سانحہ قصور ، جنسی تعلیم اور میڈیا
(Malik Muhammad Shahbaz, )
قصور میں سات سالہ معصوم زینب کے ساتھ ظلم
و ستم کی جو داستان رقم ہوئی اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔اس ننھی
کلی کو کھِلنے سے قبل ہی مَسل دیا گیا جس کے باعث دنیا بھر کے درد دل رکھنے
والے صاحب عقل و دانش شدید غم و غصہ کی حالت میں ہیں اور اس انسانیت سوز
واقعے پر آہ و زاریاں کرنے پر مجبور ہیں۔قصور میں صرف ایک سال کے قلیل عرصہ
میں درجن بھر بچیوں کے اغواہ و زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کیے جانے پر
اہلیان قصور شدید خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔بچیوں کے اغواہ و زیادتی کے اور
قتل کے دن بدن بڑھتے ہوئے واقعات کے سبب لوگ بچوں کے لیے بہت زیادہ فکر مند
دکھائی دیتے ہیں اور گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔کریں بھی تو کیا
کریں ، جائیں بھی تو کہاں جائیں ، صورت حال اس قدر المناک ہو چکی ہے کہ
گزشتہ سات سے آٹھ واقعات میں صرف ایک ہی درندے کے ملوث ہونے کی خبریں گردش
کرتی دکھائی دیتی ہیں۔اس المناک صورت حال کے تناظر میں قانون نافذ کرنے
والے اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ صفر دکھائی دیتا
ہے۔ایک ہی درندہ ،انسانیت سے خارج ، انسانی شکل میں بھیڑیا مسلسل معصوم
بچیوں کو درندگی کا نشانہ بناتا ہے اور انتہائی بے دردی سے قتل کرکے چند
دنوں کے لیے روپوش ہوجاتا ہے اور معاملہ ٹھنڈا ہونے پر پھر سے نئے شکار
تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اورخفیہ ایجنسیاں اس
درندے کو پکڑنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔سال بھر میں درجن کے قریب معصوم
بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنانے والامجرم اب تک آزاد ہے جو کہ قانون نافذ
کرنے والے اداروں کی ناہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
قصور سمیت ملک بھر میں سینکڑوں معصوم بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا
گیاہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ ایسے واقعات پیش آنے کی اوسطاً تعداد
گیارہ کے قریب ہے۔ اس صورت حال کا ذمہ دار کسی حد تک ہمارا میڈیا بھی ہے جو
پیسے کمانے کے چکر میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس سازش کا حصہ بنا
ہوا دکھائی دیتا ہے۔وطن عزیز میں لبرل ازم کو پروموٹ کرنے کی تحریک عرصہ
دراز سے جاری و ساری ہے اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے۔ اس تحریک کی
کامیابی میں ہمارے میڈیا کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔مارننگ شوز میں
دکھائی جانے والی بے ہودگی اس مہم کا حصہ ہے اور مختلف چینلز پر نامکمل
لباس زیب تن کیے بھاشن دیتی ہوئی ماڈلز و اداکارائیں اور ساحر لودھی جیسے
بہت سے ایجنٹ اس مہم کی کامیابی میں اپنا بھر پور حصہ ڈال کر خوب مال و
متاع سمیٹ رہے ہیں ۔ گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پرایک ویڈیو گردش کرتی
ہوئی نظر آتی ہے جس میں ساحر لودھی کے پروگرام میں کم عمر بچیوں کو بے ہودہ
ڈانس کرتے دکھایا گیا ہے اور اس ڈانس پرفارمنس پر ان کی بھر پور حوصلہ
افزائی کی گئی ہے۔ ماضی میں بھی چینلز پر بوس و کنار کے نظارے دکھائے گئے
جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ہمارا میڈیا ہمیں کس طرف لے جارہا ہے؟ یہ کس
کلچر کو عام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ؟ پیمرا ، سینسر بورڈ اور دیگر
ذمہ داران کہاں ہیں جو انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا؟ٹی وی چینلز پر سر عام
بے ہودگی اور نت نئے فیشن کے نام پر نیم عریاں لباس کی طرف عوام کو کیوں
راغب کیا جا رہا ہے؟ہمارے بے لگام میڈیا کو آخر لگام کون ڈالے گا؟۔
سانحہ قصور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مفاد پرست عناصر اپنے مقاصد کے
حصول میں مصروف عمل ہو گئے ہیں۔صورت حال اس قدر گمبھیر ہو چکی ہے کہ سیاسی
اداکار اپنی سیاست چمکانے کے چکر میں دن رات ایک کیے بیٹھے ہیں اور مسلسل
بیان بازی و الزامات کی بوچھاڑ سے دکھی و مجبور قصوریوں کی حالت سے فائدہ
اٹھا کر انہیں جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑکی دلدل میں دھکیل کراپنا اپنا چورن
بیچنے میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی اداکاروں کی اداکاری کے سبب
زینب کے بعد دو جانیں مزید گنوائی جا چکی ہیں۔دوسری طرف لبرل ازم کے حامی
معصوم زینب کے اس دردناک قتل کے سبب پیدا ہونے والی غم و غصے اور احتجاج کی
صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ناپاک عزائم مسلط کرنے کے لیے بھرپور
تگ و دو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔بچوں کو بے راہ روی کی طرف راغب کرنے کے لیے
جنسی تعلیم کو تھوپنے کی کاوشیں عروج پر ہیں اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت
جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے
۔ کیا جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانے یا لازمی مضمون کے طور پر پڑھانے سے
زیادتی و قتل کے واقعات تھم جائیں گے؟بالکل بھی نہیں ۔۔۔بلکہ ان واقعات میں
مزید اضافہ ہونے کا خدشہ نظر آتا ہے اورجنسی تعلیم سادہ لوح ، معصوم بچوں
کو بے حیائی و بے راہ روی کی طرف راغب کرنے کا سبب ہوگی۔
معصوم بچوں پر جنسی تعلیم مسلط کرنے کی صورت میں منفی اثرات مرتب ہوں
گے۔بچوں کووحشی درندوں سے محفوظ رکھنے کے لیے جنسی تعلیم کی ضرورت نہیں
بلکہ انسانیت سے خارج ، وحشی درندوں اور انسانی لبادہ اوڑھ کر آزاد دندناتے
بھیڑیوں کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط
کرنا ہوگا، انہیں ذمہ داریوں کا احساس دلانا ہوگا اور نئے قوانین کا اطلاق
کرنا ہوگا جس کی مدد سے وحشی درندوں کو عبرتناک سزا دی جا سکے ۔بے لگام
میڈیا کو لگام ڈال کر بے ہودگی و بے پردگی کو کنٹرول کرنے کے لیے پیمرا ،
سینسر بورڈ و دیگر ذمہ داران کومثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ بصورت دیگرمعصوم
بچوں اور بچیوں کو درندگی کا شکار ہونے سے ہر گز نہیں بچایا جا سکتا۔
|
|