تیرے بن کیا جینا. (قسط پنجم)

 تحریر۔۔۔ نرجس بتول علوی
وفا بی اے کو بڑے غور سے آنکھ بھر کر دیکھتی ہے بی اے مسکراتا ہے وفا کیا دیکھ رہی ہوں وفا کچھ نہیں وفا اپنے آنسو صاف کرتی ہے اب جب وفا یہ سنتی ہے کہ بی اے میری خاطر اپنی پروڈکشن بنا رہا ہے تو وفا کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ جاتے ہیں تو بی اے کہتا ہے میرے ہوتیہو? آنکھ سے آنسو گرنے نہ پاے وفا کے آنسوؤں کو بی اے اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے وفا اور بی اے گاڑی میں بیٹھ کر وفا اپنے پسدیدہ کیفے کے سامنے گاڑی پارک کرتی ہے اس کے لبوں پر ایک دھیمی دھیمی سی مسکان تھی بی ایاور اس کی کوء خاص رشتہ داری تو نہ تھی ہاں چند دن کی دوستی ضرور تھی وفا بی اے سے پتہ ہے جب میں نے آپ کو شادی میں پہلی دفعہ دیکھا تو لگا تھا آپ میں کچھ خاص ضرور ہے وہ معصوم سا چہرہ وہ شوخ نگاہیں اور اس ا یک گٹار پر گا کر پوری محفل میں دھوم مچا دینا مجھے یاد ہے سب آج تک میں جب بھی آپ کو دیکھتی ہوں تو پہلی دفعہ والا چہرہ سامنے آ جاتا ہے بی اے اپنی کرسی سے اٹھ کر وفا کی کرسی کے اردگرد گھومتا ہے بی اے مسکرا کر ویسے وفا آپ کی یاداشت بہت اچھی ہے لیکن اک بات کہوں یہ دوستی میں آپ جناب وغیرہ اچھا نہیں لگتا آپ مجھے صرف بی اے کہہ سکتی ہیں آپ نہیں بلکہ تم بھی کہہ سکتی ہیں وفا اچھا بی اے اب میں چلتی ہوں بی اے وفا تھوڑی دیر بٹھیں وفا امی انتظار کر رہی ہوں گے بی اے گنگناتا ہے
،،یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو آج جانے کی ضد نہ کرو ۔ہم تو لٹ جائیں گے مر جائیں گے ایسی باتیں کیا نہ کر،،

وفا اس غزل میں ایسے کھو جاتی ہے جیسے اس کی غزل سے وفا کا دل رقص کر رہا ہو اور وہ زمین پر نہیں آسمان کی سیر کر رہی ہو وفا ایسے محسوس کر رہی تھی جیسے ماں کی آغوش میں بچہ لوریاں سن رہا ہو اور سکون محسوس کر رہا ہوتا ہے وفا بی اے سے تمھاری آواز میں کیسی خوشی ہے کہ مجھے سارے درد ہی بھول جاتے ہیں بی اے بہت پیار سے وفا کے ہاتھوں سے پکڑ کر دونوں کیفے سے باہر جاتے ہیں اب دونوں ایک شاپنگ مارکیٹ میں جاتے ہیں جہاں دونوں ایک دوسرے کی پسند سے شاپنگ کرتے ہیں اب دونوں جیولر کی شاپ پر آتے ہیں جہاں بی اے وفا کو کلاء میں ایک بہت ہی خوبصورت سی کڑی پہناتا ہے اور پھر وفا کا ہاتھ پکڑ کر کلائی گھوما کر دیکھتا ہے بی اے وفا کڑی تمھاری کلاء میں کتنی سج رہی ہے نا وفا کلاء سے کڑی اتارتی ہے بی اے کے ہاتھ پر رکھتی ہے بی اے کیوں پسند نہیں آئی وفا بہت اچھی ہے بی اے وفا پھر اتار کیوں دی وفا میری امی کہتی ہیں کہ کڑی قیدی کی نشانی ہوتی ہے مجھے پائل چاہیے جو کہ آزادی کی نشانی ہوتی بی اے وفا کو پائل تحفے میں دیتا ہے وفا بی اے جتنی محبت سے یہ تحفہ دیا ہے اتنی محبت سے پہنا بھی دو بی اے بڑی معصومیت سے دیکھتا ہے اور وفا کو پائل پہنا دیتا ہے وفا یہ پائل پہن کر چند قدم چلتی ہے تو بی اے کو اس پائل کی چھنکار بہت ہی بھلی لگتی ہے وفا بی اے کی طرف مڑ کے دیکھتی ہے اور اک خوبصورت شعر کہتی ہے

،،یہ جو تحفے میں دی ہے نا پائل جاناں۔چھنکار ستاتی ہے نشانی نے کہا ،،اس وقت وفا کو کال آتی ہے وفا کال پک کرتی ہے جی امی ٹھیک ہوں امی دوست کے ساتھ ہوں پہنچتی ہوں وفا کال بند کرتی ہے تو بی اے سے کہتی ہے بی اے مجھے جانا ہو گا امی پریشان ہو رہی ہیں بی اے وفا کے ہاتھوں سے پکڑ کر ان پر بوسہ دیتا ہے وفا بہت شرما سی جاتی ہے اور بی اے سے کہتی ہے مجھے جانا ہو گا، بی اے اداس سا ہو جاتا ہیاور وفا کو کہتا ہے تم سے جدا ہونے کو دل نہیں کر رہا خدا جانے جب تم دور جاتی ہو تو یہ دل بہت زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے اور ان آنکھوں کو بس ایک ہی انتظار رہ جاتا ہے کہ نہ جانے کب تم کو دیکھنا نصیب ہو گا وفا سب سمجھتے ہوے بھی نہ سمجھ بن رہی ہے اب تم سے ملاقات ہوتی رہے گی انشااﷲ وفا مارکیٹ سے باہر جاتی ہے بی اے بھی بہت اداس سا ہو کر مارکیٹ سے باہر جاتا ہے وفا اپنی گاڑی میں چلی جاتی ہے لیکن بی اے کو جہاں تک وفا کی گاڑی نظر آتی رہیتی ہے دیکھتا رہتا ہے جب گاڑی نظر نہیں آتی تو بی اے بھی اپنے گھر کی طرف چل پڑتا ہے اب بی اے گھر آتا ہے تو ارشد پہلے سے ہی پارک سے آ گیا ہوتا ہے بی اے جب ارشد کو دیکھتا ہے تو ارشد کے بولنے سے پہلے ہی بی اے ارشد تم یہاں بیٹھے ہو میں تمھارے گھر سے ہوتا ہوا تیرے دوستوں سے پوچھتا ہوا پارک کو گھورتا ہوا یہاں آیا ہوں تم میری موٹر سائکل لے کر کس گرل فرینڈ کے ساتھ گھومنے چلا گیا تھا بی اے بڑی سرشاری سے بولا ارشد واہ جی واہ ایک چوری اور دوسرا سینہ زوری بی اے ارشد کے منہ پر پیار کرتا ہے اور ارے یار غصہ کیوں کرتا ہے تجھے تو پتہ ہے تیرا یار جھوٹ نہیں بولتا ۔ (جاری ہے)۔
 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525554 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.