جنسی تعلیم (سیکس ایجوکیشن) یا کوئی اور حل؟؟؟

بنت پاکستان زینب کے بہیمانہ قتل کے بعد ایک بار پھر سے زور شور کے ساتھ پاکستان میں بچوں کو جنسی تعلیم سکھانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اس سے بچوں کا تحفظ ممکن ہوگا۔ کوئی بھی کام یا فیصلہ لینے سے قبل اس کی جذئیات اور اس ممکنہ فیصلے سے نکلنے والے ثمرات کا جا ئزہ ضرور لیا جاتا ہے. اگر ہم بغور دیکھیں تو امریکہ اور یورپ میں جہاں جہاں بچوں کو اوائل عمری میں ہی جنسی تعلیم (سیکس ایجوکیشن) دی جاتی ہے وہاں پر بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی شرح بہت زیادہ ہے۔اب تو یہ بات بالکل عام ہوچکی ہے کہ پورنو گرافی کے اس مکروہ دھندے کے کرتا دھرتا ہی یورپ میں بیٹھے یہ شیاطین ہیں۔ پورنو گرافی میں چائلڈ پورن کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے اور اس دھندے کو چلانے والے اور چائلڈ پورن ویڈیوز کے خواہش مند بھی انہی ممالک کے ابلیس صفت انسان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات اور حادثات پاکستان یا دیگر اسلامی ممالک سے کہیں زیادہ ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اگر آپ دیکھیں گے تو سیکس ایجوکیشن دینے والے ان ممالک میں خاندانی نظام کا تار و پود بکھر چکا ہے۔ماں، بہن اور بیٹی کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ ان کے لیے عورت فقط ایک جنسی کھلونا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو چند دن قبل آنے والی نیوز آپ نے دیکھی یا سنی ہونگی کے اب وہ سیکس باربی ڈول بنا رہے ہیں اور جب اس کو ایک شو میں متعارف کرانے کے لیے پیش کیا گیا تو ہوس کے مارے ان درندوں نے اس باربی ڈول کے ہی چیتھڑے اڑا دیے۔ اس سیکس ایجوکیشن نے ان سے ادب، اخلاقیات، تمیز اور خاندانی نظام سب کچھ چھین لیا ہے بلکہ وہ لوگ تو سیکس ایجوکیشن کی بدولت اب اس گندگی میں اس حد تک اتر چکے ہیں کہ ہم جنس پرستی کو باقاعدہ قانونی تحفظ دیا جا رہا ہے۔ "گے میرج" یورپ کے اندر ایک عام رواج بن چکا ہے۔ اپنے عام قارئین کے لیے بتلاتا چلوں کے گے میرج سے مراد مرد کی مرد سے شادی اور عورت کی عورت سے شادی ہونا ہے۔ اس سیکس ایجوکیشن نے یورپ کے سماجی سسٹم کو تباہ و برباد کردیا ہے۔اب پاکستان میں بھی زینب والے ایشو کو لے کر ایک مخصوص طبقہ سرگرم ہوچکا ہے اور وہی یورپ والا کلچر پاکستان میں رائج کرکے پاکستان کے خاندانی نظام ، ماں ،بہن اور بیٹی کے تقدس، اور شرم و حیا کے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال اور تباہ برباد کرنے کے درپے ہے۔اس کے لیے طرح طرح کے حیلے اور بہانے تراشے جا رہے ہیں۔اسلامی طرز حیات کو ٹھکرانے کی پوری پوری سازشیں تیار کی جاچکی ہیں۔قصور میں زینب کے ساتھ زیادتی اور پھر اس کے قتل کے واقعہ پر یہ بحث اور بھی زور پکڑ گئی ہے کہ اس طرح کے واقعات اور حادثات کا حل یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کو باقاعدہ سیکس ایجوکیشن دی جائے۔ اس میں ہم پاکستانیوں کے لیے ایک بہت بڑا انتباہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑی سازش ہے اور یہ ہرگز بھی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ یہ تو سیکس ایجوکیشن تو ہمارے لیے ام المسائل ثابت ہوگی۔ اس کی بجائے اگر واقعی ہی مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو وہ حل نظام مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نفاذ میں ہے۔ آپ ملک میں اسلامی تعزیراتی قوانین کا نفاذ کردیں ان شاء اﷲ ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں نا صرف زیادتی کے واقعات بلکہ دیگر جرائم کی شرح ایک دم سے زیرو پر آجائے گی۔اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو جنسی تعلیم دینے کی بجائے ان کو اسلامی تعلیم دینا بہت ہی ضروری ہے۔ان کو شرم و حیا سکھلانا بہت ہی لازمی ہے۔بچوں کی اوائل عمری سے ہی ان کی ذہنی اور جسمانی تربیت بہت ضروری ہے۔بچوں کے لباس کا ان معاملات میں بہت عمل دخل ہوتا ہے۔آپ بچیوں کو چھوٹی عمر سے ہی حجاب اور پردے پر راغب کریں۔ بچوں کی دوستی اور مجلس کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ آپ کا بیٹا یا بیٹی کن اور کس عمر کے بچوں کے ساتھ بیٹھ اور کھیل رہا ہے۔ جب آپ گھر سے بچے کی تربیت نہیں کریں گے تو باہر سے اس کی تربیت ہوگی مگر وہ تربیت نہ صرف اس کے بلکہ آپ کے حق میں بھی اچھی نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بہت ہی اہم بات یہ کہ بچوں اور بالخصوص بچیوں کو چھوٹی عمر سے ہی یہ شعور دینے کی اشد ضرورت ہے کہ محرم اور نا محرم کیا ہوتا ہے۔اس میں محرم اور نا محرم کا معیار وہ نہیں جو ہمارا ہے کہ کزن بھی محرم ہے، دیور بھی محرم ہے، انکل بھی محرم ہے، بہنوئی بھی محرم ہے بلکہ وہ معیار جو اسلام کا ہے۔ یہاں پر ایک بات بطور خاص اس طبقے کے لیے جو کہتا ہے کہ بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کی ٓگہی دینے کی ضرورت ہے تو جناب جب آپ بچوں کو محرم اور غیرمحرم کا نظریہ سمجھا دیں گے تو پھر ان فضول اصطلاحات کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور دوسری بات کہ ہر وہ ٹچ جو کسی غیر محرم کی طرف سے ہو وہ بیڈ ٹچ ہے۔اس تعلیم سے ہمارے معاشرے کے بہت سے مسائل کی ان شاء اﷲ اصلاح ہوجائے گی۔ اسی طرح والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کو گھر میں دوستانہ ماحول فرام کریں اگر بچے کو گھر میں لڑائی جھگڑے اور چیخ و پکار کا ماحول ملے گا تو وہ اس سے فرار چاہے گا اور اس کا اثر اس کی تعلیم و تربیت بہت برا پڑے گا۔بچوں کی جائز ضروریات اور خواہشات کوبروقت پورا کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے وگرنہ بچہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے چور راستے تلاش کرلے گا۔ایک بہت بڑی وجہ جو ان مسائل کی بنتی ہے وہ ہمارے گھروں میں موجود الیکٹرانک ایپلیکیشنز پر چلتے فحاشی، بے حیائی اور عریانی کے پروگرامز، فلمیں اور ڈرامے ہیں جب آپ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ سب دیکھیں گے تو وہ بہت جلد یہ سب سیکھ لیں گے کیونکہ بچوں کے اندر سیکھنے کی صلاحیت بڑوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے بچوں کی احسن تعلیم و تربیت کے لیے اس گند کو بچوں سے دور رکھیں (یاد رہے کہ بچوں کو اس سے دور کرنا چاہیں گے تو وہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ بچہ اس چیز کی طرف زیادہ لپکتا ہے جس سے اس کو روکا جائے )۔ اس کے ساتھ ساتھ اسکول، مسجد، اکیڈمی اور شاپس وغیرہ پر بھیجتے ہوئے بچوں کی حفاظت کا کوئی فول پروف انتظام ہونا چاہیے. ان اقدامات سے ان شاء اﷲ ہم اپنے بچوں کی ذہنی اور جسمانی حفاظت کے قابل ہوسکیں گے۔

Muhammad Abdullah
About the Author: Muhammad Abdullah Read More Articles by Muhammad Abdullah: 39 Articles with 38385 views Muslim, Pakistani, Student of International Relations, Speaker, Social Worker, First Aid Trainer, Ideological Soldier of Pakistan.. View More