بد نصیب پردیسیوں کی ٹوٹتی ہے جا کر کہاں کمند

ہمارے معاشرے میں لوئر اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے پردیسیوں پر گھر والوں کی مالی کفالت کے ساتھ ساتھ عام طور پر شادی شدہ بہن بھائیوں کی بھی فرمائشوں اور مطالبات کا بوجھ ہوتا ہے اور اگر ان بےچاروں کی اپنی شادی نہیں ہوئی ہے تو یہ قربانی کا بکرا نہیں بلکہ قربانی کا بیل بن جاتے ہیں جس میں سات نہیں بلکہ درجن بھر حصے ہوتے ہیں ۔ ایسے نوجوانوں کی اول تو شادی میں طرح طرح کے حیلے ہتھکنڈوں سے تاخیر کی جاتی ہے اور اگر پھر بھی کسی طرح شادی ہو ہی جائے تو اسے برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جاتی ۔ ہر جگہ اور ہمیشہ ہی ایسا نہیں ہوتا معاشرے میں مہذب اور خوف خدا رکھنے والے گھرانوں کی بھی کمی نہیں ہے اور بہت سے لوگ شادی کے کئی برسوں اور بچوں کے بعد گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بہتر روزگار کی تلاش میں بھی دیار غیر کا رُخ کرتے ہیں ۔

پردیسیوں کی بیویاں پہلے تو شوہر کی رفاقت پر دنیا کی کسی بھی دولت کو ترجیح دینے پر تیار نہیں ہوتیں مگر شوہر جب اسے اپنی زندگی ہی میں بیوہ کر دینے پر تُل جاتا ہے اور کسی طرح واپس لوٹنے پر تیار نہیں ہوتا تو پھر بیوی بھی اپنی بیوگی سے سمجھوتہ کر لیتی ہے ۔ مرد زندگی کے بہت سے قیمتی اور سنہرے سالوں کے عوض جب عورت کو مستقبل کے سبز باغ دکھاتا ہے اور پھر واقعی کچھ نہ کچھ کر بھی دکھاتا ہے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ پھر زندگی کی ضروریات و لوازمات ، تعیشات و لغویات میں بدل کر اس نہج پر جا پہنچتے ہیں کہ پھر عورت خود طرح طرح کی تاویلات پیش کر کے شوہر کو پردیس میں ہی رُکے رہنے پر مجبور کرتی ہے ۔

یہاں نیویارک میں ایک صاحب ہوتے تھے وزٹ ویزے پر پاکستان سے آئے تھے میعاد ختم ہونے کے بعد غیر قانونی طور پر مقیم ہو گئے اور آپ کو بھی پتہ ہی ہے کہ امریکہ و یورپ میں غیر قانونی رہائشی کی حیثیت کسی دھوبی کے کُتے کی سی ہوتی ہے ۔ تاہم طرح طرح کی کٹھنائیاں اور ذلتیں جھیل کر لوگ یہاں جو کچھ کماتے ہیں وہ وطن میں ان کے اہلخانہ کے حالات بدلنے کے لئے کافی ہوتا ہے ۔ ان صاحب نے بھی یہاں رات دن جان توڑ محنت کی خود طرح طرح کی تنگی اٹھا کے اور اپنے من کو مار کے پاکستان میں نیا گھر بنوایا بہن بھائیوں کی شادیاں کیں بچوں کو اچھی تعلیم دلائی انہیں چلتے دور کی ہر سہولت اور آسائش فراہم کی ۔ بیوی کو دم دلاسے دیتے رہے کہ سب کچھ تمہارے لئے ہی تو کر رہا ہوں ۔ اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ حقیقتاً ہمیشہ کے لئے یہاں سے واپسی کے فیصلے پر سنجیدہ ہو گئے اور معاملات کو سمیٹ ہی رہے تھے کہ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کو کینسر ہو گیا جسے وہ ڈیڑھ دو سال کا چھوڑ کرآئے تھے ۔ ابھی سیل فون اور وڈیو کال کا زمانہ شروع نہیں ہؤا تھا ٹیلیفون ، خط و کتابت اور تصویروں کے تبادلے پر بہت اچھا گذارا چلتا تھا ۔ وہ بیمار بچہ اپنے باپ کو بہت یاد کرتا تھا اور فون پر رویا کرتا تھا کہ پاپا! میں آپ کو سچ مچ میں دیکھنا چاہتا ہوں اب آپ واپس آ جائیں ۔ مگر اس کے علاج کے لئے جو رقم درکار تھی اس کے لئے بےچارے باپ کا امریکہ میں مزید رکنا اشد ضروری ہو گیا تھا ۔ یہ کما کما کے بھیجتے رہے مگر بچہ جانبر نہ ہو سکا اور باپ سے ملنے کی حسرت لئے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ اور پورے سولہ برس بعد اس بد نصیب باپ نے وطن واپسی کا رخت سفر باندھا ۔ شاید اس کے نصیب میں اسی طرح واپس لوٹنا لکھا تھا ۔
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1681938 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.