جمہور کی حاکمیت، لوگوں کی مطلق العنانی یعنی لوگوں کا
خدا کے ہم پلہ قادر مطلق، مختار کل ہونا۔ جس طرح اللہ کریم قادر مطلق ہے جو
چاہے کر سکتا ہے اسی طرح لوگوں کی اجتماعی سوچ، اجتماعی خواہش باہم مل کر
ملک میں جو چاہے کر سکتی ہے، اپنی ضرورت کے مطابق جو چاہے قانون بنا سکتی
ہے، جو چاہے قانون توڑ سکتی ہے خواہ وہ قرآن و حدیث کا فرمان ہی کیوں نہ ہو
اور اس کا اصل مقصد ہی کاشانہ دین نبوی ﷺ میں غارت گری یعنی چھپ کر حملہ
کرنا ہی ہے۔دین کے اصولوں کو توڑ کر لوگوں کو اپنی خواہش نفس کا تابع فرمان
بنانا جمہوریت کے ہر اصول کی اصل منشاء ہے۔
جمہور کی حاکمیت (Sovereignty of the People )کے نظریہ کو ابتداء میں
بادشاہوں اور جاگیر داروں کے اقتدار کی گرفت توڑنے کے لیے پیش کیاگیا تھا
اور اس حد تک بات کسی طرح درست تھی کہ ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک طبقہ
کو لاکھوں کروڑوں انسانوں پر اپنی مرضی مسلط کردینے اور اپنی اغراض کے لیے
انہیں استعمال کرنے کاکوئی حق نہیں ہے۔ ایک ایک ملک اور ایک ایک علاقے کے
باشندے اپنے آپ حاکم اور اپنے آپ مالک ہیں۔ اسی نظریہ پر ترقی کر کے
جمہوریت نے اب جو شکل اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر قوم اپنی مرضی کی مختار
کل ہے۔ اس کی مجموعی خواہش کو پابند کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے نہ قرآن نہ
سنت نہ حدیث نہ کوئی فقہ۔ اخلاق ہو یا تمدن، معاشرت ہو یا سیاست، ہر چیز کے
لیے برحق اصول وہ ہیں جو قومی خواہش سے طے پائیں، اور جن اصولوں کو قوم کی
رائے عامہ رد کردے وہ باطل ہیں۔ قانون اور حکومت قوم کی مرضی پر منحصر ہے،
جو قانون چاہے بنائے اور جس قانون کو چاہے توڑ دے یا بدل دے۔ حکومت قوم کی
رضا کے مطابق بننی چاہیے، قوم ہی کی رضا کااسے پابند ہونا چاہیے اور اس کی
پوری طاقت قومی خواہش کو پورا کرنے میں صرف ہونی چاہیے۔
یہ چوتھا اصول جمہور کی حاکمیت پہلے تینوں اصولوں کے ساتھ مل کر اس بلا کی
تکمیل کردیتا ہے جسے موجودہ تہذیب میں جمہوریت کہتے ہیں۔ یہ چاروں تھیوریز،
آئیڈیاز اور اصول مغرب کے پیش کردہ ہیں جو ناصرف ہمارے دین ، بلکہ ہر
باشعور انسان کی عقل و فہم سے بالا تر انتہائی فرسودہ ہیں۔ ذرا غور کیجیے
کہ پہلے تو سیکولر یعنی دین کی نجکاری، پرائیویٹ صرف اپنی ذات کی حد تک،پھر
لبرل یعنی دین سے آزادی، لادینی نے ان لوگوں کو خدا کے خوف اور اخلاق کے
مستقل اصولوں کی گرفت سے آزاد کرکے بے لگام اور غیر ذمہ دار اور بندہ نفس
بنادیا ، پھرنیشنل ازم یعنی قوم پرستی نے ان کو شدید قسم کی قومی خود غرضی
اور اندھی عصبیت اور قومی غرور کے نشے سے بدمست کردیا، اور اب یہ جمہوریت
انہی بے لگام بدمست بندگانِ نفس کی خواہشات کو قانون سازی کے مکمل اختیارات
دیتی ہے اور حکومت کا واحد مقصد یہ قرار دیتی ہے کہ اس کی طاقت ہر اس چیز
کے حصول میں صرف ہو جس کی یہ لوگ اجتماعی طور پر خواہش کریں۔ سوال یہ ہے کہ
اس طرح کی خود مختار صاحب حاکمیت، اور باغی قوم کا حشر دنیا و آخرت میں
حقیقی حاکم، مالک کل، مختار کل کے سامنے کیا ہو گا جس کے دین سے بغاوت پر
مبنی نظام اپنایا؟ دنیا میں تو حقیقی قادر مطلق نے اس کے متعین کر دہ دین
