سوسائٹی میں رہنے والے ہر فرد کا دوسرے فرد کے لئے راحت
وفرحت کا سامان مہیا کرنا نہ صرف مذہبی فریضہ ہے بلکہ معاشرتی حق بھی ہے ۔ہر
فرد کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ مجھے لوگوں کی طرف کسی قسم کی اذیت کا سامنا
کرنانہ پڑے اور فرحت ونشاط کے آغوش میں رہوں ۔ اسی خواہش کا احترام کرنے کے
لئے محسن کائنات محمد مصطفی ﷺ کے یہ الفاظ ’’اِمَاطَۃُ الاذٰی عَنِ
الْطَّرِیْقِکہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا( ایمان کا حصہ ہے۔)‘‘ذخیرۂاحادیث
میں قیامت تک جگمگاتے رہیں گے ۔ جس نے معاشرے کے ہرفرد کو خبر دار کر دیاکہ
ہر ایسے عمل سے اجتناب ضروری ہے جس سے معاشرے میں بدنظمی پھیلے یا کسی بھی
قسم کا فساد پھیلنے کا اندیشہ ہو۔
ہم لوگوں کا سب بڑا المیہ یہ ہے کہ اپنے لئے راحت کا ذریعہ تو ڈھونڈتے
پھیریں گے لیکن دوسروں کی راحت کاگلا گھونٹ دیں گے ۔ سڑکوں ، راستوں اور
چوراہوں پر اذیت کا سامان اکٹھا کرنے میں ہم کسی سے پیچھے نہیں۔اپنے گھروں
اور دکانوں سے باہر اپنا سامان نکال کر لوگوں کو اذیت کے گھونٹ پینے پر
مجبور کرنا ہم اپنا حق سمجھتے ہیں ۔جلدی مچاتے ہوئے اپنی گاڑی کو آگے
بڑھانا اور سگنل توڑ کے بدنظمی پھیلانا اپنی وراثت کاحصہ گردانتے ہیں۔ غرض
یہ کہ لوگوں کو راحت کے نام سے ناواقف بنادینے میں ہم نے کوئی کسر باقی
نہیں چھوڑی ۔
خداراہمیں اپنے اعمال وکردار پر نظر رکھنی ہوگی کم از کم ہر شخص یہ سوچیں
کہ کہیں میرے کسی عمل سے دوسرا اذیتکے گھونٹ پینے پر مجبور تو نہیں۔یہ فکر
جس میں پیدا ہوگئی تو سمجھ لو کہ اس نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ان
الفاظ کا حق ادا کردیا۔ |