27برسوں سے مظلوموں کو انصاف فراہم کرنے کیلئے عدالتوں
میں آواز اٹھارہا ہوں۔ ان برسوں میں ان گنت واقعات و سانخات ایسے گذرے ہیں
کہ جنہیں رہ جانے والی باقی زندگی میں کھبی نہیں بھلاپاﺅں گا۔قصورمیں جویہ
حالیہ جو سانحہ ہوا ہے وہ اب تلک سب سے الگ ہے اور اس کے بعدوطن عزیز میں
رونما ہونے والی صورتحال قوم ہی نہیں پوری دنیا کے سامنے ہے۔ پاکستان کے
محالفین اور حامئین یہ جانتے ہیں کہ دنیا کے 200سے زائد ممالک میں اس قوم
سے بڑھ کرکوئی جذباتی قوم نہیں ۔ اسی وجہ کے باعث دشمنان وطن سامنے آکر
مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ بین الااقوامی طورپر خود کو عالمی
قووتیں کہنے والی مملکتیں پاکستان سے اپنے مقاصد کیلئے آگے آتی ہیں اور اس
کے بعد پلٹ جاتی ہیں۔یہ بات پوری قوم کے رہنماﺅں سمیت ان کے رہنماﺅں کو یاد
رکھنی چاہئے کہ قیام پاکستان سے اب تلک سازشیں جاری ہیں اور یہ سلسلہ جاری
رہے گا ، ان سلسلوں کو ناکام بنانا ہے اور اس کیلئے پوری قوم کو اک صف میں
کھڑے ہوکر ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ اندورنی و بیرونی سازشو ں کو ابتداءمیں ہی
ختم کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے ، یہ یاد رکھا جانا چاہئے کہ ملک اس وقت
نازک ترین دور سے گذر رہا ہے اور اس دور میں ذمہ دار اک عام فرد سے لے کر
ملک کا حکمران تک ہے۔
ان خیالات کا اظہار سندھ ہائی کورٹ کے سینئر وکیل ناصراحمد نے اک نشست میں
قصور کے سانخے پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قومی
و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندے خبروں کیلئے رابطوں میں رہتے ہیں ،
ایک بار معروف بین الااقوامی ادارے کی صحافی نے شہر قائد میں طویل سروے کے
بعد اپنے تاثرات کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عوام مسائل سے دوچار
زیادہ ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہاں پر ہر کام ، ادارہ غلط انداز میں کاموں
کو کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ وکیل ہیں آپ اپنی عدالتی کاروائیوں کو
دیکھ لیجئے وہ کس انداز میں آگے کی جانب بڑھتے ہیں اور انصاف کتنی جلدی
ملتا ہے؟ اسی نوعیت کی باتیں کرتے اور اپنے مشاہدے کے بعد مرتب کردہ سروے
کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے اختتام جس جملے پر کیا وہ جملہ ابھی تک میرے دل
و دماغ میں ہے اور رہے گا۔ اس خاتوں صحافی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا نام
پاکستان نہیں بلکہ جعلستان ہونا چاہئے ۔ اس نام کے ساتھ آپ مسائلستان بھی
رکھ سکتے ہیں تاہم یہ بات ذہین نشین رکھیں کہ مسائلستان اور جعلستان میں
فرق ہوتا ہے۔ قانون دان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا سروے کر کے چلی گئیں تاہم
مسائلستان و جعلستان والی بات اب تلک میرے دل و دماغ میں ہے۔ معاشرے کی
مجموعی صورتحال پر غور کرنے سے مجھے اس کی بات میں صداقت نظر آئی ، کھانے
پینے کی اشیاءسے لے کر تعلیم و صحت کے مسائل دیگر سبھی میں اس کی باتوں کی
صداقت نظر آتی رہی ۔ ہر سو بگاڑ ہی بگاڑ نظر آتا رہا ہمارے ذرائع ابلاغ کے
تمام ادارے ایسے ہی دور سے گذر رہے ہیں۔منافقت ہر سو نظر آتی ہے۔اس جملے کے
بعد قانون دان نے آسمان کی جانب دیکھا اور خاموشی اختیار کر لی۔