سے منہ موڑنے پر جو وعدہ فرمایا
فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلاَ ےَضِلُّ وَلاَ یَشْقٰیo وَمَنْ اَعْرَضَ
عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِےْشَۃً ضَنْکًا (طہ)
جس نے میری ہدایت (قرآن مجید) کی پیروی کی وہ نہ بہکے گا، نہ بھٹکے گااور
نہ بد نصیب و بد بخت ہو گا، اور جس نے میرے ذکر (متعین کردہ ضابطہ حیات) سے
انحراف کیااس کے لیے اس کی معیشت، زندگانی تنگ کر دی جائے گی۔
یہ تنگ زندگانی اور معیشت کا ضنکابجتا اس وقت ہمارے سامنے ہے جو پوری دنیا
میں روز بروز مسلمانوں پر زندگانی تنگ ہوتی جا رہی ہے تما م تر وسائل و
ذرائع اور افرادی قوت ہونے کے باوجود۔ جب اسی طرح دنیا میں ساری متمدن
قومیں اسی ڈھنگ پر سیکولر،بے دینی، قوم پرستی اور جمہوریت کے اصولوں پر
منظم ہوں اور اپنی من پسند خواہشات اور ارادوں کے تابع ہوں اور اپنی اپنی
غرض اور مفادات کی جنگ لڑیں گی تو دنیا بد مست درندوں کا میدانِ جنگ نہ بنے
گی تو اورکیابنے گی؟
جب کوئی ملک دینی اصولوں سے قطعی نظر مفاد پرستی اور خود غرضی کا قانون
اپنائے گا تو اس کا ہر ہر شہری بھی مفاد پرست اور خود غرض ہی ثابت ہو گا
اور اپنے مفاد کی تکمیل کیلئے دوسروں اور نسبتاً کمزور لوگوں کے حقوق کو
غصب کرے گاتو پھر دنیا میں امن کیونکر قائم ہو گا جب کوئی امن و سلامتی کا
ضابطہ ، اخلاقی رویہ ،حسن معاملات،برتاؤ اور برداشت کا کوئی اصول ہی نہ ہو؟
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر میں اس نظامِ جمہوریت کو انتہائی فاسد اور
کفر پر مبنی نظام سمجھتاہوں جوان چاروں مغربی مکاتب فکر کے اصولوں کی
بنیادہے۔ میری عداوت اور دشمنی لادینی قومی جمہوری نظام سے ہے، خواہ اس کے
قائم کرنے اور چلانے والے مغربی ہوں یا مشرقی، غیر مسلم ہوں یا نام نہاد
مسلمان، جہاں، جس ملک اور جس قوم پر بھی یہ مسلط ہوگی، دنیا و آخرت میں
رسوئی اور قہر خداوندی اس کا مقدر ہو گا۔
ذرا غور سے پڑھیے کہ یہود کی خفیہ دستاویزات ’’ The Protocols of the
Learned Elders of Zion‘‘ میں جمہوریت بارے کیا لکھا ہے؟
’’نادان عوام سیاستدانوں کی ذہانت اور فطانت کو بڑی عقیدت اور ا حترام کی
نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے تشدد تک کو مستحسن سمجھتے ہیں۔ یہ شیطانیت ہی
ہے لیکن ہے کتنی ذہانت کے ساتھ۔ آپ اگر چاہیں تو اسے ایک چال کہہ سکتے ہیں
لیکن ذرا سوچئے تو سہی یہ چال کتنی عیاری اورمکاری سے ساتھ چلی گئی۔اور
کتنے شاندار طریقے سے مکمل کی گئی ہے۔ کتنی دیدہ و دلیری اور بیباکی کے
ساتھ۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام ممالک یہ جدید ڈھانچہ قائم کرنا چاہیں گے جس کا
منصوبہ ہم نے تیار کیا ہے۔۔۔۔۔ انتخابات، جنہیں ہم نے بڑی محنت اور
جانفشانی سے بنی نوع انسان کی چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں جلسے کرا کرا کے اور
گروہوں کے درمیان معاہدے کرا کے ذہین نشین کروایا ہے یہی انتخابات دنیا کی
تخت نشینی کے حصول میں ہماری مدد کریں گے۔‘‘
(Protocols # 10 ۔ اقتدار کی تیاری، عام رائے دہندگی)
جمہوریت جس پر آج دنیا کا سیاسی ، معاشی نظام ، انتظامی نظام چل رہا ہے اس
