تحریر :۔۔۔۔محمد بابر سجافی ۔۔۔۔۔غوث پورہ
رحمت اس جذبہ کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے ایک ذات دوسری ذات کے ساتھ محبت و
شفقت ،لطف و کرم اور فضل و احسان کا برتا و کرتی ہے اور انہیں موت سے زندگی
۔اندھیرے سے اجالے اور بے قراری سے امن و سکون کی طرف لے جاتی ہے ۔یہ جذبہ
اﷲ تعالیٰ نے تمام حیوانات کے اندر کم و بیش و دیعت فرمایا ہے ۔اسی وجہ سے
ایک جانور بھی اپنے بچوں سے محبت کا اظہار کرتا ہے اور اسے دشمنوں کا شکار
ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتاہے ۔
مگر تمام مخلوقات میں یہ جذبہ سب سے زیادہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ
کو عطا فرمایااور آپ کی رحمت کو زمان و مکان ،دوست و دشمن ،انسان و حیوان
کی تمام تر قیودات سے الگ کر کے بیان فرمایا ۔اﷲ کریم کا ارشاد پاک ہے :وما
ارسلنک الا رحمۃ اللعالمین۔’’اے محبوب ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت
بنا کر بھیجا‘‘۔
اسی لئے آ پ ﷺ کی رحمت کا دائرہ کسی خاص قوم اور کسی خاص جماعت کیلئے محدود
نہ تھا بلکہ آپ ﷺ جس طرح اپنے دوستوں کیلئے رحمت تھے ویسے ہی اپنے دشمنوں
کیلئے بھی ،جیسے تمام انسانوں کیلئے رحمت تھے ویسے ہی تمام حیوانوں کیلئے
بھی ،آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے ہر پہلو میں آ پ کی رحمت کے جلوے کو دیکھا جا
سکتا ہے ۔ہم بطور اختصار یہاں پر چند جھلکیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے
ہیں ۔
تمام انسانوں کیلئے رحمت:حضور رحمت عالم ﷺ نے اپنے اقوال و افعال اور اپنے
پاکیزہ کردار سے ان تمام افکار و نظریات کو جن کی وجہ سے ایک انسان دوسرے
انسان کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتا ہے کا خاتمہ کیا۔ مثلاً طاقت و قوت میں
زیادہ ہونا ،دولت و ثروت میں فائق ہونا ،کسی اعلیٰ خاندان اور ملک میں پیدا
ہونا ،اعلیٰ خوبیوں کا مالک ہونا،انسان کا خود فراموش ہونا اور وہم پرستی
وغیرہ کا شکار ہونا ،یہ سب وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایک انسان اپنے سے
کمزور غریب، کمتر ،بے بس ،بیوہ ،یتیم جیسے انسانوں پر ہی نہیں بلکہ خود
اپنے جگر کے ٹکڑوں پر بھی ظلم روا رکھتا ہے ۔رسول اکرم ﷺ نے ایسے تمام
افکار و نظریات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ارشا د فرمایا
:’’لوگو!اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :انسانو !ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و
عورت سے پیدا کیا ،اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں صرف اس لئے بانٹا کہ
تم الگ الگ پہچانے جا سکو ،تم میں زیادہ عزت والا وہی ہے جو خدا سے زیادہ
ڈرنے والا ہے ،چنانچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی
فوقیت حاصل ہے ،نہ کسی عجمی کو عربی پر ، نہ کالا گورے سے افضل ہے اور نہ
گورا کالے سے ،ہاں بزرگی اور فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے ۔(جو اچھے کاموں
کی بدولت اچھا بن جائے وہی اچھا ہے چاہے وہ کسی خاندان کسی ملک اور کسی بھی
رنگ کا ہو،امیر ہویا غریب ،طاقت و قوت والا ہو یا کمزور ،آزاد ہو یا غلام ،آقا
ہو یا نوکر)سار ے انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی حقیقت اس کے سوا کیا
ہے کہ وہ مٹی سے بنائے گئے ،اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے ،خون و مال کے
سارے مطالبے اور انتقام میرے پیروں تلے روندے جا چکے ہیں ۔قریش کے لوگو!
