پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں صحافت کو اتنی
آزادی حاصل ہے کہ جو چاہے کسی پر کسی نوعیت کا الزام لگا دے ،لوگوں کے
سامنے من گھڑت مفروضوں کو خبر بنا کر پیش کر دے اور جب خبر غلط ثابت ہوجائے
تو بتیس دانتوں کا دیدار کرواکر مکر جائے یا ایسا ٹرن لے کہ گماں ہی نہ
گزرے ۔ایسے صحافیوں کے سُننے والوں کی کمی کم از کم ہمارے ملک میں تو قطع
نہیں پائی جاتی اس لیے ایسے صحافیوں کا دفاع کرنی کے لیے ہماری بیچاری عوام
میدان میں ایسے کود پڑتی ہے کہ گویا اعلان جہاد ہو گیا ہو اور پھر دلائل
میں ایسے ایسے پوائینٹ نکالے جاتے ہیں کہ بس ۔خود اینکر بھی سُن کر پریشان
ہو جائے ویسے یہ ہمارے لوگوں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ ہم لوگ
پیروں فقیروں کے ڈنگے لوگ ہیں جب کسی پیر یا فقیر کی پیشن گوئی غلط ہو جائے
تب بھی یہ معصوم بھولی بھالی ویلی عوام یہ سب کرتی ہی دکھائی دیتی ہے ۔میرے
ایک ایسے ہی قابلِ ذلالت دوست نے تو یہاں تک فرما دیا کہ ڈاکٹر صاحب کے
ہاتھ چائلڈ پورن گرافی کے بین الاقوامی گروہ کے تمام ثبوت لگ گئے ہیں مگر
وہ لوگ اتنے بااثر ہیں کہ کوئی اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اس لیے ڈاکٹر
صاحب اب ہمارے ہی نہیں پوری دنیا کے ہیرو بن گئے ہیں میں نے کہا ہاں اس لیے
فلائٹس نہیں مل رہی کیونکہ ملک کے تمام ائرپورٹس کے رن وے مصروف ہیں تمام
دنیا کے ممالک کے جہاز ڈاکٹر صاحب کو لینے آئے ہوئے ہیں ویسے اﷲ کرے کوئی
آئے اور ڈاکٹر صاحب کو لے ہی جائے ۔ہماری ایسے ہیرو سے توبہ ہے ۔یہ دعاتو
نہ چاہتے ہوئے بھی زبان کی زینت بن گئی بحرحال ہمارے ملک کو یہ سعادت حاصل
ہے جو اسے باقی ماندہ ممالک سے نمایاں کرتی ہے کہ اس ملک میں ایسے باسی
پائے جاتے ہیں جن کے ہیروایسے نوعیت کے ہوتے ہیں یہاں ہیرو بنناسب سے آسان
کام ہے بس شرط اتنی ہے کہ جھوٹ اتنا بڑا ہو کہ سچ اُس کے سامنے چھوٹا
دکھائی دے بس پھر یہ قوم آپ کے جھوٹ کو لے کر ایسے ہوا میں اُڑے گی کہ کوئی
لگام نہ ڈال سکے گا اور مزے کی بات یہ ہے کہ صرف آپ کے جھوٹ کو لے کر اُڑا
ہی نہیں جائے گا بلکہ اُس میں اپنی طرف سے تڑکے لگاکر اُسے مزید مزیدار
بنانے کی بھرپور کوشش بھی کی جائے گی ۔
زینب قتل کیس کو شروع ہی سے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی گئی اس معاملے کو جس
نظر سے دیکھنا چاہیے تھا ویسے نہیں دیکھا جا رہا اور بہت افسوس کا مقام ہے
کہ بچی پر ہونے والا یہ ظلم بھی ہمیں ایک قوم نہ بنا سکا ۔ہم نے اپنے اپنے
معاشرتی فرائض کو سمجھنے کی بجائے سیاسی پنڈتوں کے ہاتھوں کھیلنے کو ترجیح
دی اگر ہم اس موقع پر سیاسی میدان گرم کرنے کی بجائے ایک قوم ایک معاشرہ ،ایک
خاندان بن جاتے تو یقین کریں پھر کسی کی دوبارہ ہمت نہ ہوتی اور سیاست
