امام جعفر صادق ؑ سے سوال کیا گیا کہ جناب عیسیٰ کے
اصحاب کو کیا ہواتھا کہ انہوں نے پانی پرسفر کیا جبکہ حضرت رسول خدا کے
اصحاب نے ایسا نہیں کیا ؟
آپ نے فرمافیا: بیشک ! جناب عیسیٰ ؑ کے اصحاب نے ذریعہ معاش کی مشکلات سے
محفوظ کیا لیکن بعد میں ذریعہ معاش کے ذریعہ انہیں آزمایا گیا ۔(الکافی:شیخ
کلینی ج ۵ ص ۷۱ ح ۳)
امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا :جب جناب عیسیٰ ؑ نے اپنے حواریوں سے الوداع
ہونے کا ارادہ کیا تو ان کو جمع کیا اور اﷲ کی کمزور مخلوقات کے ساتھ حسن
سلوک کا حکم دیااور ظلم و جبرکرنے سے منع فرمایا۔ آپ نے ان میں سے دو کو
انطاکیہ کی طرف روانہ کردیا ۔وہ لوگ بروز عید وہاں پہونچے ۔انہوں نے وہاں
کے با شندوں کو برہنہ بتوں کی پوجا کرتے پایا تو وہ دونوں ان کی طرف شدت سے
لپک پڑے۔جس کے سبب انہیں لوہے میں جکڑ کر قیدخانہ میں ڈال دیا گیا ۔جب جناب
شمعون کو اس بات کا علم ہو اتو آپ انطاکیہ کی طرف روانہ ہوئے یہاں تک کہ ان
کے قیدخانہ میں جا پہونچے ۔آپ نے ان سے کہا: کیا میں نے تم لوگوں کو ظلم
وجبرکرنے سے منع نہیں کیا تھا؟آپ وہاں سے باہرآئے اور کچھ کمزور و ناتواں
لوگوں کے پاس بیٹھ گئے اور ہولے ہولے ان سے بات کرنا شروع کردی ۔کمزور
لوگوں نے وہاں کے متعلق بتانا شروع کیا یہاں تک کہ وہاں کے اپنے سے زیادہ
طاقتور شخص کے بارے میں اطلاع دی۔ان لوگوں نے اس بات کو بہت ہی مخفی
رکھاپھربھی ان کی باتیں پہونچتے پہونچتے بادشاہ تک پہونچ ہی گئیں ۔بادشاہ
نے سوال کیاـ:یہ شخص کب سے میری بادشاہت میں رہ رہا رہے ؟
لوگوں نے بتایا :دو ما ہ سے ۔
اس نے کہا :اس کو میرے پاس لا یا جائے ۔انہیں بادشاہ کی خدمت میں حاضر کیا
گیا ۔جب بادشاہ نے جناب شمعون کودیکھا تواس کو آپ سے لگاؤ (محبت) ہوگیا ۔اس
نے کہا : جب تک وہ میرے پا س نہ آجائیں ، میں نہیں بیٹھوں گا۔اس نے ایک
ڈراؤ نا خواب دیکھا تھا سو اس نے اس سلسلے میں سوال کیا ۔آپ نے ایسا جواب
دیا کہ بادشاہ پھولے نہ سما سکا ۔اس کے بعدا س نے دوسرے خواب کے بارے میں
سوال کیا ۔آپ نے پھر ایسا جواب پیش کیا کہ اس کی خوشیوں میں مزید اضافہ
ہوگیا۔گفتگو ہوتی رہی یہاں تک بادشاہ آپ سے بہت متاثر ہوگیا ۔
آپ نے کہا : آپ کے قیدخانہ میں دو ایسے افراد ہیں جنہوں نے آپ کی توہین کی
تھی ۔
بادشاہ نے کہا :ہاں !
