قصور کی سات سالہ معصوم کلی زینب انصاری کی بہیمانہ شہادت
کے بعد سے ملک کا منظر نامہ عجیب رخ اختیار کرتا جارہا ہے۔اس طرح کے واقعات
جس ملک میں اشرافیہ کی سرپرستی میں ہونے لگیں،اس ملک پر اﷲ تعالی کی رحمت
نہیں ،قہر وغضب ہی اتراکرتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اﷲ تعالی نے جواَب تک
ڈھیل پرڈھیل دیے رکھی تھی،وہ اب اپنی رسی کھینچتا چلاجارہا ہے۔
اگست 2015ء ،بلکہ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق 2012سے حکومتی اہم شخصیت کی
سرپرستی میں چائلڈ پورن انڈسٹری کے لیے کام کرنے کا جو گھناؤناسلسلہ شروع
ہوا تھا،ڈارک ٹیوب نامی ویب سائٹ سے ڈالرہتھیانے کی ہوس میں اپنے پالتوکتوں
کے ذریعے جوسیکڑوں معصوموں سے ان کی معصومیت اورعفت مآب بچیوں سے ان کی عفت
وعصمت چھینی گئی؛ اور ان کی زندگی کا چراغ گل کرکے ان کے والدین کی زندگیوں
کو بھی اندھیروں میں دھکیلا گیا،لگتا ہے اب حساب کی گھڑی قریب آتی جارہی
ہے۔آئے روز اخبارات اور ویب سائٹس میں شایع ہونے والی رپورٹیں دیکھ اور پڑھ
کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں خبر آئی ہے کہ جھنگ
سے ایک ایسے ہی جنسی درندے کو گرفتار کیا گیا ہے ،جو بچوں کے ساتھ زیادتی
کرکے ان کی برہنہ ویڈیوز بناتا تھا۔اس کے قبضے سے اس نوع کا کافی مواد بھی
برآمد ہوا ہے۔ذہن پر تھوڑا زور دیجیے تو زیادہ پرانی بات نہیں لگتی،جب ایک
سرگودہا کے رہائشی پاکستانی کو بیرون ملک ڈارک ویب کے لیے کام کرنے کے جرم
میں گرفتار کیا گیا تھا ،اور اس کی گرفتاری اور بین الاقوامی میڈیا میں اس
کے سیاہ کارناموں کی خبریں آنے تک ہماری ایجنسیاں اس سے بے خبر تھیں۔جنوبی
پنجاب کو اس گھناؤنے ک اروبار کا گڑھ بھی بتا یا جارہا ہے۔دیکھیے!مزید کیا
کیا رسوائیاں ہمارے مقدر میں لکھی ہیں ۔خٰبر پختونخوا کی صورت حال بھی خوش
کن نہیں ۔وہاں کی پولیس آزاد وخودمختار ہونے کے دعوے جتنے چاہے کرے، حقیقت
یہی ہے کہ وہ وزرااور تحریک انصاف کے لوگوں کے زیر اثر ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا
تو رشتے سے انکار کرنے کے ’’جرم ‘‘میں تھرڈ ایئر کی طالبہ کو جان سے
ماردینے والا انصافی عہدے دار کا عزیز اتنی آسانی سے بیرون ملک فرار نہ
ہوتا،مردان کی چار سالہ بچی عاصمہ کے قاتل دھر لیے جاتے،شریفاں بی بی کو
برہنہ کرکے پورے گاؤں میں گھمانے والا بااثر وڈیرہ اب تک آزاد فضاؤں میں
سانس نہ لے رہا ہوتا،اس کی پشت پناہی کرنے والا انصافی وزیر اپنے کیے کی
سزا بھگت چکا ہوتا،مگر ایسا تو کچھ نہ ہوا ،البتہ یہ سننے میں ضرور آرہا ہے
کہ شریفاں بی بی کی ایف آئی آر بھی،جو میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے درج کرلی
گئی تھی،خاموشی سے خارج کی جاچکی ہے۔بلوچستان سے بھی دل خراش خبریں آنے لگی
ہیں ۔بیس سالہ بھائی کے ہاتھوں چودہ سالہ معذور بہن کی عصمت ریزی اور قتل
کی خبر یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ مغرب ویورپ کی اندھی تقلید میں دین اور
دینی ومشرقی اقدار سے دور ہوتا نوجوان کس قدر گراوٹ کا شکار ہے!
