ہمارے ملک اسلامی جمہویہ میں آئے دن اخباروں میں بچوں سے
زیادتی کے حوالے سے خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کسی بچی کو حوس کا
نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی کسی بچے کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔یہ پاکستان
میں معمول کا کام ہے پاکستان میں کچھ نہیں تو 50 فیصد لوگ ایسے ہیں جو اس
مرض میں مبتٰلا ہیں کچھ کے چہرے بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ لبادہ
اوڑھے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔میں کافی عرصہ سے اس موضوع پر لکھنا چاہا
رہا تھا لیکن اس لیئے نہیں لکھ رہا تھا مجھے عجیب سا لگ رہا تھا اس پر کیا
لکھوں۔لیکن یہ جو زینب کے کے ساتھ واقع ہوا ہے اس نے دل کو بہت ٹھیس
پہنچائی ہیتو اس طرح کے لوگوں کے چہروں شرافت کا نقاب ہٹانا میں بہت ضروری
سمجھتا ہوں جو کہ شرافت کا لبادہ اوڑھے بہت سارے بچوں اور بچیوں کی عزتوں
سے کھیل رہے ہیں اور ہم تماشائی بنے تماشا دیکھ رہے ہیں آج ہمیں خاموش نہیں
رہنا بلکہ ان کے خلاف اپنی آواز کو بلند کرنا ہو گا۔ہر بچے بچی کو اپنی بچی
سمجھانا ہو گا اس طرح کے واقعات میں جتنا گناہ کرنے والا شریکِ جرم ہے اتنے
ہی ہم لوگ بھی اس طرح کے جرائم میں شریکِ جرم ہیں وہ ایسے کہ جب کوئی اس
طرح کا بندہ جرم کر رہا ہوتا ہے ہمیں بہت سارے لوگوں کا پتہ ہوتا ہے کہ اس
شخص میں یہ بُرائی ہے،تو ہم کیوں نہیں اس کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے ؟ہم
اس شخص کا راز فاش کیوں نہیں کرتے؟اس شخص اس کی اس بُرائی جو کہ ایک خطرناک
صورت اختیار کر سکتی ہے اسے معاشرہ کے سامنے کیوں نہیں لاتے؟جس سے یہ نقصان
ہوتا ہے کہ ایسا لوگوں میں جو اس طرح کی مرض پائی جاتی ہے شدت اختیار کر
جاتی ہے اور وہ ایک عادی مجرم بن جاتا ہے اگر اس طرح کے لوگوں کو ابتدا سے
ہی روک دیا جائے تو شائد اس طرح کے بڑے بڑے واقعات میں کمی واقع ہو سکتی ۔
ہمارے اردگربہت سارے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کہ اس طرح کے کام سر انجام دے
رہے ہوتے ہیں لیکن ہماری خاموشی ان کا حوصلہ بڑھاتی ہے،اور ان حوس کے پجاری
لوگوں کا حوصلہ اس قدربڑھ جاتا ہے کہ ان میں ڈر خوف ختم ہو جاتا ہے جس کی
وجہ سے بہت سارے بچے بچیاں ہیں جو کہ سات سے تیرہ سال کی عمر تک ان حوس
پرستوں کی حوس کا نشانہ بنتے ہیں۔اس طرح کے لوگ کئی بار پکڑے بھی جاتے
ہیں،کئی بار ان کا منہ بھی کالا کیا جاتا ہے لیکن یہ لوگ کتے کی دم جیسے
ہوتے ہیں جو کہ شائد کبھی سیدھی نہیں ہوتی۔ یہ مرض ہر طرح کے لوگوں میں
پائی جاتی ہے ایک دودھ والے سے لیکر ایک استاد تک اس کام میں ملوث ہیں ہمیں
اس طرح کے لوگوں کے بارے میں اپنے بچوں کو بتانا چاہیئے کہ یہ کس طرح کے
بُرے لوگ ہیں تاکہ بچہ شروع ہی سے ان کوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور
ایسے لوگوں کے بکاوے میں نہ آئیں اور اس طرح کے لوگوں کے چہرے زیادہ سے
زیادہ بے نقاب ہو سکیں اور زیادہ لوگ کھل کر سامنے آسکیں گے اور اس طرح کے
واقعات میں کمی واقع ہو سکتی ہے اس طرح کے لوگ شکاری کتوں کی طرح ہوتے ہیں
ہر وقت اپنے شکار کی تلاش میں رہتے ہیں۔ان کا شکار کرنا کا طریقہ تھوڑا
مختلف ہے ہر طرح سے یہ جال میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں اس لیئے ہمیں اپنے
بچے بچیوں کا بہت سارا خیال رکھنا چاہیئے کہ ہمارے بچے کہاں جاتے ہیں کس سے
