سچائی فتووں کی محتاج نہیں ہوتی، البتہ سچائی کی خاطر
زبان کھولنے کے لئے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے،۱۶ جنوری ۲۰۱۸ کو منگل کے روز
ایوان صدر اسلام آباد میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی ، جس میں سینکڑوں
علما اور دانشوروں کے دستخطوں سے یہ فتویٰ جاری کیا گیا کہ دہشت گردی کی
ترغیب دینے والے، خودکش حملوں کی تربیت، اوردہشت گردی کا حکم دینے والےاور
ان کے حکم پر عمل کرنے والے یہ سب لوگ اسلامی تعلیمات کے باغی ہیں، فتوے کے
متن کے مطابق متحارب جہاد کا حکم صرف ریاست کا اختیار ہے اور اپنے طور پر
یہ عمل کرنے والے باغی تصور کیے جائیں گے۔
اس فتوے میں دہشت گردی کو اسلام کے منافی اور طاقت کے زور پر اپنے نظریات
مسلط کرنے والوں کو اسلامی تعلیمات کا باغی قرار دیا گیا۔
اس فتوے میں جوکچھ بیان کیاگیا ہے ، اس میں کوئی بھی نئی بات نہیں ہے، یہ
اسلام کی چودہ سو سالہ تعلیمات ہیں جن کا اعادہ کیا گیا ہے ، البتہ اس فتوے
کا صدور اس حقیقت کی غمازی ضرورکرتا ہے کہ عصر حاضر میں کچھ لوگ خوارج کی
طرح دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے منحرف ہو گئے ہیں اور انہیں راہِ راست
پر لانے کے لئے اس فتوے کا سہارا لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ اس فتوے پر 1829 علمائے کرام کے دستخط لیے گئے ہیں اور
صدرِ پاکستان سمیت ، پاکستان کی کئی اہم شخصیات نے اس فتوے کی تائید کی اور
اسے مثبت پیشرفت کا نام دیا۔
یہاں پر یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ یہ فتویٰ ایسے وقت میں دیا گیا ہے کہ جب
دہشت گردوں کے حقیقی سرپرستوں یعنی امریکہ، ہندوستان اور افغانستان کی طرف
سے بار بار پاکستان پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے
خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
دوسری طرف سعودی عرب نے بھی بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کے تناظر میں تکفیر
یت، تحریک طالبان و مولوی صوفی محمد کی کالعدم نفاذ شریعتِ محمدی، لشکر
جھنگوی ، القاعدہ او رداعش وغیرہ کی براہِ راست سرپرستی سے تقریباً ہاتھ
کھینچ لیا ہے۔
چنانچہ ان سارے گروہوں کو بھی اب ایک پناہ گاہ کی ضرورت ہے ۔ایسے میں
ریاستِ پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردوں کی
پناہ گاہ نہ بننے دے اور اس بیانیے کی روشنی میں دہشت گردوں کے خلاف قانونی
اور عسکری کارروائیاں جاری رکھی جائیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اس سے پہلے بھی مختلف علمائے
کرام فتوے دیتے رہے ہیں اور دہشت گردی کرنے والے لوگ بھی دہشت گردی کے حق
میں فتوے جاری کرتے رہے ہیں۔جہاں تک فتووں کی بات ہے تو دونوں طرف دہشت
گردی کے حق میں بھی اور دہشت گردی کے خلاف بھی فتووں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔
ایسے میں فقط کاغذی طور پر فتویٰ فتویٰ کھیلنے سے ریاست اور عوام کو کوئی
فائدہ نہیں ہونے والا۔
اس فتوے پر اٹھارہ سو کے بجائے اگر ۱۸ ہزار علما بھی دستخط کر دیں لیکن اگر
حکومت ریاست کے دشمنوں کو دار پر نہ لٹکائے، مقتولین کا قصاص نہ لئے، فتنہ
گروں کی سرکوبی نہ کرے اور تکفیر کرنے والوں کو لگام نہ دے تو اس فتوے کی
حیثیت ردّی کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں رہ جائے گی۔
اس فتوے کے باوجود اگر نفرت انگیز تقریریں اور نعرے بند نہیں ہوتے، دہشت
گردی کی تربیت دینے والے مدارس سیل نہیں ہوتے ، مغرضانہ اور باغیانہ لٹریچر
چھپتا رہتا ہے ،ریاستی اداروں کی رٹ کو چیلنج کیا جاتا ہے تو پھر دہشت
گردوں کی از سرِ نو حوصلہ افزائی ہوگی اور دہشت گرد اپنی بکھری ہوئی طاقت
کو سمیٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونگے۔
ہماری ریاست کو چاہیے کہ ریاستی اداروں کے ذریعے اس فتوے کی طاقت اور اہمیت
کا اظہار کرے۔ اگر ریاستی ادارے اس فتوے کی اہمیت کے قائل نہیں ہوتے اور اس
فتوے کی طاقت کا لوہا نہیں منواتے تو پھر اس فتوے کی ناکامی بھی ریاست کی
ہی ناکامی تصور ہوگی۔
اب بات فتوے سے آگے بڑھ چکی ہے، بین الاقوامی پسِ منظر میں پوری دنیا کی
نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں، ایسے میں ریاستِ پاکستان کی بین الاقوامی
ساکھ کے تحفظ اور عالمی برادری کے دباو کا بھی یہی تقاضا ہے کہ پاکستان
اپنے دفاعی اتحادیوں اور اسٹریٹیجک اثاثہ جات پر نظرِ ثانی کرے۔
حالات تیزی سے تبدیل ہو چکے ہیں ایسے میں پیغامِ پاکستان جہاں ساری دنیا کے
لئے ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے وہیں خود پاکستان کی انا اور بقا کا مسئلہ
بھی ہے۔ |