نفرت

نہ کوئی دلیل تھی نہ کوئی حوالہ تھا ان کے پاس
عجیب لوگ تھے بس احتلاف رکھتے تھے
رات کے بارہ بجنے والے تھے یوٹیوب سائٹ کھول کر کچھ مذہبی بیانات دیکھ رہا تھا اسی اثناء میری نظر مناظرہ پر پڑی اس ویڈیو پر کلک کیا تاکہ دیکھ سکو کہ مناظرہ میں کیا ہے اور کس طرح کیا جاتا ہے اس سے پہلے جب میں پشاور سے لاہور آرہا تھا توگاڑی میں ایک عالم دین کا بیان سن رہا تھا جو مناظرہ کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے کہ مناظرہ کے ذریعے نفرت پھیلایا جاتا ہے واقعی ایک حقیقت ہے اور یہی اس ویڈیو مناظرہ میں بھی ہوتا رہا دو مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے ایک ہی مذہب کے پیروکار علماء ایک ہی مسجد میں مخالف سمت میں بیٹھے تھے اور ان میں سے ایک عالم نے اٹھ کر اﷲ تعالی کے بابرکت نام سے آغاز کیا اور پہلے تو شرائط مناظرہ بیان کئے وہ شرائط جو مناظرہ کرنے سے پہلے طے کئے گئے تھے ان پر بھی دونوں طرف کے علماء میں اختلاف رہا اور اس بحث کو طول دیکر تقریبا گھنٹہ تک وقت ضائع ہوتا رہا اس کے بعد عجیب بات یہ تھی کہ ایک طرف کے مناظر نے مخالف سمت کے مناظر سے تلاوت کا مطالبہ کیا کہ پہلے تلاوت کی جائے اسکے بعد ہم اپنے مناظر کا نام پیش کرینگے لیکن مخالف سمت کا مناظر اس بات کو ماننے سے انکار کررہا تھا اور انکا کہنا تھا کہ پہلے اپنے مناظر کا نام سامنے لایا جائے اسکے بعد تلاوت کلام پاک کرینگے اور ،مناظرے کا باقائدہ آغاز کیا جائگا گویا کہ وہ ایک دوسرے کی کسی بھی بات سے اختلاف رکھتے تھے اور یہ اختلاف مناظرہ شروع کرنے سے پہلے سے ہی مناظرے کے ماحول پر چھا گیا تھااور مناظرے کا ماحول نفرت اور تعصب کا ماحول بن گیا تھا اس مناظرے میں ایکدوسرے مسالک کے بزرگان اور علماء کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی سامعین بھی تشریف فرما تھے اور وہ بھی ایسے تیار بیٹھے تھے جیسے کہ کسی خاص اور انوکھے وقت کا انتظار کررہے ہوں ایک طرف سے ایک کتاب پیش کی گئی جسے مخالف سمت کے کسی عالم کی تحریر تھی اور اس کتاب کو تحریر کرنے کی بنیاد پر اسے کافر قرار دیا جا رہا تھا اس دوران اگر مناظر کے علاوہ کوئی اور کسی نقطہ پر بات کرلیتا تو اس پر بھی باتوں کی بوچھاڑ شروع کر دی جاتی اور آڑے ہاتھوں لیا جاتا یہ سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا لیکن اس سے کوئی معنی خیز نتیجہ نکل نہیں سکا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح مذہبی مناظرے ہوتے رہتے ہیں اور وہ بھی بے مقصد نہ کوئی نتیجہ اور نہ کوئی فضیلت عرب کے معاشرے کا جب جاہلیت کا دور تھا تب دین اسلام کا ظہور ہوا اور اس زمانے میں ان لوگوں کو بھی حقوق ملے جو غلام ابن غلام تھے اس معاشرے میں اسلام کے آنے کے بعد انصاف کا بولبالہ شروع ہوا جہاں عورتوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا جہاں ابوجہل کا سکہ چلتا تھا وہاں اسلام کے آنے کے بعد حکمران اپنی رعایا کے سامنے جوابدہ ہو گئے اور حضرت عمر فاروق ؓ ایک چادر کا حساب بھی دیتے ہیں اور فتح مکہ کے بعد عام معافی کا اعلان کیا جاتا ہے یہی وہ زندہ مثالیں ہیں جس سے متاثر ہو کر مشرکیں مکہ بھی اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں اور جوق درجوق اسلام میں آنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر ایک ایسا معاشرہ بنایا جاتا ہے جہاں دریا کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا نہیں مر سکتا کیونکہ حکمرانوں کو خوف خدا لاحق ہے انسانیت کا بولبالہ ہوتا ہے اور کسی کو زبردستی نہ تو مسلمان کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی تلوار کے زور کا استعمال کیا جاتا ہے اسکی زندہ مثال حضرت علی ؓ ہے جب ایک کافر کو قتل کرنے لگتے ہے اور اسکو جب زمین پر گرادیتے ہیں تو وہ حضرت علی ؓ کے منہ پر تھوکتے ہے اور وہ ان کو چھوڑ دیتے ہے جس پر کافر حیران ہو کر وجہ معلوم کرتا ہے اور حضرت علی ؓ فرماتے ہے کہ پہلے تو میں تمہیں اسلام کے لئے قتل کررہا تھا لیکن اب چونکہ میرے منہ پر تھوکنے سے میرا ذاتی غصہ بھی اس میں شامل ہو گیا ہے لہذا اب تمہیں میں قتل نہیں کرسکتا یہی اسلام کا انسانیت کا درس ہے لیکن اسی اسلام کے پیروکار ایکدوسرے کو کافر کہتے ہوئے نہیں تکتے اور نہ ہی نفرت پھیلانے سے گبھراتے ہیں چاہئے تو یہ تھا کہ اسلام کو اوڑھنا بچھونا بنا کر خود کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے تاکہدوسرے لوگ بھی ان سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہوتے لیکن بجا طور کہنا یہ پڑتا ہے کہ آج دین سے لوگوں کی دوری میں ایسے علماء کا بھی ہاتھ ہے جو مذہب کا اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں اور دین کی تشریح کچھ اسطرح کرتے ہے کہ دوسرے لوگ بجائے اسکے کہ ان سے متاثر ہو دین سے دوری کا راستی اختیار کرتے ہیں آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء حق کا فرض بنتا ہے کہ دین اسلام کے ایسے ٹھیکداروں کا جائزہ لے اور عوام کو ان سے بچائے رکھے جو پروپیگنڈہ کررہے ہو ں تاکہ مزید نفرت پھیلانے سے بچا جا سکے ایک پر امن معاشرے کا قیام کیا جاسکے جو ہر قسم مذہبی تعصبات سے پاک معاشرہ ہو-

Waqar Ahmed
About the Author: Waqar Ahmed Read More Articles by Waqar Ahmed: 15 Articles with 30301 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.