سپریم کورٹ کی مسلسل کوشش ،وارننگز اور عوام کے مطالبوں کے باوجود زینب
شہیدہ ؒ کے قاتل کو چوہنگ کی راہ دکھا کر پنجاب حکومت اصل مجرموں کو بچانے
کی کوشش کررہی ہے ۔ممکن ہے نون لیگ کی نظر میں سیاسی وابستگی معصوموں کے
خون اور ان کی عزت وعفت سے زیادہ قیمتی ہوسکتی ہے،لیکن میرارب غیور ہے۔وہ
ہرقسم کی بے حیائی کوحرام قراردیتا اور اس کی کڑی سے کڑی سزادیتا
ہے۔مانا،کہ اس کے عفووکرم کی کوئی حد وانتہا نہیں،لیکن فساد فی الارض
یاحرابہ جیسے جرائم کی،اس نے سزا بھی بڑی سخت مقرر کی ہے۔حاکمِ وقت کو
اختیار دیا ہے کہ ایسے مجرموں کو قتل کرو،یاسولی دو،یاان کے ہاتھ پیر مخالف
سمتوں سے کٹوادو،یاان کے ناپاک وجود سے دھرتی کوپاک کرنے کے لیے انھیں
جلاوطن کردو۔زینب شہیدہ اور اس جیسے ہزاروں پھول کلیوں سے اپنی ہوس کی آگ
بجھا کرانھیں قتل کرنے والے اسی فساد فی الارض اورحرابہ کے مجرم ہیں،ان
کویہی سزا ملنی چاہیے۔شنید ہے کہ عدالت نے اسلامی نظریاتی کونسل سے سفارشات
مانگی ہیں،کاش!واضح قرآنی تصریحات کی روشنی میں وہ اس سفاک جنسی درندے اور
اس کے پشتی بانوں کے لیے پھانسی کی سزا تجویز کریں اور اس پر عمل درآمد
کراکر ہمارے مقتدر ادارے قوم کے دل ٹھنڈے کردیں!
کبھی کبھی یہ سوچ کراپنی قسمت پررونے کو جی چاہتا ہے ،کہ ہم کس زمانے میں
پیدا ہوئے۔اگر ہماری قسمت میں خیرالقرون اور تابعین وتبع تابعین کا دور
نہیں لکھا تھا،تو ہم کم ازکم حجاج بن یوسف اموی اورمعتصم باﷲ عباسی کا
زمانہ ہی پالیتے،جواگرچہ معروف معنوں میں مسلم حکم رانوں کے اوصاف جلیلہ سے
تومحروم سمجھے جاتے ہیں،لیکن ان میں بھی ایسی غیرت وحمیت موجود تھی،کہ حوا
کی بیٹی کی پکار پرلشکروں کے لشکر کوبھیج کرقوم کی بیٹیوں کوظالم کے پنجہ ٔ
استبداد سے چھڑایا۔ہم جنرل محمد ضیا الحق اور نواب امیر محمد خان( آف
کالاباغ) ہی کا زمانہ پالیتے،کہ اول الذکر نے معصوم بچے سے زیادتی کے مجرم
کو اٹھارہ گھنٹے تک پھانسی کے پھندے سے نہ اتارنے کا حکم دیا،تاکہ لوگوں کو
عبرت ہو،یہ اسی جراء ت مندانہ اقدام کا نتیجہ تھا،کہ بعد کے دس سال پھر
ایسی درندگی کی کسی کوہمت نہ ہوئی؛اور آخرالذکرنے ایک علاقے سے ایک بچے کے
اغوا ہوجانے پرتمام پولیس افسران کے بچے اپنی حویلی میں روک لیے تھے،کہ جب
تک یہ بچہ اپنے والدین کے پاس نہیں پہنچ جاتا،تم بھی اپنے لخت ہائے جگر کی
صورت نہ دیکھ سکوگے،جس کا اثر یہ ہوا کہ اگلے دن کا سورج طلوع ہونے سے پہلے
ہی گم شدہ بچے کا سراغ لگالیا گیا۔
ہم پیداہوئے تواس ڈکٹیٹر کے دور میں ،جس نے خود اپنی کتاب میں قوم کی بیٹی
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کودشمن کے حوالے کرنے کا اعتراف کیا،جس نے مجاہدین کوپکڑ
پکڑ کردشمن کے حوالے کیا اورڈالرکمائے۔ہم پید اہوئے توجعلی انکانٹرزکی اس
اندھیرنگری میں،جس میں کسی بھی باعزت شہری کواس کے گھر سے گرفتار کرکے
پیسوں کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے ،اور پیسے نہ ملنے کی صورت میں اوربسا اوقات تو
پیسے ملنے کے باوجودبھی’’ راز‘‘ کھلنے کے خوف سے اسے دہشت گرد قرار دے کر