کے پیچھے چھپے مغرب کے یہ چار بنیادی حقائق اور اصول جو آپ کے سامنے رکھے
یہ کسی بھی مہلک ہتھیار سے زیادہ خطرناک اور کارگر ثابت ہوئے ہیں، اہل مغرب
جنہیں کسی بھی مہذب تہذیب کو کچلنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ان مہلک نظریات
نے سب سے زیادہ نقصان عالم اسلام کو پہنچایا، اس دنیا میں فحاشی، بدکاری،
اور ہر برائی کو پھیلانے کے راہیں ہموار ہوگئیں،لوگوں کی مجموعی خواہش نے
مل کر جس بدی کا مطالبہ کیا وہ انہیں قانونی طور پر میسر کی گئی۔ یوں پوری
دنیا کو جمہوریت اور عالمگیریت کے نام پر جہنم کدہ بنا دیا گیا۔ترکی کی
عظیم اسلامی خلافت عثمانیہ کو کچل کر ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں یہی ہتھیار، یہی
حربے استعمال ہوئے اور عظیم ریاست اسلامیہ ٹکڑوں میں بکھیر کر ایک دوسرے کے
خلاف صف آراء کر دیا اور اسرائیل کا ناپاک وجود اسلامی ریاستوں کے بیچ عمل
میں لایا گیا، اسلامی ریاستوں کے سینہ پر یہودی ریاست خنجر کی طرح گھونپ دی
گئی، اور اس کا نقشہ بھی بالکل خنجر نما ہی ہے جو ہر باشعور مسلمان کو واضح
پیغام دے رہا ہے کہ یہ دھرتی اسلام کے سینہ پر خنجر مغرب کا گھونپا ہوا،
مغرب کی نوازش، مغرب کا احسان و کرم ہی ہے اس کے باوجود مسلم حکمران خدا و
ررسول ﷺ کو چھوڑ کر اسے اپنا خیرخواہ گردانتے ہیں اور اسی عطار کے لونڈے سے
دوا لینے پر مصر ہیں۔
دیکھ مسجد میں شکستہ رشتہ تسبیح شیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زمناری بھی دیکھ
کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر
اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
مغرب کے ان عیارو مکار خاموش ہتھیاروں نے اسلام کو بہ
ت نقصان پہنچایا اور پہنچا رہے ہیں۔ اسلام سے خلافت چھیننے میںیہ ہتھیار،
اسلام سے مرکزیت چھیننے میںیہ ہتھیار ، مسلمانوں سے اسلامی طرز
زندگی،اسلامی نظریہ حیات، اسلامی اصول و ضوابط، اسلامی اقدار و
روایات،اسلامی تمدن چھیننے میں یہ ہتھیار، مسلمانوں کو دین سے دور اور
بیزار کرنے میں یہ ہتھیار، مسلمانوں سے اسلامی اخوت، بھائی چارہ، ایک دوسرے
کی ہمدردی، احساس، الفت و محبت کے جذبہ کو ختم کرنے میں یہ ہتھیار،
مسلمانوں سے اللہ و رسول ﷺ کی محبت اور دینی لگاؤ ختم کرنے میں یہ ہتھیار،
مسلمانوں سے اسلامی فکراور غیرت کو خاک برد کرنے میں مغرب کے یہ خاموش
ہتھیار استعمال ہوئے ۔اتنا کچھ دیکھنے کے باوجود ہم کتنے احمق اور کند ذہن
ہیں جانوروں سے بھی بد تر کہ ابھی تک مغرب کی اس یلغار اور اس کی مکاری و
عیاری کو سمجھ نہیں سکے اور ہمارے کم ظرف حکمران آج بھی بڑے سلیقے اور فخر
سے ان کا نام لیتے، اپنی دم کٹوانے وہاں جاتے اور قوم کو ان پر آمادہ اور
قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نہ حق بات بولتے ہیں، نہ حق سنتے ہیں نہ حق
سمجھتے ہیں، کان، آنکھ، زبان اور دل و دماغ رکھتے ہیں مگر ان سے کام نہیں
لیتے۔
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِےْنَ لَا
ےَعْقِلُوْنَ o
’’ اور بیشک اللہ کے نزدیک سب جانوروں سے بدتر ہیں وہ لوگ جو حق بات سے
بہرے اور گونگے بنتے ہیں جو عقل نہیں رکھتے۔‘‘
