قصور میں چند روز قبل سات سالہ بچی زینب کے مبینہ قاتل
جسکا نام عمراان ہے اور وہ اسی محلے میں رہتا ہے کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
خدا کرے یہ وہی شخص ہو نہ کہ کوئی بے گناہ ہو جسے پکڑ کر خانہ پری کیا جا
رہی ہے اور عوام کو مطمعن کرنے کیلئے یہ سارار ڈرامہ رچایا جا رہا ہوکیونکہ
ہمارا اعتماد اپنی پولیس پر سے اٹھ چکا ہے۔
اس سے پہلے گیارہ بچیوں کیساتھ ہونے والی ذیادتی اور انکا قتل تا حال ایک
معمہ بنا ہوا ہے جو ہماری حکومت ، ہمارے قانون اور انصاف کے اداروں او ر
سول سوسائیٹی کیلئے باعث شرم و ندامت ہے۔ پچھلے دو برس میں ہونے والے ان 12
واقعات کے علاوہ پورن مووی بنانے میں بھی بڑے بڑے لوگ جن میں قصور کا ایم
پی اے شامل تھا جس نے ملزما ن کو مدد فراہم کی اسے گمنامی کے اندھیروں میں
پھینک دیا گیا اور تا حال یہ گتھی بھی سلجھائی نہیں گئی۔معصوم بچیوں سے اس
وحشت اور بربریت کے واقعے میں سے صرف ایک بچی زندہ بچی ہے اور وہ بھی اپنا
دماغی توازن کھو بیٹھی ہے اور وہ تا حال زیر علاج ہے ۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے
کہ وہ آہستہ آہستہ روبصحت ہو رہی ہے۔ جونہی وہ اپنے ہوش و حواس میں آئیگی
مذید پیش رفت ہونے کی قوی توقع ہے ۔کچھ حلقے اس بات پر بھی اپنی تشویش کا
اظہار کر رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے مروا دیا جائے کیونکہ بہت سے
انکشافت ہونے کا اندیشہ ہے جو مجرمو ں تک پہنچے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں
۔ قصور پولیس کے مطابق ان تمام واقعات میں ایک ہی شخص ملوث ہے کیونکہ یہ
تمام وارداتیں ایک ہی قسم کی ہیں جسکی تصدیق ڈی این اے ٹیسٹ سے ہو چکی ہے۔
اب یہ شخص اور اسکے ساتھی کون ہیں، اسکے پیچھے کیا محرکات ہیں ، کیا پولیس
اور حکمران صرف ایک ہی شخص کو بچا کر باقہ تمام لوگوں کو بچانے کیلئے
سرگرداں ہیں ؟؟ یہ وہ سوالات ہیں جنکا جواب ابھی آنا ہے۔پولیس کا یہ دعویٰ
بھی ہے کہ اسنے ان وارداتوں میں سے آٹھ وارداتوں میں ملزمان کو گرفتار کیا
جا چکا ہے۔اس سے پہلے بھی اس ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا مگر چھوڑ دیا گیا
تھا۔ زینب کے قریبی رشتے داروں نے پولیس پر دباؤ بڑھایا اور اسے دوبارہ
گرفتار کر کے اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا جس سے اس تک پہنچنے میں مدد ملی
۔ کیا واقعی پکڑا جانے والا ملزم عمران نقسبندی جو مساجد میں نعتیں بھی
پڑتا تھا اور سننے میں آیا ہے کہ یہ شخص مسجد میں نماز بھی پڑھتا تھا اور
اسنے ڈاڑھی رکھی ہوئی تھی یہ وہ شخص ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس
تمام واقعے کے پیچھے اور کو ن کون ہیں جو اس گھناؤنے کھیل میں ملوث ہیں
عوام کا کہنا ہے کہ تمام مجرمان کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرکے انکے چہرے
عوام کے سامنے لائے جائیں۔ قصور کی پولیس متواتر عوام کو دھوکہ دینے میں
پیش پیش رہی اور پولیس کی طرف سے جاری ہونے والا اس ملعون شخص کا خاکہ بھی
جعلی تھا۔ یہ خاکہ اسلئے جاری کیا گیا تاکہ عوام کو مطمعن کیا جاسکے۔ جس
شخص کی فوٹیج بار بار دکھائی جا رہی تھی وہ بھی پرانی تھی اور اس درندے کے
ساتھ انگلی پکڑ کر جانے والی کوئی اور لڑکی بھی زینب تھی ہی نہیں گویا
پرانی فوٹیج دکھائی گئی۔ اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ یکم ، دو
اور تین جنوری کو قصور کے اس علاقے میں پایا گیا ۔ مگر یہ اکیلا ملزم نہیں
ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سہولتکار ہو اور یہ پیسے لیکر بچیاں فراہم کرتا ہو
مگر اصل مجر م پردے کے پیچھے چھپا بیٹھا یہ سب دیکھ رہا ہو۔ تا حال پولیس
نے اس جگہ کی نشاندہی بھی نہیں کی کہ یہ شخص ان بچیوں کو کس مقام پر لیجا