مبینہ مقابلے میں قتل کردیا جاتا ہے،توکبھی سالوں اور مہینوں سے جیلوں میں
پڑے انصاف کے منتظر قیدیوں کوجعلی مقابلوں میں مار دیا جاتا ہے،ان کے ہاتھ
پاؤں پربندھی رسیاں ان کی بے گناہی کی ان کہی کہانیاں سنارہی ہوتی ہیں،اس
کے باوجود وہ دوشی اور دہشت گرد اس لیے ٹھہرتے ہیں ،کہ یہ جس پولیس افسر کا
کارنامہ ہے،وہ حکومت کی نظر میں قابل اعتماد ،باعث فخر ،قوم کا سرمایہ اور
فرض شناس افسرہوتا ہے۔
نسیم اﷲ عرف نقیب اﷲ محسود کی بہیمانہ شہادت کی صورت میں راؤانوار اور اس
کے ڈیٹھ اسکواڈ کاجوبھیانک چہرہ سامنے آیا ہے،اس سے امید پیدا ہوچلی ہے کہ
ان شاء اﷲ!ظالموں کا وقت حساب قریب ہے۔جن کے سہاگ اجڑے ان سہاگنوں کی آہیں
رنگ لارہی ہیں،جن کے جگر گرشے خاک وخون میں تڑپائے گئے ان بوڑھے والدین کی
سسکیاں عرش کا سینہ چیر کرقبولیت کے مراحل طے کرچکی ہیں،جن بچوں کے والد،جن
بہنوں کے بھائی،جن گھروں کے سہارے ،جن کی امیدوں کے چراغ گل کیے گئے،ان کے
نالے اب اپنا اثر دکھارہے ہیں۔وقت کے فرعون کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی۔اﷲ
کرے،اس واقعے کی ایسی شفاف تحقیق وتفتیش ہو،کہ آیندہ کسی وردی میں ملبوس
سفاک درندے کوایسی جرء ات نہ ہوسکے۔اب تک کی خبریں خوش کن نہیں ہیں ،راؤانوار
اور اس کے ڈیتھ اسکواڈ کی گرفتاری عمل میں آسکی ہے اور نہ ہی ان کی ملک میں
موجودگی یا عدم موجودگی وفرار کے حوالے سے کوئی تسلی بخش رپورٹ سامنے آسکی
ہے،اس کے باوجود عوام کی نظریں عدلیہ پر ہیں ،کہ ان شاء اﷲ !ظالم درندے
قانون کے شکنجے سے نہ بچ سکیں گے۔یہ سوال البتہ ضرور کیا جارہا ہے کہ کسی
مطلوب ملزم کو گرفتار کرنے اور اس کا سراغ لگانے کے لیے راؤ انوار جو
فارمولہ استعمال کرتا تھا،یعنی اس کے اہل خانہ کو ہراساں کرنا،عزیز رزشتے
داروں کی زندگی اجیرن کرنا،اندھا دھند اس کے جاننے پہچاننے والوں کو گرفتار
کرنا،یہ راؤ فارمولہ راؤ جی کی گرفتاری کے لیے استعمال کیوں نہیں کیا
جاسکتا؟ان کے پشتی بان بھی سب کو معلوم ہیں ،آخر سندھ حکومت ان پر ہاتھ
کیوں نہیں ڈال رہی ہے؟
فیک انکاؤنٹرزصرف سندھ یا کراچی کا مسئلہ نہیں،بلکہ پورے ملک کامسئلہ ہیں
اور واقفانِ حال کاتو یہ بھی کہنا ہے کہ خادم ِاعلی پنجاب ،جواب خادم ِاعلی
پاکستان بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔اس سلسلۂ نامسعود کے موجدوں میں سے
ہیں۔پنجاب کی سرزمین کے چپے چپنے میں ایسے فیک انکاؤنٹرزکی کہانیاں دفن
ہیں،جن میں سے ہر کہانی ماڈل ٹاؤن واقعے سے زیادہ بھیانک اور دل دہلادینے
والی ہے۔کیا کبھی ان کا بھی حساب ہوگا؟حساب توان مذہبی بازی گروں کا بھی
ہونا چاہیے،جنھیں اچانک ملک کاآئین مکمل غیراسلامی نظرآتا ہے،وہ اس نظام
کوتلپٹ کرنے کے لیے روڈوں پرآتے ہیں،ایک ہفتے کی ڈیڈلائن دیتے ہیں اور
پھر۔۔۔۔اچانک’’ سب اچھا ‘‘کی گردان کرنے لگتے ہیں۔خادم حسین رضوی پرالزامات
لگانے والے کیا پیرآف سیال سے پوچھنا اور یہ عقدہ کھولنا پسند کریں گے کہ
غیرشرعی دستور کو’’مشرف بہ اسلام ‘‘کرنے کاکتنا نذرانہ وصول کیا گیا!
