پروفیسر حسن ظفر عارف نہ رہے۔ فلسفہ کی
گتھیاں سلجھانے والا شاید نہیں جانتا تھا کہ طاقت والے ہاتھ کسی گریباں کو
پکڑنے سے پہلے یہ نہیں سوچتے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے سر پہ
ایک دھن سوار تھی ڈٹ جانے کی اور جو ڈٹ جائے اس کا جاں سے جانا طے ہو جاتا
ہے۔ اہلِ طاقت کو بس اپنی طاقت کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ سو اس کے لیے وہ
کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ پروفیسر عارف کی موت کن حالات میں ہوئی۔
طبی تھی یا غیر طبی…… اغواہ ہوا تھا یا نہیں…… ہر کوئی اپنی اپنی نسبتوں کا
پاس رکھتے ہوئے بیانات دے رہا ہے۔ لیکن کیا حسن عارف خود گاڑی میں آ کے
لیٹے تھے اور جاں ملک الموت کے حوالے کی تھی؟؟؟ اس سوال کو کون جھٹلائے گا؟؟
ان کے چہرے اور سر سے خون کے نشانات مٹانے سے کیا مٹ جائیں گے؟ کیا کوئی
سوچتا ہے کہ ایسا پاکستان میں ہی کیوں ہوتا ہے؟ لوگ گھروں سے اٹھا لیے جاتے
ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں اسلحہ بردار نقاب پوش آتے ہیں لوگوں کو اٹھاتے ہیں
اور یہ جا وہ جا…… نہ کسی تھانے میں ریکارڈ نہ کسی عدالت میں پیشی…… ان
لوگوں پہ کیا گزرتی ہے۔ ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کے خاندان کو
کیسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے تا کہ کوئی آواز نہ اٹھا سکے۔ اور اگر کوئی
آواز اٹھائے تو اس کے ساتھو ایسا ہی ہوتا ہے جیسا اگلے دنوں معروف صحافی طہٰ
صدیقی کے ساتھ ہوا۔
آخر یہ کون لوگ ہیں جو کسی کی گرفت میں نہیں آتے۔ جو کسی کو جواب دہ نہیں
ہیں اور جن نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے۔ اس دیس میں ہزاروں لوگ
اغواہ ہو چکے ہیں جنھیں کہیں رات کے اندھیروں میں اور کہیں روشن دن میں
اٹھایا گیا اور نامعلوم مقامات پہ منتقل کر دیا گیا۔ ان میں ایک بڑی تعداد
ایسے لوگوں کی ہے جن کا قصور یہ ہے کہ وہ سوچتے ہیں، سوال اٹھاتے ہیں اور
مظلوم کی آواز بنتے ہیں۔ لیکن شاید اس دیس میں مظلوم کی آواز بننا بھی ایک
جرم ہے اور اس جرم کی سزا بہت سخت ہے جس کا تعین کسی عدالت میں نہیں ہونا
بلکہ ایسے لوگ کرتے ہیں جن کا نہ تو علم سے کوئی علاقہ ہے اور نہ ہی دانش
سے اور جہاں علم و دانش نہ ہو وہاں صرف طاقت ہی راج کرتی ہے۔ لیکن آفریں ہے
دھرتی کے ان بہادر سپوتوں پہ کہ ہر قسم کے خوف و ڈر کو بالائے طاق رکھ کر
حق کی سربلندی کے لیے آواز اٹھاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا آواز
اٹھانا کبھی تو رنگ لائے گا اور فیض صاحب کا خواب ’’ہم دیکھیں گے……‘‘
شرمندۂ تعبیر ہو گا۔
ان سرفروشوں کی امید زندہ ہے کہ کسی دن تو ایسا ہو گا کہ کسی غریب کو کوئی
وڈیرہ یا جاگیر دار ظلم کی بھٹی میں نہیں ڈالے گا۔ قتل کر کے وکٹری کا نشان
بناتے ہوئے قانون کا منہ نہیں چڑھائے گا۔ ان کی امید زندہ ہے کہ کوئی دن تو
ایسا ہو گا کہ جب وطن کے نظر انداز کیے حصوں میں کوئی اپنے دو کلو بھاری
جوتے سے لکڑی کے دروازے کو ٹھوکر مار کر نہیں گرائے گا۔ جب حق کے لیے آواز
اٹھانے والے مردوں کا اغواہ اور عورتوں کا ریپ نہیں ہو گا…… اور جب دن
دیہاڑے عام انسانوں کا قتل کرنے کے بعد کوئی صرف اس لیے قانون کی گرفت سے
محفوظ نہیں رہ پائے گا کہ اس کا خاص لباس اس کی ماورائے قانون شناخت کا سبب