کر ان سے بد فعلی اور قتل کا مرتکب ہوتا تھا یہ وہ سوال ہے جو تا حال جواب
طلب ہے۔ فرانزک ٹیسٹ جن میں آٹھ ڈی این اے ایک ہی شخص سے منسوب کئے جا رہے
ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہاں کے ہائی پروفائل لوگ جن میں
ایم این اے۔ ایم پی اے، لینڈ لارڈز، پولیس کے آفیسر اور سرمایا دار اور
دیگر شخصیات شامل ہو سکتی ہیں انکے ڈی این اے بھی لئے جانے بہت ضروری تھے
تاکہ معاملہ واضح ہو سکتا مگر ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا گیا اصل میں حکومت
تفتیش کا رخ موڑ کر اصل مجرم کو بچانے میں مصروف ہے اور ہر روز میڈیا پر
نئی نئی خبریں شائع کر وا کر بگ گنز کو بچانا چاہتی ہے اسی لئے وزیر اعلیٰ
شہباز شریف نے از خود پریس کانفرس کا انعقاد کروایا اور اپنی مرضی سے پریس
کانفرنس میں کسی کو بولنے کا موقع نہیں دیا اور اگر زینب کے والد نے کچھ
کہنا چاہا تو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے مائک بند کرکے اسے بولنے کا موقع
نہیں دیا گیا جو بہت سے سوالات ک جنم دیتا ہے ۔پریس کانفرنس پولیس کے آئی
جی کو کرنی چائے تھی مگر ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا گیا ۔
نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بچیوں کے ساتھ بد فعلی کرنا اور انہیں اذیت
دیکر مار دینا ایک چسکا ہے جو بھاری رقوم دیکر اپنے دلالوں کے ذریعے معصوم
بچیوں کا اغوا کرواتے ہیں او ر پھر انہیں اپنی ہوش کا نشانہ بنا کر انہیں
موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ قصور کے واقعات میں ملوث یہ بد
کردار اور قبیح فعل کرنے والا یہ ہائی پروفائل شخص کسی دوسرے شہر سے آتا ہو
اور اپنے دلالوں کے ذریعے بچی منگو ا کر اسے ہوس نشانہ بنا کر جان سے مار
دیتا ہو اور خود ایک طرف ہو جاتا ہو اور اسے دلال اس بچے کو کچرے کے ڈھیر
پر پھینک دیتے ہوں۔ اس واقعے میں ایک نہیں بلکہ ایک سے ذیادہ لوگ ملو ث ہو
سکتے ہیں۔اب تک جتنے بھی قصور کے واقعات ہوئے ہیں انمیں سے تھانہ صدر میں
6،تھانہ بی ڈویژن میں ایک اور تھانہ آے ڈویژن میں 5مقدمات درج کروائے گئے
ان میں سے گیارہ بچیاں ماری جا چکی ہیں جبکہ ایک بچی زندہ بچی ہے جو اپنے
ہو ش و حواش کھو بیٹھی ہے۔قصور کے ایس ایچ او کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ
وہ انتہائی کرپٹ اور بد دیانت شخص جو ملزمان کو پیسے لیکر چھوڑ دیتا ہے عوا
م نے مطالبہ کیا ہے کہ اس ایس ایچ او کو بھی شامل تفتیش کیا جائے سب
معاملات کھل کر سامنے آ جا ئیں گے۔
قصور میں بچوں سے جنسی زیادتی کے سکینڈل 2006سے 2014ء کے دوران حسین والا
ضلع قصور میں 280-300بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر انکی ویڈیو بنائی
گئی انکے والدین کو بلیک میل کرکے لاکھوں روپے بٹورے گئے یہاں کے مقامی ایم
پی اے ملک احمد سعید اور پولیس کے بارے میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ وہ ان
تمام واقعات میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ مگر تا حال ان سے پوچھ گچھ نہیں کی
گئی جس سے ہمارے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ ان لوگوں کو فی الفور گرفتا ر
کرکے ان سے تفتیش کی جائے تاکہ لوگوں کے سامنے انکے مکروہ چہرے بے نقاب کئے
جائیں۔قصور کی پولیس ، مقامی ایم پی اے، ڈی پی او اور مقامی با اثر لو گ اس
تمام معاملے میں برابر کے شریک ہیں ۔ مقامی انتظامیہ اور پنجاب کے وزیر
اعلیٰ کو سب معلوم ہے مگر وہ اسے چھپانے کی کوششوں میں مصروف ہیں قوم
مطالبہ کرتی ہے کہ انہیں کٹہرے میں لا کر اصل حالات کو عوام کے سامنے لایا
جائے اور زینب کے واقعے میں ملوث تمام لوگوں کو گرفتار کیا جائے تاکہ انصاف
کا بول بالا ہو اور مجرموں کا منہ کالا ہو۔ |