ہم نے دیکھا تویہ زمانہ،جس میں حکم ران خودمعصوموں کے قاتل درندوں کو بچانے
کے لیے تمام حکومتی مشینری کوحرکت میں لاتے ہیں،ملک احمد سعیدخان کی سیاسی
وابستگی کی وجہ سے اس کے تمام سیاہ کارناموں کے باوجود اسے کلین چٹ فراہم
کرتے ہیں،معصوم زینب کے ورثا بار بار درندے کوپکڑ کرحوالۂ پولیس کرتے ہیں
اور اسے بہانے بہانے سے چھوڑ دیاجاتا ہے۔جب پانی سر سے گذرتا محسوس ہوتا ہے
،توورثاکی کوششوں سے پکڑے جانے والے مجرم کی گرفتاری کا کارنامہ اپنے کھاتے
میں ڈال کرپولیس ٹیم کے لیے لاکھوں کے انعامات کا اعلان کیا جاتا ہے،پریس
کانفرنس میں اس ڈر سے معصوم شہیدہ کے والد کا مائک بند کردیا جاتا ہے،کہ
کہیں حقائق سے پردہ اٹھ گیا ،تواس ’’فتحِ مبین‘‘ کاکریڈٹ لینا مشکل نہ
ہوجائے!
قاتل درندے کو بچانے کے لیے حکومتی دباؤکاسپریم کورٹ کے ان ریمارکس سے
اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں، کہ کچھ نام آخر وقت تک صیغہ ٔراز میں رکھنے
پرمجبور ہیں۔قاتل کو بچانے کے لیے کبھی اسے ذہنی مریض باور کرانے کی کوشش
کی جارہی ہے،توکبھی یہ تمام سیاہ کاری اس کے وجود میں پرورش پانے والے
مزعومہ’’ جن ‘‘کی کارستانی قرار دی جاتی ہے،مجرم کی رہائی کے راستے ہم ورا
کرنے کے لیے اسے ایک عام سا مجرم بناکر سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے،جب
کہ باخبر صحافی واینکرز کا کہنا ہے کہ عمران علی عام جنسی درندہ
نہیں،پورنوگرافی انڈسٹری کا ممبر ہے۔یہ بھی مقام ِحیرت ہے کہ سپریم کورٹ
کواس کاایک بھی بینک اکاؤنٹ نہیں ملتا،جب کہ باخبر ذرایع اس کے سیکڑوں
اکاؤنٹس اور اکاؤنٹس میں لاکھوں ڈالرزہونے کاانکشاف کرتے ہیں۔
دونوں مقدموں میں منصف نے زنجیر عدل ہلاتودی ہے،لیکن سسٹم کے سقم کودیکھتے
ہوئے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا،کہ اس سسٹم میں بڑے سے بڑے مجرم کا
بچ نکلنا ایک عام سی بات ہے۔اگر عمران علی اور اس کے سرپرستوں نیز راؤ
انواراوراس کی ٹیم کو بھی اسی طرح کا کوئی ’محفوظ راستا ‘دیا گیا ،توخطرہ
ہے کہ قوم کا جس طرح پولیس کے نظام سے اعتماد ختم ہوکر رہ گیاہے،کہیں
عدالتوں سے بھی اس کا اعتماد متزلزل نہ ہوجائے،شاہ رخ جتوئی کی بریت کے
فیصلے سے قوم پہلے ہی سکتے کی کیفیت میں ہے۔عدالت کواگر عوامی اعتماد اور
اپنا وقار برقرار رکھنا ہے ،توان دونوں کیسوں کو اسی طرح، کسی قسم کے
اندرونی بیرونی دباؤسے آزاد ہوکر،جلد سے جلدمنطقی انجام تک پہنچانا ہوگا،جس
طرح میاں نواز شریف کے کیس کو پہنچایا گیاتھا۔
|