لَھُمْ قُلُوْبٌ لَا ےَفْقَھُوْن بِھَا وَلَھُمْ اَعْےُنٌ لَا ےُبْصِرُوْنَ
بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَا ےَسْمَعُوْن بِھَا اُوْلٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ
بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo
’’ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس آنکھیں
ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس کان ہیں مگر ان سے سننے
کاکام نہیں لیتے، یہ تو نرے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، یہی وہ لوگ ہیں
جو غفلت میں پڑے ہیں۔
یہ بد نصیب خدا کے دین کے ساتھ کھلی بغاوت اور عداوت پر مبنی نظام’’
جمہوریت ‘‘کے لئے سب کچھ کرنے اور ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں مگر
خدا کے دین کیلئے کچھ کرنے کا نام لیں تو انہیں موت پڑتی ہے اور ان کی
نظریں فوراً اپنے حقیقی آقا اور مالک و مختار خداامریکہ و یورپ کی طرف جاتی
ہیں کہ دین کی بات اور پھر وہ بھی ’’اسلام‘‘ نہ نہ اس کا نام لینے سے وہ
(ان کے باطل خدا)نہ صرف ناراض بلکہ غضب ناک ہو ں گے اور حقیقی خدا کی
ناراضگی اور غضب ناکی کا انہیں نہ کوئی ڈر ہے نہ کوئی احساس کہ اس نے بھی
کوئی حساب کتاب لینا ہے اگر وہ دنیا میں کسی مصلحت کے تحت ان کو ڈھیل دے
رہا ہے تو آخرت میں تو ایک ایک قطرہ خون، ایک ایک پائی مال،ملکی وسائل، اور
ریاست کے ایک ایک فرد کے حقوق کا ان سے حساب لے گا کہ تمہیں ذمہ داری دی تم
نے ان کے حقوق کا کہاں تک تحفظ اور دفاع کیااور معاشرہ کے ایک ایک فرد کو
کہاں تک سہولتیں اور امن و سکون فراہم کیا،یہ کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کہ
حساب کتاب ہلکا ہوگا۔ اگریہ لوگ آخرت کے حساب کا خوف نہیں رکھتے اور ان کے
دلوں میں حقیقی خدا کے خوف سے زیادہ امریکہ و یورپ کا خوف ہے تو ماننا پڑے
گا کہ ان کا یوم حساب پر اعتقاد ، ایمان اور یقین ہی نہیں ہے۔
خدا کے دین کے ساتھ کھلی بغاوت اور انحراف کے نظام جمہوریت پر قربان ہو کر
اگر ان کا کوئی مر جائے تو اسے قوم کے شہید کا رتبہ دیتے ہیں اور عوامی
مقامات کو ان کے ناموں سے منسوب کرتے ہیں تاکہ خدا کے دین کے غدار کا نام
باقی رہے۔ کس خدا اور رسول نے یہ سنددی کہ خدائے حقیقی کے سچے دین اور اس
کے رسول ﷺ کی شریعت کاملہ کے خلاف خاموش جنگ اور بغاوت، دینی اصولوں سے
انحراف اور غداری کے نظام پرقربان ہونے اور جان دینے والا شہید ہے؟ کیا
کوئی بتا سکے گا اس خدا کا نام جو حقیقی خدا کے حقیقی دین سے انحراف کرنے
اور کرانے والے کو شہید کہتا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ مندرجہ بالا آیات کے مستدرک اور مخاطب ہم سب آج کے
مسلمان، اور خاص طور پر ہمارے نااہل ، کم ظرف اور احمق حکمران ہیں جن میں
ذرا شعور اور سمجھ ہی نہیں، ان کے پاس دل ہیں سمجھتے نہیں، ان کے پاس
آنکھیں ہیں دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان سنتے نہیں، بہرے، گونگے، اندھے
جانور۔ کئی صدیاں بیت گئیں انہیں ذلیل و خوار ہوتے اور دن بدن پستی کی طرف
جاتے ہوئے لیکن ابھی تک ہم مغرب کی یلغار اور طریقہ واردات اور ان کے خاموش
ہتھیاروں کے خلاف قوم میں شعور اور فہم پیدا نہیں کرسکے اور نہ ان کے مد
