انسان کی فطرت کچھ ایسی ہے کہ عدم تحفظ اس کاسب سے بڑی
نفسیاتی گرہ ہے۔زندگی کے مصائب کے سامنے بے یارو مددگارہوجانے سے بڑااور
مستقل کوئی ایسا المیہ نہیں جو اسے ہروقت بے چین رکھے۔محرومی،ظلم
وزیادتی،جذباتی بحران، بیماری غرضیکہ ہرشے کیلئےاسے ایک سہارا چاہیے۔
انسانی جبلت نے اس کا سب سے جامع حل یہ نکالا کہ ان کے قریب رہا جائے
جوقریب ہیں یاقریب تر۔اس فہرست میں اول نمبرپرخونی تعلق والے ہیں،ماں
باپ،بہن بھائی،پھر بیوی بچے اوراسی طرح خاندان اوربرادری۔ اس کااگلا مرحلہ
ان پرمشتمل ہے جن کے ساتھ زبان اورجغرافیہ سانجھاہے۔ پھر یہی تعارف بن
جاتاہے اوراسی کی بنیاد پر وہ اکائی وجودمیں آتی ہے جسے ہم’’قوم‘‘کہتے ہیں۔
قوم کی اس روایتی تعریف میں یہ بات اہم ہے کہ اس کی بنیادعدم تحفظ کے تدارک
کیلئے’’اکٹھ‘‘کی جبلت سے عبارت ہے اوریہ انسان کی حیوانی تشکیل سے وابستہ
ہے۔دیگر حیوانات میں بھی یہ رجحان بکثرت پایا جاتا ہے۔
کسی نظریے یاآئیڈیل کی بنیاد پرجغرافیہ تراشنا ایک مشکل امرہے اوراس بنیاد
پر ایک قوم کی تشکیل اس سے بھی کئی گنامشکل!تاہم نظریات کی بنیادپرایک
شناخت کی تعمیراوراس سے ایسی وابستگی جیساکہ جبلت کے تحت فطری طور
پرنموپانے والے تعلق سے ہوتی ہے،خالصتاًانسانی شعورکاکارنامہ ہے۔ معروف
امریکی ماہرِنفسیات ابراہام میسلونے انسانی نفسیات کی ترتیب میں سب اعلیٰ
مقام اس کیفیت کودیاہے جہاں انسان اپنی صلاحیتوں کوپوری طرح بروئے
کارلاتاہے۔ “Self Actualization” کہلائے جانے والی اس کیفیت کاخاصہ یہ ہے
کہ انسان اپنے شعور کی بلندی پرہوتاہے اورتحقیق،تخلیق،اخلاق، علم اورتہذیب
کی ایسی ارفع ترین صورتوں کوجنم دیتاہے جہاں اس کی حیوانی جبلت نہ صرف اس
کی سوچ اورافعال پراپنی گرفت کھونے لگتی ہے بلکہ انسان اس کے تقاضوں سے
آگے نکل کرکام کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتاہے۔اس سب کے باوجودایک بنیادی
بات بہرحال اپنی جگہ موجودرہتی ہے۔ میسلو کے اس ماڈل میں ارفع مقام تک
پہنچنے کیلئےاہم یہ ہے کہ’’احساسِ تحفظ‘‘اور’’عزتِ نفس‘‘کسی لمحے بھی مجروح
نہ ہو۔اگریہ شرط پوری ہوتی رہے گی توانسان قبیلے اورعلاقے کی قید سے آزاد
ہوکرکسی اعلیٰ آئیڈیل کی بنیادپرنئی شناخت میں خودکوڈھال کرایک ایسی قومی
ترتیب کافردبن جائے گا،جس کے ساتھ اس کارشتہ خونی تعلق یارنگ ونسل کی ہم
آہنگی پراستوارہونے کی بجائے فکر کی یکسانیت پر قائم ہو گا۔ تاہم کہیں
اگریہ دونوں داؤپر لگتے نظرآئیں،یا ایساصرف احساس کی حدتک بھی پیداہو
جائے تونتائج بہت بھیانک ہوسکتے ہیں۔ شعور سے جبلت کاسفرِواپسی اورقبائلی و
نسلی عصبیتوں کاظہورنہایت خونریزہو سکتاہے۔
انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قومیت کیلئےمشترک’’نسل‘‘سب سے زیادہ
مستعمل بنیادرہی ہے۔اس کے بعد مشترک جغرافیہ کی باری آتی ہےاوربس…ایسااس
لیے نہیں کہ انساں کے پاس آئیڈیل کی بنیادپرایک ما فوق القبیلہ اکائی
بنانے کی صلاحیت محدود رہی ہے۔ ایسا نہیں، یہ تجربہ بہت مرتبہ ہوا لیکن اس
میں اصل سوال یہ رہا ہے کہ ایسے کسی بھی نظام کو ابتدائی کامیابی کے بعد