جناب شمعون نے کہا:انہیں بلایا جائے ۔جب انہیں پیش کیا گیا تو آپ نے ان سے
سوال کیا کہ تم کس خدا کی عبادت کرتے ہو؟
ان لوگوں نے کہا:اﷲ کی ۔
ٓٓآپ نے سوال کیا: کیا وہ تمہاری باتوں کو سنتاہے ،جب تم اس سے سوال کرتے
اورکیاوہ تمہاری باتوں کا جواب بھی دیتا ہے؟
انہوں نے کہا:ہاں !
جناب شمعون نے کہا:میں تم لوگوں سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں تاکہ مجھے یقین و
اطمینان ہو جائے ۔
انہوں نے کہا:سوال کیجئے ۔
آپ نے پوچھا :کیا وہ مجزوم شخص کا علاج کر سکتا ہے ؟
انہوں نے جواب دیا:ہاں !
آپ نے کہا:ایک مجزوم شخص کو لایا جائے ۔آپ نے کہا : اس مجزوم کی شفا کے
سلسلے میں سوال کرو۔
انہوں نے اس شخص کے اوپر ہاتھ رکھے اور وہ شفا یا ب ہوگیا ۔
جناب شمعون نے کہا: یہ تومیں بھی کر سکتاہوں ۔
آپ نے کہا :دوسرا مریض لایا جائے ۔جناب شمعون نے اپنا ہاتھ اس مریض کے اوپر
رکھا اور وہ شفایاب ہوگیا ۔
آپ نے کہا:ابھی ایک چیز باقی ہے اگر تم اس کا صحیح جواب دے دو تومیں تمہارے
خدا پر ایمان لانے کو تیار ہوں ۔
انہوں نے پوچھا وہ کیا ؟
آپ نے کہا:کیا تم مردہ کو بھی زندہ کر سکتے ہو؟
انہوں نے کہا:ہاں!
جناب شمعون نے بادشاہ کی طرف رخ کیا اورپوچھا: کیا آپ کے یہاں کسی ایسے شخص
کی موت ہو ئی جس کے گذر جانے سے آپ کو بہت صدمہ ہواہو ؟
بادشاہ نے کہا:ہاں!میر ے فرزند کی۔
جناب شمعون نے کہا:ہمیں اس کی قبرکے پاس لے چلیں ۔بقیہ یہ لوگ اپنا کام
کرنے کے لیے تو ہیں ہی۔وہ لوگ قبر کی طرف آئے اور دونوں نے (بارگاہ الٰہی
میں)اپنے ہاتھوں کوپھیلادیا اور جناب شمعون نے بھی اپنے ہاتھ پھیلادیئے ۔تھوڑی
دیر بعد اچانک قبر شگافتہ ہوئی اور وہ نوجوان اٹھ کھڑاہوا ۔اس نے اپنے والد
کی طرف رخ کیا۔ اس کے باپ نے پوچھا :کیسے ہو بیٹا!؟
اس نے جواب دیا :میں مردہ تھا اور میں خوفزدہ تھاتبھی ان تین لوگوں نے اﷲ
کے حضور دست دعا بلند کئے ہیں کہ وہ مجھے زندہ کردے ۔ دووہ ہیں اورتیسرا
شخص وہ ہے ۔
جناب شمعون نے کہا: میں تمہارے خدا پرایمان لایا ۔
بادشاہ نے کہا : اے شمعون ! میں بھی اس خدا پر ایمان لایا جس پر تم ایمان
لائے ۔
بادشاہ کے وزراء نے کہا : ہم بھی اس خدا پر ایمان لائے جس پر ہمارے سید و
سردار ایمان لے آئے ہیں ۔’’کمزور ہمیشہ طاقتور کی پیروی کرتا ہے ۔‘‘اب
انطاکیہ میں کوئی ایسا شخص نہ رہاجو خدا ئے وحدہ لا شریک پر ایمان نہ لاچکا
ہو۔(بحارالانوار ج ۱۴ ص ۲۵۲۔۲۵۳ ح۴۴)
نوٹ:اس مضمون میں درایت اورروایت کے صحیح السندہونے سے قطع نظر صرف حضرت
عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق معلومات کو جمع کیا گیاہے۔(مترجم) |