زیادہ عرصہ نہیں ہوا2012/13کی بات ہے۔اسلامک سنٹرہوسٹل
میں کبیربھائی (عبدالکبیراس وقت کے ناظم علاقہ غربی) کی صدارت میٹنگ جاری
تھی۔ کبیربھائی ہرایک سے باری باری ہفت روزہ اجلاس میں رائے لے رہے تھے جب
میری باری آئی تومیں نے کبیربھائی سے پوچھاکہ اسلامی جمعیت طلبہ کی پہچان
خاص طورپرکالجزمیں ہاتھ میں ڈنڈا،دہشت، گالم گلوچ،بسوں کے شیشے
ٹوڑنا،طالبعلموں کوجنسی تششدکانشانہ بناناہی کیوں ہے۔ میرے اس سوال پہ ناظم
عبدالکبیرکے پاس خاموشی کے سوا کوئی جواب نہ تھا۔
میں خوداسلامی جمعیت طلبہ کاحصہ رہاہوں۔ اورمیں اسلامی جمعیت طلباء کوقریب
سے جانتاہوں۔ اسلامی جمعیت طلباء میں اچھے لوگ بھی بہت ہیں اسلامی
سنٹرہوسٹل کے ناظم عدنان رفیق کلاسن نے اپنے دورمیں حقیقی کام بھی کیئے تھے۔
ناظم عدنان رفیق کاہی وقت تھاجب اسلامک سنٹرہوسٹل کی اسلامی جمعیت طلباء
امن وامان کی پیکربن کرسامنے آئی۔ ناظم اسامہ اعجازسے بڑھ کر کوئی شریف
النفص انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ جب بھی ملاقات ہوئی ہمیشہ جھک کرملے
اورکبھی بھی مجھے یہ احساس تک نہیں ہواکہ میں سٹوڈنٹ یونین کے سربراہ کے
سامنے کھڑاہو۔پھرسوال یہ پیداہوتاہے کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود پنجاب
یونیورسٹی میں یہ سب تصادم کیوں۔اس کے محرکات کیاہیں،آخرکون ہے اس کے پیچھے؟
تحریک پاکستان میں طلباء تنظیموں کااہم رول رہاہے بابائے قوم قائداعظم
محمدعلی جناح کوان طالبعلموں پہ بہت امیدیں وابستہ تھیں یہی وجہ تھی کہ
بابائے قوم نے انکوقوم کے معمارقراردیا۔ مگرافسوس سے کہناپڑھ رہاہے کہ وہی
طلباء تنظیمیں ملک وقوم کی خدمات کرنے کی بجائے آپس میں الجھ رہی ہیں۔
پاکستان کے تمام ترسیاست دان جن میں خاص طورپراعتزاداحسن،جاویدہاشمی،خواجہ
سعدرفیق،سراج الحق،محمودالرشیدسمیت دیگراپنے طالبعلمی دورمیں طلباء تنظیموں
کاحصہ رہے ہیں اورسیاست کے سبق کے ساتھ گربھی سیکھے۔قابل افسوس بات یہ ہے
کہ آج کے دورمیں یونیورسٹیوں میں ہنگامہ آرائی نظرآرہی ہے۔ کئی روزتک
بہاؤالدین زکریایونیورسٹی ملتان میں کشیدگی رہی۔ کراچی یونیورسٹی میں
ہنگامہ آرائی رہی۔ راولپنڈی میں بھی طلباء سراپاء احتجاج رہے۔ اگرلاہورکارخ
کیاجائے تواب سے زیادہ کشیدگی پنجاب یونیورسٹی میں رہتی ہے۔ ایک بارپھرسے
پنجاب یونیورسٹی میں تصادم کی فضاء قائم ہیں۔ طلباء تنظیمیں آپس میں لڑھ
رہی ہیں۔
اگربات کی جائے تصادم کی وجوہات کی توپھرچندایک باتوں کے علاوہ کوئی بڑی
وجہ نہیں ہے۔جن میں سے سب اہم بات یہ ہے کہ طالبعلموں کوکیمپس میں کھلی
چھٹی ہونی چاہئے یانہیں۔طالبعلم کوفری ہینڈہونے کامطلب یہ ہے کہ آپ پنجاب
یونیورسٹی کوبھی دیگرپرائیویٹ یونیورسٹیوں کی طرح لبرل بناناچاہئے ہیں ۔جوہرگزنہیں
ہوناچاہئے ہم اسلامی ریاست میں رہ رہے ہیں۔ہرباپ،بھائی اورماں کی یہی
تقاضاہے کہ انکی بہن،بیٹی کی عزت محفوظ رہے۔یونیوسٹی کو جس علم وادب کی
سرزمین کانعرہ لگایاجاتاہے وہ حقیقی معنوں میں ثابت بھی ہو۔مگرمیں
سمجھتاہوں کہ حالات کوسنبھالنے،طالبعلموں کوتربیت کرنے کاطریقہ
کارشایدذراسخت ہے۔ بلوچ اورپختون بھائیوں کی بات کی جائے توپھر خواتین کی
