میں تھے جب خدا کی ایک بستی
میں ایک حیوان نے اس معصوم بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور قتل کر دیا
. زینب جس بستی کی رہنے والی تھی اسی بستی کے کسی ایک کونے پر اس بستی کا
حکمران خاندان رہتا ہے اور یہ پہلی زینب نہیں تھی اس سے پہلے کتنے معصوم
پھول ان درندوں کی ہوس کا نشانہ بن چکے تھے مگر اس ظلم کی آواز ان ایوانوں
تک نہیں پہنچی جہاں ہر سازش کی بو سازش ہونے سے پہلے پہنچ جاتی ہے اور جہاں
سے پورا دن آواز آتی ہے '' مجھے کیوں نکالا '' اور جہاں کے در و دیوار پر
وہ محافظ معمور ہیں کہ جنہیں ریاست ہر اس شہری کی حفاظت کے لیے بھرتی کرتی
ہے جو اس مملکت خدا داد کا شہری ہے مگر یہ محافظ ان حکمرانوں کے ذاتی ملازم
بن جاتے ہیں . قتل ہو جاتا ہے ، ریاستی ادارے خاموش رہتے ہیں ، محافظ تمسخر
اڑاتے ہیں اور صاحب اقتدار اس سانحے کو بھی فوٹو سیشن کا بہترین موقع
گردانتے ہیں اور عوام کو کوڑے میں پڑی لاش میں اپنی بیٹیوں کے لاشے نظر آتے
ہیں اور وہ نا اہل انتظامیہ کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو
مزید دو لاشیں اسی بستی کی سڑکوں کو اپنے لہو سے سرخ کرتی ہیں جنھیں ریاست
کے یہ محافظ قتل کرتے ہیں جن کا کام ان کی حفاظت تھا . پولیس عام شہریوں پر
سامنے سے سیدھی گولی چلاتی ہے اور پھر میڈیا پر بریکنگ نیوز کا سلسلہ چل
نکلتا ہے . ایسے میں پاکستان کے ایک نجی چینل پر پاکستان کے جانے مانے ٹی
وی اینکر محمد مالک جو اکثر غلط اردو میں '' جس کا '' کو ''جونسا'' بولتے
ہیں آتے ہیں اور فرماتے ہیں '' یہ موب جسٹس ( بلوے کا انصاف ) ہے یہ نہیں
چلے گا ، پولیس کی نالائقی ہے مگر پولیس پر تنقید نہ کی جائے ، کل یہ لوگ
میرے اور آپ کے گھروں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور پھر کیا یہ پولیس ہمیں
تحفظ دے پائے گی ، کیا یورپ اور امریکہ میں ایسا ہوتا ہے ؟ میڈیا کو احتیاط
سے کام لینا چاہیے ، پولیس کی گولی سے مرنے والوں کو میڈیا میں شہید کہا
گیا ہے وغیرہ وغیرہ '' .