دانوں کو بھی اس بات کا اندازہ ہو جاتا کہ یہ قوم ابھی سانس لے رہی ہے اب
ہر جگہ ہمارے اشاروں پر نہیں ناچے گی بلکہ جب بات معاشرتی بگاڑ کی آئے گی
تو قوم ایسے قدم بقدم نظر آئے گی مگر افسوس صد افسوس ہم ناکام رہے ہم اپنی
بچیوں کے عزت کے رکھوالے بننے کی بجائے سیاسی ڈھولوں پر ناچتے رہے ۔یہ ایسا
زخم ہے کہ جتنا رویا جائے وہ کم ہے ۔
زینب قتل کیس کے مرکزی ملزم عمران کے بینک اکاوٗنٹ کے ڈاکٹر صاحب کے دعووٗں
نے ملک میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ۔اصل قتل کیس کو چھوڑ کر ہم نئی راہ کے
مسافر بن گئے ۔مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ نہ تو ڈاکٹر صاحب نئے ہیں
اور نہ ہی ہم ۔پھر ہم نے ڈاکٹر صاحب کی اس بات کو اتنی سنجیدگی سے کیوں لے
لیا ڈاکٹر صاحب تو جب سے صحافی یا اینکر بننے کی ناکام کوشش میں لگے ہیں
ایسی ہی خبروں اور مفروضوں کا سہارا لیتے ہیں کہ بس کل تو دنیا ختم ہو جائے
گی قیامت بس آنا چاہیتی ہے ۔اب اس میں ڈاکٹر صاحب کا قصور بھی کیا ہے
کیونکہ انھیں تو شہرت بھی تو قیامت سے ملی تھی اس لیے تو ہر معاملے میں
قیامت برپا کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں اور ہم ایسے ہی اُن کی پیش کردہ
مفروضوں پر سنجیدگی سے غورو فکر شروع کر دیتے ہیں اب اس میں ڈاکٹر صاحب کی
تو کوئی غلطی نہیں اگر ہم ان کی کہی بات کو سنجیدگی کے ساتھ سُنیں ڈاکٹر
صاحب نے ہمیں کوئی مشورہ نہیں دیا کہ ہم اُن کی بات پر غور بھی کریں وہ بس
اس لیے فرماتے ہیں کہ ایک کان سے سنو اور دوسرے سے نکال دو کیونکہ انھوں نے
بھی پروگرام کا مقرر وقت گزارنا ہوتا ہے ۔میں کاشف عباسی کی اس بات سے تو
مکمل متفق ہوں کہ ہمارے لوگ یہ سب سننا چاہتے ہیں ۔ہماری قوم کو سچ سننے کی
عادت ہی نہیں ہمیں تو بس سنسنی چاہیے چاہے اس کے لیے کتنی قیمت ہی کیوں نہ
چُکانی پڑ جائے اس لیے تو ڈاکٹر صاحب اور اُن جیسے کئی اور لوگ ٹی وی چینلز
پر سینہ تان کر جھوٹ بولتے دکھائی دیتے ہیں اب تو کئی چینل فیک نیوز بھی ہٹ
دھرمی کے ساتھ چلا دیتے ہیں اور ہماری عوام ایسے خبروں پر باقاعدہ بھنگڑے
ڈالنا شروع کر دیتی ہے جب تھک جاتے ہیں تب ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا
واقع ایسا ہوا ہے اگر جواب نفی میں ہو تب بھی شرمندہ ہونے کی بجائے نئی
لوجک کی تلاش شروع کر دیتے ہیں اس لیے اپنی قوم سے ہی اپیل کرنا چاہوں گا
کہ خدا کے لیے ایسے لوگوں کو سننا چھوڑ دیں تاکہ یہ لوگ بھی باز آ جائیں
کیونکہ آپ کے بھنگڑوں سے یا ایسے اینکرز یا ٹی وی چینلز کی فیک نیوز سے کچھ
ہونے والا نہیں اس لیے اس وقتی تسلی کی بجائے حقیقت کر جان کر جینے کی کوشش
کریں تب پھر کوئی آپ پر قیامت سے پہلے قیامت برپا نہیں کر سکے گا ۔ |