بیٹیاں اﷲ کی رحمت ہوتی ہیں۔انہیں زیور تعلیم سے
آراستہ کرنے اور ان کی پرورش کا عمل بطریق احسن ادا کرنے کی بڑی فضیلت بیان
کی گئی ہے یہاں تک کہ جنت میں پیغمبر آخرزماں حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کا ساتھ نصیب ہونے کی خوشخبری بھی سنائی گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات
کے مطابق تعلیم و تربیت کی جائے تو اس کے اثرات و ثمرات بھی ضرور ملتے ہیں۔
قصور کی دھرتی کو مالک ارض و سماں کی جانب سے خوب انعامات و اکرامات سے
نوازاگیا۔قصور کی دھرتی ایک طرف جہاں محبت و الفت اور امن و آتشی کے
علمبردار عظیم صوفی بزرگ بلھے شاہ کی نگری کے نام سے جانی جاتی تھی وہاں
ساتھ ساتھ اس دھرتی کا تعارف روائتی حریف، ازلی دشمن کے خلاف "ایہہ پْتر
ہٹاں تے نئیں وکدے" جیسے شاہکار ترانے گاکر وطن عزیز کے جوانوں کے دلوں کو
گرمانے والی سْروں کی ملکہ، ملکہ ترنم نورجہاں کے نام سے ہوتا تھا۔ جہاں
ایک طرف قصور کی دھرتی کو تبلیغ اسلام کے عظیم مرکز رائیونڈ کے نام سے یاد
کیا جاتا تھاوہاں سرسبز و شاداب اور منفرد پہچان کے حامل چھانگا مانگا جنگل
نے دنیا بھر میں قصور کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے میں مثالی کردار ادا
کیا۔قصور کا نام جب بھی جہاں بھی آتاتھا ستلج کی مچھلی، اندرسے،فالودہ اور
قصوری میتھی کے بغیر ذکر ادھورا تصور کیا جاتاتھا۔ محبت و الفت، چاہت و
خلوص، قدرومنزلت، عزت و اکرام اور مہمان نوازی قصور کی پہچان ہوا کرتی تھی۔
آج قصور پہلے والا قصور نہیں رہا۔جہاں سْروں کی ملکہ ، ملکہ ترنم نورجہاں
کے دلنشین ترانے اور سدا بہار گانے سنائی دیتے تھے وہاں آہ و پکار اور
سسکیاں، ہچکیاں سنائی دیتی ہیں۔ جہاں اس دھرتی پر خوشیوں ، رونقوں کا دور
دورہ تھا وہاں آج دکھ درد ، رنج و الم، ظلم و ستم کا راج دکھائی دیتا
ہے۔قصور کی دھرتی میں آج بلھے شاہ جیسے عظیم فرزندان اسلام کی جگہ معصوم
کلیوں کو مسلنے والے درندوں نے لے لی ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کی بات کی جائے
یا پرنٹ و سوشل میڈیاکا جائزہ لیا جائے ، بد قسمتی سے قصور درندوں ،
بھیڑیوں، وحشی اور سنگدل جانوروں کی سرزمین بنا ہوا دکھائی دیتا ہے۔کبھی
کسی انسان کو زندہ جلانے کا واقعہ سامنے آتا ہے تو کبھی سینکڑوں معصوم بچوں
کو بد فعلی کا نشانہ بنائے جانے کا سانحہ، المیہ منظر عام پر آتا ہے جس پر
ہر خاص و عام رنج و الم میں مبتلا ، ڈرا ڈرا نظر آتا ہے کہ نہ جانے کس وقت
کس کے بچوں کو درندگی و حیوانیت کا نشانہ بنادیا جائے گا۔ڈاکو ، لٹیروں اور
وڈیروں کا راج تو پرانی بات ہوگئی آج اہل قصور پر ظلم و ستم اور سنگدلی و
حیوانیت کی اندھیری رات چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ اگر گزشتہ چند مہینوں کا
جائزہ لیا جائے تو درجن بھر معصوم کلیاں مسل دی گئی ہیں۔مہکتی ، کھلکھلاتی
اور چہچہاتی ہوئی ان معصوم چڑیوں ، کلیوں ، بیٹیوں کی عزتیں تار تار کرنے
کے بعد انہیں موت کے گھاٹ اتار دیاگیاہے۔ اس فعل مکروہ و پلید میں ملوث
درندے کو نہ جانے آسمان کھاجاتا ہے ، زمین نگل لیتی ہے یا پھر کوئی سلیمانی
