زندگی کی حقیقتوں کو فراموش کر کے باطن ِ ابدی کو تخیل
ظاہری کی بنیادوں پر استوار کیا جاتا ہے۔ کم کھونے کا خوف بہت پانے کی
جدوجہد میں بیچ راستے میں تھک کر سستانے لگتا ہے۔ منزل دور نہیں ہوتی ارادے
کمزور پڑ جاتے ہیں۔ خواہشوں کی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کی جستجو اتنی اونچائی
پر لے جاتی ہے کہ زمین دیکھائی دینا بند ہو جاتی ہے۔ جو انسان منزل تک
پہنچنے کے لئے وقت کا انتظار کرتا ہے وہ خواہش ہوتی ہے اور وقت جب انسان کا
انتظار کرتا ہے تو وہ رضائے الہی ہوتی ہے۔بہت پانے کی آس میں کبھی کبھار
بہت کچھ کھو دیا جاتا ہے۔ پہاڑوں میں گونجنے والی آواز جب متوجہ کرتی ہے تو
کانوں کی مدد سے آنکھوں کو تلاش پر مامور کر دیا جاتا ہے۔یہ سمجھے بغیر کہ
پکارنے والا کسی ایک کی توجہ کا مرکز ہو سکتا ہے۔ چوٹیوں پر لے جانے والے
ہلکے بھاری پتھر طاقت اور وقت کی قیمت چکاتے ہیں مگر لڑھکانے پر ایک ہی وقت
میں بلندی سے پستی کا سفر طے کر لیتے ہیں۔
انسان جب ڈر اور خوف کے زیر اثر چلا جاتا ہے تو وہ یقین اور ارادے کی پختگی
کی بھاری سلوں کے نیچے دب جاتا ہے۔ مشکلات سے گھبرانے لگتا ہے تو لمحہ بہ
لمحہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ ہاتھ بڑھا کر ساتھ چلنے پر آمادہ کرنے والوں کو بھی
روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ خوف کے سائے اتنا اندھیرا کر دیتے ہیں کہ چکاچوند
روشنی انہیں اندھیروں سے زیادہ تکلیف دیتی ہے۔ وقت گزر جاتا ہےزندگی رک
جاتی ہے۔ جسم مر جائے تو مٹی ہو جاتا ہے۔ روح بہک جائے تو بھٹک جاتی ہے۔
زندگی میں ناکامیوں اور کامیابیوں سے الگ الگ کمزوری اور قوت کی شاخیں
نکلتی ہیں۔ جوں جوں خواہشات کے پتے بڑے ہوتے ہیں، یقین کی شاخیں مضبوطی
اختیار کر لیتی ہیں تاکہ ان کے وزن کو سہار سکیں۔ نرم سی کونپل جو انگلی کی
پور سے مسلی جا سکتی ہے، اتنی قوت کی حامل ہوتی ہے کہ سخت زمین حتی کہ
پتھروں تک کو چیر کر اپنی ہمت و قوت کا برملا اظہار کرتی ہیں۔حالات کا
مقابلہ دلجمعی سے کرنے والے اعصابی قوت کے حامل بن جاتے ہیں۔جن کے سر پر
پریشانیوں کی گھٹڑی اور پاؤں میں مشکلات کی بیڑیاں ان کے ارادوں کو متزلزل
نہیں کر سکتیں۔
جتنی کوئی شے چھوٹی سے چھوٹی ہوتی ہے ان کی تعداد اربوں کھربوں میں چلی
جاتی ہے اور بڑی سے بڑی کی طوالت زندگی کا دارومدار ساخت اور وزن پر ہوتا
ہے۔اچھائی اور برائی کے ترازو میں سچ اور جھوٹ کا تناسب بھی لاکھوں اور چند
ایک جیسا ہے۔ کسی ایک کا سچ صدیوں بعد بھی زندہ رہتا ہے اور کروڑہا جھوٹ
چند سال بعد فراموش کر دئیے جاتے ہیں۔نظام حیات کے برخلاف جھوٹ کی
پیوندکاری سے ریا کاری کا پودا اُگایا جا سکتا ہے مگر نظام قدرت کے برخلاف
جانے والوں کو انصاف کے بےرحم ہاتھوں کی جکڑ سے بچنے کی امید رکھنی عبث ہے۔
دو میل سے دو ہزار میل تک اختیار و اقتدار کی اس جنگ میں جو جیتا وہی سکندر
کا لقب پانے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ جو قومیں اپنی روایت و رواج اور اخلاق و
اطوار چھوڑ دیتی ہیں وہ اپنی شناخت کھو دیتی ہیں۔آپس میں دست و گریبان رہتی
ہیں۔ وہاں اختیارات کے میٹھے چشمے اقتدار کے بھاری پتھروں سے بند باندھ کر
روک لئے جاتے ہیں اور بے کسوں کی بستیاں اُمید کے دیپ جلائے میٹھے پانیوں
کے انتظار میں سوکھ جاتی ہیں۔آسمان کی طرف نظریں اُٹھائے وہ مالک سے شکوہ
کرتی ہیں کہ جسے تو نے نائب بنایا وہ مالک بن بیٹھے۔ جنہیں تو نے آزاد پیدا
کیا وہ نسل در نسل حاکم کے نسل در نسل غلام بنا دئیے گئے۔ 1857 تک سوئی
ہوئی قوم کو جاگنے میں 1947 تک 90 سال لگے۔1948 سے سوئی ہوئی قوم دوبارہ
جاگنے پر کب آمادہ ہوتی ہے یہ دیکھنا اب باقی ہے۔ |