ہے…… بس اسی امید پہ تو صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ لیکن اس بستی میں صدائے حق
پہ لبیک کہنے والے کم کم ہیں۔ جنونیت نے معاشرہ کو نگل لیا ہے۔ یہ جنونیت
کا ہی تو اثر ہے کہ اب یہاں مصائب سے گزرنے والے غم و الم کی حالت میں بھی
اپنے قلب و ذہن میں موجود منافرت اور تعصب کا اظہار کرنے میں ذرا سی بھی
شرم محسوس نہیں کرتے کہ جس کا اظہار اگلے دنوں ہم نے قصور میں دیکھا ہے۔
عوام میں موجود اسی جنونیت کو وہ لوگ اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں جو
ریاست کے اندر اپنی ریاست کی اتھارٹی کے تمنائی ہیں اور اس معاملے میں خاصے
کامیاب بھی ہیں۔ عوام کی جنونیت کو کہاں کیسے استعمال کرنا ہے وہ بخوبی
جانتے ہیں۔ اسی لیے تو اہلِ فکر کے لیے راستے روز بہ روز دشوار ہو رہے ہیں۔
یہاں اہلِ فکر کی پہچان ان کا کام نہیں بلکہ ان کی پہچان وہ ہے جو انھیں دی
جاتی ہے۔ اور انھیں مخصوص پہچان دینے والے اور کوئی نہیں بلکہ وہی لوگ ہوتے
ہیں جو پسِ پردہ ریاست میں اپنی حاکمیت کے لیے کام کر رہے ہیں اور عوام اس
پہچان کو قبول بھی کرتی ہے اس پہ اپنا بھرپور ردِ عمل بھی ظاہر کرتی ہے۔
وہی ردِ عمل جس کے حصول کے لیے سارا تماشا لگایا جاتا ہے۔
معاشرے کے کسی فرد کو جب کوئی خاص پہچان دینی ہو تو اس کے لیے پہلے آسان
راستے اپنائے جاتے ہیں۔ متعلقہ شخص سے جڑے لوگوں میں یا اس کے ماحول میں
موجود اپنے ہرکاروں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اور جب لوہا گرم دکھے تو
وار کر دیا جاتا ہے۔ عموما اہلِ شعور کی گمشدگی یا قتل اس معاملے میں
انتہائی سطح کے اقدام ہوتے ہیں اور متعلقین کی عدم موجودگی میں ان کی
نسبتوں کا ذکرِ عام ہوتا ہے۔ جن میں سچ کم اور جھوٹ زیادہ ملتا ہے۔ ایسے
مواقع پہ ہی غیب سے یہ معلومات آنے لگتی ہیں کہ گم شدہ یا مقتول ملک دشمن
بھی تھا اور دین دشمن بھی۔ اس کے ان رابطوں کی تفصیلات بھی سامنے آنے لگتی
ہیں کہ جن سے خود اس کی سات نسلیں بھی آگاہ نہیں ہوتیں۔ دراصل یہ سب سے
سستے اور اثر آفرین نسخہ جات ہیں۔ جنونیت کے شکار معاشرے میں کسی پہ بھی
ملک و ملت سے غداری کا لیبل لگا دیا جائے تو عوام میں اس کی پہچان ابلیس سے
کسی درجہ کم نہیں رہتی اور انسانوں میں ابلیس سے زیادہ نفرت کس کے لیے ہو
سکتی ہے۔ خیر یہ تو وہ پہچان ہے جو اکثر اہلِ شعور کو دی جاتی ہے لیکن
حقیقتاً ان کے ساتھ کیا کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے یہ وہی بتا سکتا ہے جو
ان عقوبت خانوں سے کبھی زندہ واپس آ جائے۔ لیکن جو خوش قسمت لوٹ آئیں وہ
بھی مستقل خاموشی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ
اور کتنے رشتے جڑے ہیں اور ان کے ساتھ دورانِ اغواہ جو کچھ ہو چکا ہے اس کے
بعد ان کے لیے اس معاشرے میں جینا کسی وقت بھی دشوار ہو سکتا ہے۔ وہ یہ بات
کہنا چاہیں بھی تو سرِ عام نہیں کہہ سکتے کہ ان سے بند کمروں میں کیمروں کی
موجودگی میں ایسے ایسے کام کرائے جاتے ہیں کہ جن کے عشر عشیر کا تصور بھی
مسلمان تو کیا کوئی غیر مسلم بھی نہیں کر سکتا۔ وہ کیسے عوام کو یہ بتائیں
گے کہ انھیں غدار وطن و مذہب کی پہچان دلوانے والوں نے خود ان کے سامنے
مقدسات کو کیسے پائمال کیا۔ وہ نہیں بتا سکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسا
سب کچھ ایک خاص لائحہ عمل کے تحت ہوتا ہے تاکہ ان کی زبانیں ہمیشہ کے لیے
خاموش ہو جائیں۔ |