خدا نے تمہاری جھوٹی نخوت کو ختم کر ڈالا اور باپ دادا کے کارناموں پر
تمہارے فخر و مباہات کی کوئی گنجائش نہیں ۔لوگو,! تمہارے خون و مال او ر
عزتیں ایک دوسرے پر قطعا ہمیشہ کیلئے حرام کر دی گئیں (تو اب کسی کو بلا
وجہ قتل کرنا ،کسی کا مال طاقت کے زور سے لوٹنااور کسی کو حقیر و ناتواں
سمجھ کر اس کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرنا جائز نہیں)تم سب اپنے خالق حقیقی کے
پاس جاؤگے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔‘‘
لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی
بھائی ہیں اپنے غلاموں کا خیال رکھو ،انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو،
ایسا ہی پہناؤ جیسا تم پہنتے ہو۔ عورتوں سے بہتر سلوک کرو، کیونکہ وہ تو
تمہاری پابند ہیں اور وہ خود اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتیں ،چنانچہ ان کے
بارے میں خدا کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں خدا کے نام پر حاصل کیا اور اسی
نام پر وہ تمہارے لئے حلال ہوئیں ۔لوگو! میری بات سمجھ لو ! میں نے حق
تبلیغ ادا کر دیا ۔ دیکھو !تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں اسی
طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں (اور ہر ایک پر اس کے حقوق کی ادائیگی
ضروری ہے )
قرض قابل ادا ہے۔ تحفہ کا بدلہ دینا چاہئے ،اور جو کوئی کسی کا ضامن بنے وہ
تاوان ادا کرے ، کسی کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے ،سوائے
اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے ،خود پر اور ایک دوسرے
پر زیادتی نہ کرو۔
اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہو گا، نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے
گا نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔ سنو!جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں
چاہیے کہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی
غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔یہ خطبہ حجۃ الوداع
کے بعض حصے ہیں:حضور رحمت عالم ﷺ کے رحمت بھرے اقوال اتنے زیادہ ہیں کہ ہم
ان سب کو بیان نہیں کر سکتے ۔آقا کریم ﷺ نے نہ یہ کہ صرف رحمت کا درس دیا
بلکہ خود بھی سب سے زیادہ اس کا عملی مظاہرہ فرمایا:چنانچہ جس وقت بیوہ
عورتیں دنیا کی سب سے بڑی منحوس چیز سمجھی جاتی تھیں ۔اس وقت آپ ﷺ نے اپنی
پہلی شادی ایک بیوہ سے کر کے انہیں وہ بلند مرتبہ عطا کیا کہ جس مرتبہ پر
دنیا کی کوئی عورت نہیں پہنچ سکتی ،جب بچیوں کو منحوس سمجھ کر زندہ زمین
میں گاڑ دیا جاتا تھا اس وقت آپ ﷺ نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور خود اپنی
بچیوں سے ایسی محبت فرمائی جس پر جتنا رشک کیا جائے کم ہے ، یتیم و غلام کی
اس محبت بھرے انداز میں پرورش فرمائی کہ اس کی کوئی مثال نہیں ہے ،کمزوروں
،غریبوں اور بے کسوں کی ایسی دستگیری فرمائی جس کی نظیر نہ پہلے دیکھی گئی
اور نہ بعد میں دیکھی جائے گی ۔ اپنی جان کے دشمنوں کے ساتھ وہ رحمت بھرا
سلوک فرمایا جو کسی دوسرے کے بس کی بات ہی نہیں اور آقا کریم ﷺ کے غلاموں
نے اس درس رحمت کو ایسا فروغ دیا کہ وہ جہاں بھی گئے وہاں رحمت کے بادل بن
کربرسے کہ ہر کشت ناتواں کو رشک گلزار بنا دیا ۔مصر کی سر زمین پر ہر سال
لوگ اپنی قوم کی ایک حسین اور کنواری دوشیزہ کو دریائے نیل کے نام پر بھینٹ
چڑھا دیتے تھے مگر جب اسلام کا پرچم مصر کی سر زمین پر لہرایا تو مصطفےٰ
جان رحمت ﷺ کے دیوانے نے اس ظلم عظیم کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم فرما دیا
۔آج دنیا بھر میں اگر عورتیں زندہ ذبح نہیں کی جاتی ہیں یا زندہ نہیں جلائی
جاتی ہیں یا معاشرہ میں ایک با وقار مرتبہ پر فائز ہیں یہ سب مصطفےٰ جان
رحمت ﷺ ہی کا صدقہ ہے ۔آج کمزور سے کمزور تر انسان اپنے حقوق کے مطالبہ کا
حق رکھتا ہے اور عدالتی نظاموں کے ذریعے ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی
سکت رکھتا ہے تو یہ سب آپ ﷺ ہی کی رحمت کا صدقہ ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ تمام