مقابل صف آراء ہوئے بلکہ ان کا شکار ہوتے چلے گئے اور آج بھی ہم عملی زندگی
میں انہی کو اپنائے ہوئے ہیں۔
اے لوگو! اے اللہ عزوجل اوراس کے پیارے رسول ﷺپر ایمان کا دعویٰ کرنے
والو!بتاؤ کہ ہم نے مظلوم ، بے سہار ااور بے قصور مسلمانوں پر ظلم و ستم
ڈھانے میں ظالم کی اتنی مدد کی اور روئے زمین پر ، رب کریم کی کائنات پر
طاغوت ، سرکش شیطان ، سامراجی قوتوں کی حکمرانی اور اجارہ داری قائم کرنے
میں ہم نے اب تک کتنی معاونت کی ؟ کیا ایک مسلمان دنیا میں اللہ تعالیٰ کی
حاکمیت اور اس کے دین کی بالادستی قائم کرنے کی بجائے شیطان کی حکمرانی اور
بالادستی قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان ہر وہ کام جو وہ اپنے رب کے ا حکام و ہدایات
اور حدود سے قطع نظر کر کے کسی اور طریقے پر انجام دیتا ہے تو شیطان ہی اس
کا آقا ہے اور وہ اس کا آلہ کار اور ایجنٹ ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی
فرمانبرداری کی بجائے اس کی نافرمانی کے طریقے کو دنیا میں رائج کرنے اور
معاشرہ میں اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتاہے۔
ہم مسلمانوں کے پاس خالق کائنات کا دیا ہوا ایک مستقل اور مکمل طرز زندگی
اور نظام حیات موجود ہے جو ہر قسم کی خامیوں، کوتاہیوں سے نہ صرف پاک ہے
بلکہ اتنا بلنداور ترقی یافتہ بھی ہے کہ جہاں انسانی عقل و دانش کی منزل
ختم ہوتی ہے وہاں سے بہت آگے اس کی ابتدا ہوتی ہے۔جمہوریت کے دعویدار بھی
اس بات کا برملااعتراف کرتے ہیں کہ جمہوریت خامیوں سے پر ہے او رمسلمہ
اقدار کے حصول میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے لیکن جاننے کے باوجود ہم اس کے
ساتھ چمٹے ہوئے ہیں ، ہم نے اپنے اچھے برے اور قسمت کے فیصلے کرنے کا
اختیار چند پارٹیوں اور سیاسی دوکانداروں کو سونپ رکھا ہے جنہوں نے آمریت
کے رنگ کو جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ڈھانپ رکھا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی نام
نہاد جمہوریت کے نام پر لوٹ رہا ہے تو کوئی اسلام کے نام پر۔ جس کو عوام کو
بیوقوف بنانے کا زیادہ طریقہ آتا ہے وہی زیادہ لوٹ مار کر کے لے جاتا ہے۔
ابھی تک تو عوام نے اصل جمہوریت نہ ہی دیکھی ہے نہ ہی چکھی ہے۔
خلافت کا آغاز انسانی زندگی کا ہم زماں ہے ۔ بہ عبارت دیگر مشیت الٰہی نے
جب پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کے وجود خاکی کی تخلیق کا ارادہ فرمایا
تو ساتھ ہی ملائکہ کو یہ وعید سنائی
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِےْفَۃً ط
’’میں زمین پر اپنا نائب ( خلیفہ ) مقرر کرنے والا ہوں۔‘‘
تخلیق آدم کا مقصد کرہ ارض پر خلافت الٰہی کا قیام تھا ۔ گویا کہ اللہ رب
العزت نے چاہاکہ زمین پر تمام مخلوقات کی بھلائی و بہتری کیلئے اپنا نائب
اور خلیفہ بھیج دیں تا کہ وہاں کی زندگی اور دیگر معاملات کو قدرت الٰہی کے
دھارے میں شامل کر کے ان کیلئے راحت و آسودگی کا سامان فراہم کرے۔ قرآنی
آیات اور احادیث نبوی ﷺ سے یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ خلافت اللہ تعالیٰ
کے احکامات و ہدایات کی تعمیل ،فرمانبرداری اور اطاعت کو مضبوط اور موثر