میں یہ غور سے سن رہا تھا ، میں حیران تھا کہ یہ محبوب اینکر بریکنگ ویوز
کے لیے ہر رات جب کوئی ساٹھ ستر ہزار کا سوٹ پہن کر اور کوئی آٹھ دس ہزار
کی ٹائی لگا کر عوام کے دکھوں کی بات کرنے کیمرے کے سامنے بیٹھتے ہیں تو اس
وقت وہ یہ کیوں بھو ل جاتے ہیں کہ وہ جس ریاست میں رہتے ہیں اس میں یہی
بلوائی ہیں کہ جن کے غم کی وہ چورن بیچتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو انصاف
نہ ملنے کی وجہ سے بلوائی بنے ہیں . مجھے دوسری طرف کوڑے میں پڑی لاش نظر آ
رہی تھی اور کانوں میں محمد مالک کے الفاظ سنائی پڑتے تھے کہ یورپ اور
امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا . میں یورپ میں رہتا ہوں اور میں یہ تو نہیں کہہ
سکتا کہ محمد مالک یا پاکستان کے بڑے بڑے صحافی پڑھے لکھے نہیں ہیں مگر
شائد انہیں علم نہیں کہ ان ملکوں کی بنیادوں میں نسلوں کا لہو ہے اور صدیوں
کی جدوجہد ہے. جتنا موب جسٹس رومانیہ ،فرانس، اٹلی ، برطانیہ میں اسکاٹ
لینڈ ، انگلینڈ اور آئرلینڈ نے دیکھا ہے اس کا تصور کرنا مشکل ہے . میں
ہسٹری کا استاد نہیں اور میں کسی کو لیکچر دینے کے موڈ میں نہیں مگر میں
سوچ رہاہوں کہ موسلینی ، ہٹلر ، چوشسکی ، فرینکو وغیرہ کون تھے اور یورپ
میں زیادتی کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں میں سڑکوں پر نکلنے والے لوگ کون
تھے ؟ بلوائی؟ یا وہ لوگ جنہوں نے آج کے پر امن یورپ کو قائم کیا . مجھے
محمد مالک کی بات سن کر حیرانگی ہوئی کہ بغیر شواہد کے پولیس پر تنقید
مناسب نہیں ، سب نے دیکھا پولیس لوگوں کے سینوں پر گولیاں داغ رہی ہے اور
مالک صاحب کو ثبوت چاہیے . محمد مالک اور نا جانے کتنے صاحب علم لوگ ہیں جن
کو پاکستان میں نہیں کسی یوٹوپیا میں ہونا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ
معاشرے میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں .
پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں کہ جن کے پاس سوچ اور فکر ہوتا ہے مگر ان کے کوئی
وسائل نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کا کوئی چارہ ساز ہوتا ہے، لاکھوں تخلیقی
خیالات ،بے انتہا ذہانت اوراپنی مدد آپ کے تحت حاصل کی گئی قابلیت ہونے کے
باوجود اس قسم کے لوگ اپنی ذات کی قید میں دم توڑ جاتے ہیں ، دنیا کو ان
خاموش ارواح کا علم بھی نہیں ہو پاتا کیونکہ وہ ذات کے قیدی ہوتے ہیں اور
ان کی ذات ہی ان کا مقبرہ بن جاتا ہے . یہ بد قسمت ہوتے ہیں مگر بے ضمیر
نہیں، ان کی بد قسمتی یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ دنیا کے اس ملک میں پیدا ہوئے
ہوتے ہیں جس کی بنیادوں میں شائد حق ہوتا ہے مگر اس کی سرزمین پر باطل کا
راج ہوتا ہے . ان میں سے بیشتر اسی خاموشی کے پردے کے پیچھے دم توڑ جاتے
ہیں مگر ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کبھی نہ کبھی اپنے حق کے لیے
اٹھتے ہیں اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں . یہ لوگ جن معاشروں میں پیدا
ہوتے ہیں وہاں کریم ، پاوڈر اور چرب زبانی تو بہت ہوتی ہے مگر یہاں مساوات
کی کمی ہوتی ہے ،انصاف مرضی کا ملتا ہے اور جس کے پاس لاٹھی ہوتی ہے وہ اس
سے اپنی مرضی کی بھینس ہانک کر گھر لے جاتا ہے اور کوئی اسے پوچھتا بھی
نہیں . یہ بد قسمت لوگ خاموش مجاہد ہوتے ہیں کیونکہ کبھی کبھی یہ ایک
چنگاری کی صورت ایسی آگ بھڑکاتے ہیں کہ ان کے شعلوں سے ملک نہیں خطے جھلس
جاتے ہیں . اس کی ایک مثال ہم نے کچھ سال پہلے دیکھی جب ایک جسم کو لگنے
والی آگ نے ایک پورے خطے کو تباہ کر دیا . تیونس میں 26 سالہ محمد بوزیزی
کو ایک پولیس والے نے تذلیل کا نشانہ بنایا وہ ایک غیرت مند شخص تھا ، اس
کی غیرت نے اس تذلیل کے ساتھ زندہ رہنے کے بجائے خود سوزی کر لی ، اس کے
جسم کو چھونے والے شعلوں میں پورا مشرق وسطی اور عرب دنیا جھلس کر رہ گئی ،
تیونس ، مصر ، لیبیا ، شام ، یمن کے ساتھ ساتھ عراق اور دیگر ملکوں میں وہ
تبدیلیاں آئیں کہ عرب دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا اور آج دنیا میں بیداری کی
ایک عجب سی لہر ہے اور یہی بیداری کی لہر بہت سی بادشاہتوں کے لیے خطرہ جان
ہے .
دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جنھیں ہم ماڈرن لوگ کہتے ہیں . یہ روٹی نہیں
بریڈ کھاتے ہیں ، برانڈڈ کپڑوں اور غیر ملکی سینٹ کے علاوہ ان کے پاس کچھ
مہنگی گھڑیاں ، ایک یا دو عالیشان گھر اور ایک بہت آرام دہ گاڑی ہوتی ہے ۔
ان لوگوں کا عجیب مائنڈ سیٹ ہوتا ہے انہیں دوسروں سے خوشبو اور اپنوں سے بد
بو آتی ہے ، یہ ذات کے قیدی نہیں ہوتے کیونکہ ان کی اپنی ذات نہیں ہوتی ،
یہ لوگ جب مشرق میں بیٹھتے ہیں تو انہیں مغرب کا غم ستاتا ہے ، ان لوگوں کی
زبان ، پوشاک اور نظریات تو امپورٹینڈ ہوتے ہی ہیں ساتھ ساتھ وہ وسائل جو
پہلی قسم کے لوگوں کے لیے نادر خاک ہوتے ہیں ان کی انگلیوں کے اشاروں کے
منتظر ہوتے ہیں یہ لوگ جب بھی مثالیں دیتے ہیں تو ان کی نگاہیں کہیں ہوتی
ہیں اور نشانہ کہیں ہوتا ہے اور سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ یہ دوسری قسم
کے لوگ خود کو پہلی قسم کے لوگوں کا نمائندہ کہتے ہیں ، ان کے غم میں
پگھلتے ہیں اور ان کی آواز بننے کا دعوی کرتے ہیں مگر یہ ان میں سے نہیں
ہوتے . یہ ان میں سے کیسے ہو سکتے ہیں؟ کیا بادشاہ کبھی کسی غلام کا
نمائندہ ہوتا ہے ؟ بادشاہ کبھی غلام بن بھی نہیں سکتا کیونکہ وہ جس ذہن کے
ساتھ پیدا ہوتا ہے اس میں کہیں بھی کچھ عام نہیں ہوتا . یہ ایک مائنڈ سیٹ
ہے اور جس طرح بہت سی بیماریوں کا علاج ممکن نہیں ہے اس طرح اس مائنڈ سیٹ
کا بھی کوئی علاج نہیں ہے . آج کے ماڈرن دور میں یہ لوگ مختلف چہروں اور
مختلف بہروپوں میں ہمارے سامنے آتے ہیں . یہ لوگ سیاست ، میڈیا ، کھیل ،
تعلیم ، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ حکومت کے
ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں اور یہی لوگ لاکھوں ،کروڑوں کا مقدر اپنے ہاتھ
میں لے کر ان کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں . یہ الیٹ کلب ہے جس میں ٹاک شو
ہوسٹ ، سول سرونٹ ، منصف اورمنہ مانگی فیسیں لینے والے وکیلوں کے ساتھ ساتھ
پالیسی میکرز بیٹھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ان کے بغیر کائنات کا نظام نہیں
چلے گا۔
اس دوسری قسم کے لوگوں کا خوشی منانے اور غم کے جذبات بیان کرنے کا انداز
مختلف ہوتا ہے . یہ لوگ کبھی شرمین عبید چنائے کی طرح معاشرتی برائیوں کی
آڑ میں آ سکراپنی شیلف پر سجانے کے لیے قومی ناموس کا جنازہ نکالتے ہیں اور
کبھی یہ ا یان علی کی طرح اس ملک کی دولت کو اپنے خاص دوستوں کے بیرونی