لبادہ اوڑھے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں سے اوجھل ہوکر کسی اور
معصوم کی گھات لگائے بیٹھ جاتا ہے کہ وقت ِ تفتیش و سرچ آپریشن کسی کے ہاتھ
نہیں آتا۔حیف صد حیف کہ رپورٹس کے مطابق درجن بھر بچیوں کو درندگی کا نشانہ
بنانے والاایک ہی انسانی شکل میں بھیڑیا نما بد بخت ، وحشی و سنگدل جانور
ملوث پایا گیا ہے ۔
گزشتہ دنوں اسی قصور میں ہی سات سالہ ننھی پری ، معصوم زینب انسانیت سے
خارج ، وحشی درندے کی درندگی کا شکار ہوگئی جسے آہوں سسکیوں میں سپرد خاک
کردیا گیا۔معصوم زینب کے والدین دربار الٰہی میں رضائے الٰہی کے حصول کی
خاطر عمرہ جیسی عظیم سعادت سمیٹنے کے لیے سرزمین مکہ و مدینہ میں موجود تھے
کہ ان کی سات سالہ معصوم بچی کو درندگی کا نشانہ بنادیا گیا ۔ خیالات کی
دنیا میں پہنچ کر اس تلخ و تاریک واقعہ کی ورق گردانی کی جائے تو اس مسلی
ہوئی کلی کی حالت اور اس پر ہونے والے ظلم و ستم کی داستان دل و دماغ پر
گہرا نقش چھوڑ جاتی ہے کہ الفاظ میں بیان کرنے کی ہمت باقی نہیں رہتی۔دل
خون کے آنسو رونے لگتا ہے اور ہر کوئی اپنے آپ پر نادم ہونے لگتا ہے۔اہلیان
قصوردرندگی و حیوانیت سے بھرپور ایسے واقعات برداشت کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں
اور ان کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے۔ وہ مجرم کو پولیس مقابلے میں مرتا
نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ نشان عبرت بنانا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان ، وزیر
اعلیٰ پنجاب و چیف آف آرمی سٹاف کی جانب سے سوموٹودیکھنے میں آئے ہیں ۔
امید کی جاسکتی ہے کہ اس بار مجرم ضرور نشان عبرت بنادیا جائے گا ۔انسانیت
سے خارج انسان نما بھیڑیئے کی درندگی کا شکار ہونے والی معصوم زینب تو چل
بسی لیکن کچھ سیاسی دوکاندار اس سانحہ سے فائدہ اٹھا کر اپنا الو سیدھا
کرنے کے چکر میں مجبور اور رنج و الم میں چُور اہلیان قصور کو اشتعال، جلاؤ
گھیراؤاور پکڑو ، مارو مارو کی دلدل میں دھکیل دینا چاہتے ہیں جس کے نتیجے
میں وہ سیاسی دوکاندارتو اپنے مقاصد حاصل کرلیں گے مگربھولے بھالے اور
مجبور اہلیان قصور کو بھاری قیمت ضرور چکانا پڑے گی جس کے نتیجے میں مزید
جانیں ضائع ہونے کا خدشہ نظر آرہاہے بلکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق معصوم زینب
کے بعد دو جانیں مزید گنوائی بھی جا چکی ہیں۔
اس نازک صورت حال کو کنٹرول کرنے اور اصل مجرم کی تلاش سے نشان عبرت بنانے
تک کے لیے تمام حکومتی ، سیاسی و عسکری قوتوں کو سیسہ پلائی دیوار بننا
ہوگا اور عوامی حلقوں کوملکی و قومی سرمایہ کو نقصان پہنچانے اور بے گناہ
جانیں گنوانے کی بجائے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ارباب اختیار ،
قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میڈیا کو خلوص نیت سے اپنی بیٹی سمجھ
کرفرائض منصبی ادا کرنا ہوں گے۔ اگر کسی بھی مرحلے پر نرمی برتی گئی یا
جانب داری و ذاتی مقاصدآڑے آگئے تو بروز محشر معصوم زینب ہم سب کا گریبان
پکڑ کر سوال کرے گی کہ آخر میرا قصور کیا تھا۔۔۔؟؟؟
|