ملتے ہیں کیوں ملتے ہیں۔تو ہمارے بچے کافی حد تک ان لوگوں سے بچ سکتے ہیں ا
یک دوکاندار بچے کو فری چیزیں کیوں دے رہا ہے؟ کوئی بھی ٹیچر ہمارے بچے سے
حد سے زیادہ پیار کیوں کر رہا ہے؟ یہ سب چیزیں بہت غور طلب چیزیں ہیں۔آج کے
دور میں کوئی بھی انسان بغیر مقصد کے کسی کو کچھ نہیں دتیا۔اس دور میں تو
ایک بچی باپ بھائی سے محفوظ نہیں بے شمار واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں تو ایک
غیر تو پھر غیر ہے جب ہم کسی بھی اپنے پرائے پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کر
لیتے ہیں تو اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ کچھ کیس تو سامنے آ جاتے ہیں
دُنیا کو حقائق کا پتہ چل جاتا ہے کس نے یہ حرکت کی کیوں کی لیکن بہت سارے
ایسے واقعات ہیں جو کہ رونما ہوتے ہیں لیکن اس کی کسی کو کانوں کان خبر
نہیں ہوتی حتی کہ وہ بچہ بچی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ لیتی ہے اور وہی
بچے آگے اسطرح کے کام کرتے ہیں۔کیونکہ ان کے ساتھ جیسا ہوتا ہے ویسا ہی
کرتے ہیں،اور بعض لوگ ساری زندگی شرمندگی اور احساس کمتری میں گزار دتیے
ہیں۔یہ اس معاشرے کا ناسور ہے اس کی روک تھام انتہائی ضروری ہے اس سے بہت
ساری برائیاں جنم لے رہی ہیں جو کہ نہ صرف انسانی صحت کیلیے نقصان دہ ہے
بلکہ اسلام کے منافی ہیں۔اس لیئے ہمارا اسلام ان باتوں سے سختی سے منع کرتا
ہے۔جوبچے بچیاں کسی کی حوس کانشانہ بار بار بنتے ہیں اور کھل کر سامنے نہیں
آتے ان میں بے شمار اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں جو کہ دوسروے لوگوں کو بھی
خراب کرتی ہیں ۔ہم جنس پرستی اسی کی کڑیاں ہیں۔اس لیئے اس کی روک تھام بہت
ضروری ہے حکومت پاکستان کو اس برائی کو روکنے کیلیئے ایک خفیہ ٹیم بنانی
چاہیئے جو کہ ہر ایسے بندے کی نقل وحرکت پر نظر رکھے اور اگر کوئی بھی
اسطرح کی حرکت میں ملوث پایا جائے تو اس کو سخت سزا دی جائے،اور عبرت کا
نشان بنایا جائے۔تاکہ کوئی بھی بے حس انسان اس طرح کی حرکت نہ کر سکے۔اس
کام کو اسی لیئے فروغ ملا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف کاروائی ضرور ہوتی ہے
لیکن اس کی سز کوئی سخت نہیں ہے ،خاص کر اگر کوئی درندہ صفت انسان کسی بچے
یا بچی کو اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہوتے پکڑا جائے تو اسے ضرور عبرت کانشان
بنایا جائے۔تاکہ زینب جیسی بیٹوں کو تحفظ مل سکے آج کتنی ہی زینب جیسی
بیٹیاں ہیں جو کہ ان شکاری کتوں کا شکار ہو گئی ہیں یہ سب دیکھ کر زمانہ
جہالت کا وہ دور اچھا لگتا ہے جب لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے
تھے،صرف ایسی لیئے کہ ان کی بیٹی کسی شکاری کتے نما انسان کا شکار نہ ہو
جائے اس دور میں بھی عورت کے ساتھ بہت برا سلاک ہوتا تھا جس سے بچنے کیلیئے
ماں باپ کو یہ سب کرنا پڑتا تھا آج ہزاروں سال گزرنے کے باوجود بھی ان
درندہ صفت انسان کا وجود ختم نہیں ہوا۔آج بھی اس طرح کے کتے دندناتے پھر
رہے کوئی ان کو لگام ڈالنے والا نہیں ہے ۔اس معاشرہ کے ناسور کا خاتمہ ضرور
ہونا چائیے تاکہ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان بہت ساری خلاقی امراض سے
بچ سکے جو کہ آج کل کے نوجوان لڑکے لڑکیوں میں پائی جاتی ہیں ۔حکومت کو اس
طرف دھیان دینا ہوگا۔اسلام نے اس جرم کو روکنے کیئے لیئے واضح کردیا ہے بس
عمل کی ضرورت ہے۔اگر پاکستان میں کم از کم یہ قانون اسلام کے مطابق نافذ
ہوجائے تو کوئی بھی اس طرح کی جرات نہیں کرے گا .
|