اڈوں تک پہنچانے کی کوشش میں جب پکڑے جاتے ہیں تو جمہوریت خطرے میں پڑھ
جاتی ہے ، یہ لوگ تب افسردہ ہوتے ہیں جب ان کے بینکوں میں رکھا حرام مال
پکڑا جاتا ہے ،یہ لوگ تب روتے ہیں جب کوئی شاہ زیب کسی شاہ رخ جتوئی
اورسراج تالپور کے ہاتھوں مرتا ہے تو قاتل مرضی کا انصاف حاصل کرنے میں لگ
جاتے ہیں . انہیں انصاف بھی تب یاد آتا ہے جب یہ کسی پانامہ ، چائنہ کٹنگ
یا کسی کراچی بد امنی کیس میں پکڑے جاتے ہیں ، انہیں اس وقت اﷲکی یاد ستاتی
ہے جب ان کی ملیں بند ہو رہی ہوتی ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری ڈوبتی نظر
آتی ہے ، یہ تب قوم کو دو لخت کرنے کی باتیں کرتے ہیں جب ان کے پاؤں کے
نیچے سے سرخ قالین کھینچا جا رہا ہوتا ہے ، یہ دوسری قسم کے لوگ قرآ ن پر
ہاتھ رکھ کر جھوٹ بولتے ہیں اور ان کے جھوٹ کو سماجی ابلاغ سے لیکر عدالتوں
تک تحفظ ملتا ہے جبکہ پہلی قسم کے لوگوں کے مقدر میں بھوک، پریشانی، بیماری
اور ظلم سہنے کے ساتھ ساتھ سرکار کی گولی کھانے کا اختیار ہے مگر ان کے پاس
بیرونی ہسپتالوں میں علاج کروانے ، انگریزی سکولوں میں پڑھنے کا اور انصاف
حاصل کرنے کا اختیار نہیں ۔ ملا طاہر غنی کشمیری نے کہا تھا '' سیلاب کا
پانی فصیل کے قدم چومتا ہے اور پھر اسی فصیل کو گرا کر اس کے اوپر سے گزر
جاتا ہے '' یہ دوسری قسم کے لوگ جب ان نا انصافیوں کی فصیل سے ٹکرا کر تھک
جاتے ہیں تو سڑکوں پر نکلتے ہیں اورتب کوئی مدبر ٹی وی پر آکر کہتا ہے ''
موب جسٹس نہیں چلے گا کیا یورپ اور امریکہ میں ایسا ہوتا ہے؟ .
مجھے پورا یقین ہے کہ زینب کے والدین نے جب کعبہ پر پہلے نظر ڈالی ہو گی تو
انہوں نے اپنے اولاد کے لیے اپنے رب سے امن، سکون اور ایمان مانگا ہو گا ،
انہوں نے حطیم میں سجدوں میں جب اپنے گناہوں کی معافی مانگی ہو گی تو اپنی
زینب کے لیے اچھا نصیب مانگا ہو گا . جب وہ رکن یمانی سے ہجر اسود کی طرف
بڑھتے ہوئے رب سے دعائیں کر رہے ہونگے تو ان کی یادوں میں اپنے وطن اور
یہاں کے لوگ ہوئے ہونگے اور ہر قدم پر انہوں نے اپنے گھر، اپنے وطن اور
اپنی اولاد کے لیے خیر مانگی ہو گی۔ شائد ان کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں
شائد زینب کے نصیب کھل گئے ہیں اور زینب وہاں لوٹ گئی جہاں سے آئی تھی اور
پیچھے کوڑے کے ڈھیر پر نظام کی ایک بد بودار لاش چھوڑ گئی کہ جس کو ڈھونڈنے
کی انعام کے طور پر پولیس نے دس ہزار روپے کی مانگ کی تھی۔۔۔۔۔۔۔ |