عزت ان سے بڑھ کوئی نہیں کرسکتاکیونکہ مجھے خصدارسے میرے پیارے دوست
تنویراحمدبلوچ کے وہ الفاظ ابھی بھی یاد ہیں کہ گھرسے باہرخواتین ہم سب کی
بہنیں،مائیں ہوتیں ہیں ان کی عزت کرناہم پہ فرض ہوجاتاہے۔یہاں میں یہ
چیزکلیئرکرناچاہتاہوں کہ بلوچ وپختون نوجوان ایسے نہیں نہیں جیساکہ ان
کوپیش کیاجارہاہے یاپھران کوسمجھاجارہاہے۔انتہائی نفیس، ملنساراورپیارکرنے
والے ہیں۔فیصل عبیدبلوچ سے میں نرم وذہین طالبعلم آج تک نہیں دیکھا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اسلامی جمعیت طلبہ کوکاؤنٹرکرنے کیلئے یونیورسٹی
انتظامیہ ،حکومت پنجاب اورضلعی انتظامیہ کی جانب سے پختون اوربلوچ طلباء
کوسامنے لایاگیادوسرے الفاظ میں جب انتظامیہ سے کنٹرول نہ ہوسکاتوہمارے
بلوچ بھائیوں کو سامنے کردیاگیا۔یہ تاثرکیوں دیاجارہاہے ہیں کہ بلوچ جنگجوں
اورلڑنے والے لوگ ہیں۔ یہ ہمارے بہادربھائی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اگرکسی
قوم کی خدمات ہیں تووہ ہیں پختون اوربلوچ قوم۔ دیگرصوبوں سے سفرکرکے
لاہوراس لیئے آئے ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے۔ملکی ترقی وخوشحالی میں
اپناکردارادا کرسکے۔ مگرانکوہم دشمن، دشمن کہتے رہے گے توان میں بھی مایوسی
اورمحرومی کی فضاء پیداہوجائے گی جونکہ ملکی سلامیت کیلئے انتہائی خطرناک
ہے۔
اس تمام رصورت حال میں یونیورسٹی انتظامیہ اورحکومت پنجاب کی خاموشی سوالیہ
نشان بنی ہوئی ہے۔یہ پہلی بارنہیں اس سے پہلے بھی متعددبارپنجاب یونیورسٹی
میں حالات کشیدہ رہے ہیں۔مگرکوئی خاطرخواہ انتظامات نہیں کیئے جاسکے2012میں
ابراروٹوکی شہادت کے بعدکیمپس میں پولیس چوکی توبنادی گئی تھی مگراس کی
کارکردگی نہ ہونے کے برابرہے۔ابھی چندماہ ہی ہوئے ہیں کہ گرلزہوسٹل سے
طالبہ کی ہلاکت کاواقعہ پیش آیاتھا۔
وزیربرائے ہائیرایجوکیشن سیدرضاعلی گیلانی اس معاملے کوخودڈیل کررہے ہیں
کئی میٹنگزبھی چیئرکرچکے ہیں۔ یونیورسٹی آف پنجاب کی صورت حال ان کیلئے
بڑاچیلج ہوگا۔کیونکہ پاکستان کی سب بڑی یونیورسٹی میں ایسے حالات سے بین
الاقوامی سطح پرپیغام کوئی اچھانہیں جارہا۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ان طلباء تنظیموں کی تربیت اورازسرنوکی جانی چاہئے
کیونکہ یہ بات نہ قابل منظورہے کہ جب یوتھ اورطالبعلموں کی ضرورت ہوں توان
کواستعمال کیاجائے اوروقت گزرنے کے بعدان کوٹھکرادیاجائے۔ایساکرنے سے کئی
مسائل جنم دیتے ہیں جن میں سب سے اہم کہ سیاست کی باگ دوڑنااہل اوران پڑھ
افرادکے ہاتھ چلی جائے گی۔اگرطالب علموں کواسی طرح لڑنے جھگڑنے میں مصروف
رکھاگیا توہمارے پاس پڑے لکھے افرادکی کمی ہوجائے گی ۔
میں طلباء تنظیموں پرپابندی کے کسی صورت بھی حق میں نہیں مگران کی تربیت
انتہائی ضروری ہے۔جوسیاسی ومذہبی جماعتیں طلباء تنظیموں کی سرپرستی کررہی
ہیں ان کیلئے ضروری ہیں ان کی تربیت کی جانیی چاہئے۔کیونکہ طلباء یونین کے
لیڈران یہاں سے سیاست کے طورطریقے سیکھ کر ہی مستقبل میں ملکی سیاست
کوسنبھال سکے گے۔اگرایسانہ ہوسکاتوپھرگالم گلوچ والے سیاست دان ہی منتخب
ہوکراسمبلیوں میں پہنچے گے ۔تو معاشرے کیلئے لمحہ فکریہ ہوگا۔
|