سچ تو یہ ہے کہ مسائل ہیں کہ ختم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ٹی سی
چینل کے ہی اشتہارات کو دیکھ لیجئے ، ماضی میں اک وقت ایسا بھی گذرا کہ
پورا گھرانہ مل کر ٹی وی دیکھا کرتا تھا لیکن آج حال یہ ہے کہ ایک گھر کے
چار افراد ٹی وی مل کر نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ اخبارات کا حال بھی آپ کے سامنے
ہے۔ سرکاری و نیم سرکاری کام ہوں یا کسی بھی نوعیت کا کام ہر کام کو کرنے
کا ایک طریقہ نہیں بلکہ متعدد طریقے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ پر درست ہے
تاہم یہ نقطہ بھی ذہین نشین رہنا چاہئے کہ اس پاکستان کے خلاف سازشیں بہت
زیادہ ہیں ۔ اس بات کا تو سب کو علم ہے کہ ہم اک ایٹمی قوت ہیں اس لئے ڈر
اپنی جگہ قائم ہے اور کوئی بھی سامنے آکر مقابلہ کرنے کی ہمت نہیںکرسکتا
لیکن وہ اپنے مقاصد کیلئے پیچھے سے وار کرتے ہیں ۔ سازشیں بناتے ہیں اور
ہمارے ہی لوگوں کو خریدتے ہیں اور ان کے ذریعے ان منصوبوں پر عمل کرتے ہیں۔
یہ جو حال ہی میں پنجاب کے شہر قصور میں جو سانحہ ہواہے اس واقعے نے پوری
قوم کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب بھی اگر اداروں نے انصاف فراہم
نہیں کیا تو بہت غلط ہوگا۔ عوام کے یہ مثبت جذبات منفیت کی جانب جائینگے
اور پورے معاشرے میں عجب حالات برپا ہوجائیں گے۔
قصور والے سانحے کے بعد جس کیفیت سے پوری قوم گذر رہی ہے اسی کیفیت سے راقم
بھی گذرا اور تاحال گذر رہا ہے ۔ جذبات کے اظہار کیلئے جب آپ کے پاس الفاظ
ختم ہوجائیں ،احساسات ختم ہوجائیں ، کھلے آسماں پر کوئی بادل نظر نہ آئے،
ہر چہرہ آسودہ اور ہر دل غمزدہ ہوجائے اور اس کی یہ کیفیت نظر آئے تو حالات
بہت ہی جذباتی انداز میں بدلتے ہیں۔ جب ہر سو کوئی کام بھی صحیح انداز میں
نہ ہورہا ہو ، صحیح راستے پر چلنا مشکل ترین ہوجائے ، جھوٹ ، دھوکہ دہی اک
عام ریت بن جائے ۔ بچے نہ اسکول میں محفوظ رہیں ، نہ ہی گھر اور کھلے میدان
میں ، پینے کیلئے پانی صاف میسر نہ ہو، گندا اور گنداترین پانی پینے کو مل
رہا ہو۔ کھانے کی سبزیاںہوں یا گوشت کے باتیں ، یہاں بھی جعلی سازی ہو۔ اس
سے بھی آگے بڑھ کر حکومتی اکابرین جو کہ کرپشن کو اپنا حق سمجھتے ہوئے
اقدامات کرتے ہوں۔ بیٹیوں کو ڈالرز میں بیچ دیا جاتاہواور اس صورتحال کو
مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے تیزی کے نہ سہی آہستگی سے ہی سہی کام ہونا
چاہئے ۔ مثبت کام کو بڑھانا چاہئے ، جس قدر بھی غلطیاں ہیں ان کو درست کرنے
کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں ۔ fixitکی تحریک جس نوعیت کا کام کررہی ہے اسے
پورے معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، اسی طرح پاکستان کو
جعلستان بننے سے بچانے کیلئے ، مسائلستان سے نکالنے کیلئے Mis Fitکی تحریک
بھی ہونی چاہئے جس میں غلط کو اور غلطیوں کو نکال کر ہٹاتے ہوئے اسے Mis
Fitقرار دیتے ہوئے ہٹایا جانا چاہئے اور اس کی جگہ جو صحیح ہو اسے Fit کرنا
چاہئے۔ Mis Fit کی تحریک کا اپنے لئے نہیں پاکستان کیلئے اس وقت اپنی ذات
سے ہی اس کا آغاز ہونا چاہئے یہی اس کا وقت ہے اور یہ قدم اٹھاتے ہوئے یہ
نصب العین ہونا چاہئے کہ یہی کامیابی کا راستہ ہے ۔۔۔۔۔
|