انسان مل کر آپ ﷺ کی رحمتوں کا احسان ادا کرنا چاہیں تو قیامت تک ادا نہیں
کر سکتے ۔
جانوروں کیلئے رحمت:حضور اکرم ﷺ کا ابر رحمت جس طرح انسانوں پر برسا اسی
طرح جانوروں پر بھی برسا۔چنانچہ آپ ﷺ کی آمد سے قبل جانور وں کے ذبح کرنے
کے بہت سارے ظالمانہ طریقے رائج تھے ۔نیز ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ لادنا
بھی روز مرہ کا معمول تھا ۔آپ ﷺ نے جانوروں پر ہونے والے ہر طرح کے ظلم و
ستم کا خاتمہ فرمایا ۔
چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے
گئے ،وہاں ایک اونٹ زور زور سے چلا رہا تھا جب اس نے آپ ﷺ کو دیکھا تو ایک
دم بلبلانے لگا اور اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ،آپ ﷺ نے قریب
جا کر اس کے سر اور کنپٹی پر اپنا دست رحمت پھیر ا تو وہ تسلی پا کر بالکل
خاموش ہو گیا ،پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون
ہے ؟ لوگوں نے ایک انصاری کا نام بتایا ،آپ ﷺ نے فوراً ان کو بلوا کر
فرمایا کہ :اﷲ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے قبضہ میں دے کر تمہارا محکوم
بنا دیا ہے ۔لہٰذا تم لوگوں پر لازم ہے کہ تم ان جانوروں پررحم کیا کرو
،تمہارے اس اونٹ نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور
اس کی طاقت سے زیادہ کام لے کر اس کو تکلیف دیتے ہو۔(ابو داؤد )
حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور جان رحمت ﷺ جنگل جا رہے تھے
کہ اغثنی یا رسول اﷲ ﷺ! کی آواز آئی آپ ﷺ نے پلٹ کر دیکھا کہ ایک ہرنی
بندھی ہوئی ہے اور ایک اعرابی سو رہا ہے آپ ﷺ سے ہرنی نے فریاد کی کہ مجھے
اس اعرابی نے شکار کر لیا ہے ،میرے دو بچے اس پہاڑ پر رو رہے ہیں اگر تھوڑی
مہلت مل جائے تو ان کو دودھ پلا آؤ ں ،آپ ﷺ نے ہرنی کو چھوڑدیا ۔اعرابی
بیدار ہوا تو کہنے لگا :اگر میرا شکار واپس نہ آیا تو اچھا نہ ہو گا ،گفتگو
کے دوران ہی ہرنی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ واپس آگئی ۔اعرابی حیران رہ گیا
اور آپ ﷺ کی بے پایاں رحمت کا جلوہ دیکھ کر فورا کلمہ پڑھا اور ہرنی کو اس
کے بچوں کے ساتھ آزاد کر دیا ۔ہرنی اپنے بچوں کے ساتھ کلمہ پڑھتی اچھلتی
کودتی چلی گئی ۔(شفا شریف)
حضرت سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول
اﷲ ﷺ کے ساتھ ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چڑیا کے دو بچے تھے ہم نے اس
کو پکڑ لیا ،ان بچوں کی ماں رحمت عالم ﷺ کے قدموں پر نثار ہونے لگی اور
فریاد کرنے لگی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان بچوں کو اپنی جگہ پہنچا آؤ۔
درس رحمت :آقا کریم ﷺ نے ہر جاندار کے ساتھ رحم کرنے کا درس دیا اور بے
رحمی کرنے کے نقصانات سے آگاہ فرمایا:
چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا
:بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت نے گرمی کے دنوں میں ایک کتے کو ایک کنویں
کے گرد چکر لگاتے دیکھا جس کی پیاس کی وجہ سے زبان باہر نکلی ہوئی تھی،اس
عورت نے اپنے موزے میں پانی لاکر اس کتے کو پلایا تو اس کی بخشش کر دی گئی
،دوسری روایت یہ بھی ہے کہ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ ﷺ !کیا ان
جانوروں میں بھی ہمارے لئے ثواب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہر جگر والے میں ثواب
ہے ۔(صحیح مسلم )
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ایک
عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا اس نے اس بلی کو باندھ کر رکھا
یہاں تک کہ وہ مر گئی ،وہ عورت اسی وجہ سے جہنم میں داخل کی گئی جب اس نے
بلی کو باندھا تو اس کو کھلایا نہ پلایا اور نہ اس کو کیڑے مکوڑے کھانے
کیلئے آزاد کیا ۔(صحیح مسلم)
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔(بخاری
شریف)
حضور اکرم ﷺ کے دین کا ہر حکم رحمت ہی رحمت ہے جو نظام عالم کی بقا کا ضامن
ہے آج کی اس ظلم سے بھری دنیا کو امن و آشتی کے گہوارے میں اگر کوئی نظام
حیات تبدیل کر سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف مصطفی جان رحمت ﷺ کا لایا ہوا
نظام رحمت ہے ۔اے کاش! دنیا اس حقیقت کو سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھاتی ۔
|