بنانے کیلئے ایک میکانیزم (Mechanism) کا نام ہے ، اس کا سربراہ جسے عرف
عام میں خلیفہ یاامیرالمومنین کا کہا جاتا ہے محض احکام الٰہی کی تعمیل اور
تنفیذ کانگران ہوتا ہے وہ سوائے اپنے رب کے احکام و ہدایات اور سیرت طیبہ
یا نصوص کی روشنی میں اجتہاد کے علاوہ اپنی طرف سے کوئی حکم یا قانون نافذ
نہیں کر سکتا،اس کے بر عکس جمہوریت ، ملوکیت اور آمریت انتہائی مردود،
فرسودہ اور ناقابل اعتبار شیطانی نظام کے داعی ہیں اور یہ امت مسلمہ کی
طرزِ زندگی سے کسی صورت بھی مطابقت و موافقت نہیں رکھتے ۔حکیم الامت حضرت
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
خلافت فقر با تاج و سریراست
زہے دولت کہ پایاں ناپذیر است
جوان بختا ! مدہ از دست این فقر
کہ جزا و پادشاہی زد و میر است
یعنی خلافت در حقیقت تاج و تخت کے ساتھ فقیری و درویشی کا نام ہے اورخلافت
وہ عجیب دولت ہے جو زوال ناپذیر ہے ۔ اے جوان بخت ! اس فقر در خلافت کو
اپنے ہاتھ سے نہ جانے دینا کیونکہ اس کے بغیر سلطنت اور بادشاہت جلد مر
مٹنے والی چیزیں ہیں ۔ پھر فرماتے ہیں ۔
خلافت بر مقام ما گواہی است
ملو کیت ہمہ مکر است و نیرنگ
حرام است آنچہ برما پادشاہی است
خلافت حفظ ناموس الٰہی است
یعنی خلافت ہماری رفعت و شان ، عزت و وقار اور علوم ومقام پر گواہ ہے اور
جو چیز ہم پر حرام ہے وہ پادشاہی(ملوکیت ) ہے ، جمہوریت و ملوکیت سب مکر و
چالاکی اور فریب ہے جبکہ خلافت ناموس الٰہی کی محافظ اور پاسبان ہے۔
حکیم الامت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ ان خود غرض ملوک و
سلاطین سے تنگ آکر اس امید میں تھے کہ ایک فقیر بے کلاہ ، بے گلیم ایک نہ
ایک دن ضرور ان خود غرضوں سے مشت و گریباں ہوگا۔ جمہوریت ، ملوکیت اور
آمریت سے الجھ جائے گا اور ان کی جعلی خدائی کوزمین بوس کرکے چراغ خلافت کو
اپنے خون سے روشن کرے گا ۔
در افتد با ملوکیت کلیمے
گہے با شد کہ بازی ہائے تقدیر
فقیرے بے کلاہ بے گلیمے
بگیر دکار مرمر از نسیمے
اے ملت اسلام کے درخشاں اقبال!
ہم تیری امنگوں کا نشان بن کے رہیں گے
اے لوگو ! اٹھو ، اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم ان خود غرض ملوک و سلاطین سے
الجھ جائیں، ان سے تصادم مول لیں ، ان کے غرور و تکبیر کو خاک میں ملا دیں
، قرآن و سنت کو جلوہ گر کریں ، دنیا میں حقیقی عالمی اسلامی فلاحی انقلاب
برپا کریں ، دنیا کو امن و سلامتی ،سکون و اطمینان کا گہوارہ بنائیں ،دنیا
میں حقیقی عالمی اسلامی فلاحی نظام حیات کی بنیاد رکھیں اور حق کی بالا
دستی قائم کریں ۔
تمام مسلمان ، تمام فرقے ، تمام گروہ ، تمام اسلامی ریاستیں اپنے تمام
باہمی اختلافات اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر اللہ عزوجل اور اس کے پیارے
رسول ﷺ کے نام پر ، ان کی رضا کی خاطر ، صرف اور صرف اسلام اوراہل اسلام کی
عظمت ، سربلندی، عزت ووقار اور سلامتی و بقاء کی خاطر ایک مرکز پر اکٹھے ہو
جائیں ، آپس میں باہمی تعاون، اتحاد ، اتفاق،اخوت ،ہمدردی و مساوات کو فروغ
دیں کیونکہ آج جتنی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے شاید کہ اس سے پہلے کبھی نہ
تھی ۔ |