دوام کیسے بخشا جائے؟ کیا ایسا ہو جو اسی درجہ کا اطمینان فراہم کر سکے جو
نسلی و لسانی قرابت پیدا کرتی ہے۔
اس کا جواب بھی تاریخ ہی فراہم کرتی ہے۔ عدل اورسماجی انصاف کاایسا اٹل
نظام ہی وہ واحد کلیہ ہےجواس بڑی اکائی کی تشکیل کرنے والی چھوٹی اکائیوں
میں تسلسل کے ساتھ احساسِ تحفظ اوراحساسِ شراکت پیدا کرسکتاہے۔آئیڈیل کی
بنیادپرتشکیل پانے والی قوم کوآئیڈیل کی سطح کانظام ہی اکٹھارکھ
سکتاہے۔اگروہ نظام غیرمنصفانہ ہوگاتواکٹھے رہنے کاداعیہ کمزورپڑنے لگے
گا۔جہاں عقل کی گرفت کمزور پڑتی ہے وہاں جبلت پہلے سے بھی زیادہ فعال
ہوجاتی ہے کیونکہ اب وہ مایوس اورزخم خوردہ بھی ہے۔ واپسی کے اس سفرمیں وہ
راہ میں آنے والی ہر شے کوتباہ کرنے پرتل جاتی ہے۔
اس موقع پر وہ قوتیں بھی ساتھ آملتی ہیں جوروایتی کے علاوہ کسی
بنیادپرقومیت کو درست نہیں مانتیں۔ پھروہ اس آگ میں نفرت کاایندھن ڈالتی
ہیں تاکہ ثابت کر سکیں کہ وہ صحیح تھیں اورنظریے والے غلط۔۔ یہاں یہ سوال
پیدا ہوسکتا ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان سے بظاہرتوان کی بات درست ثابت
ہوئی۔ یہ بات قرینِ حقیقت نہیں۔ یادرکھیے انسان کامعیاریہی ہے کہ اس
کیلئےقرابت کی بنیاد شعوری ہو،حادثاتی نہیں۔ صرف یہ کہ شعوری قرابت کے
تقاضے زیادہ ہوتے ہیں اوران کی بلاتعطل پاسداری ہی کامیابی کی واحد کلید
ہوتی ہے۔
۱۶؍دسمبر۱۹۷۱ء کی سہ پہرسے پہلے کاپاکستان ہمیں یہی کہانی سناتاہے۔ لوگ
کہتے ہیں کہ پاکستان کے دونوں حصوں میں ایک ہزارمیل سے زائدکابعدتھااس لیے
دونوں کااکٹھارہناقابل عمل نہ تھا۔میں ان کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ
برطانیہ اگرہزاروں میل دورشمالی یورپ کے چھوٹے سے جزیرے سے دنیا کے ہر خطے
میں واقع اپنی نوآبادیات کوکنٹرول کرسکا،بشمول ہندوستان کے، تو مشرقی اور
مغربی پاکستان کے اکٹھارہنے میں زمینی فاصلہ کیسے حائل ہوگیا؟ اوربنگال
توقیام پاکستان کاسب سے بڑاحامی تھا۔ بات وہی ہے….. ہرآئیڈیل اپنے ساتھ
ایک امید بھی لاتاہے لیکن بھارت بھی جلدیابدیرکئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگا جس
طرح سوویت یونین اپنابھاری بھرکم رقبے کا بوجھ نہیں اٹھاسکالیکن اس
آئیڈیلزم کاایک رخ اسی میں دیکھ لیجیے کہ رقبہ سے قطع نظر پاکستان اس وقت
واحدایساملک ہے جو محض عقیدہ کی بنیادپراتنی متفرق لسانی اکائیوں کوایک
پرچم تلے متحد کیے ہوئے ہے۔
مشرقی پاکستان میں پاکستان زندہ باد سے’’جے بنگلا‘‘کاسفر،ایسٹ پاکستان
رائفلزکی بغاوت،ان لوگوں اوران کے خاندانوں کاقتل جوایک دوسرے کے ساتھ
اٹھتے بیٹھتے،کھاتے پیتے تھے،جن کے بچے انہیں انکل کہتے تھے یہی مرثیہ
سناتا ہے کہ جب قیام کے تقاضوں کوپورانہ کیاجائے توانہدام کتنادردناک ہوتا
ہے۔ پاکستان ایک امید اورتوقع کانام ہے، اس لیے یہاں کی لیڈرشپ
کوسمجھناہوگاکہ وہ روایتی ہتھکنڈوں سے اس ملک کوکبھی درست طورچلانہیں پائے
گی جب تک تمام اکائیوں میں مشترکہ دینی رشتہ یعنی "قرآن"کانفاذنہیں کرتی۔
سقوطِ مشرقی پاکستان ہمیں ہرسال یہی یادکرواتاہے کہ پاکستان کامعاملہ کسی
دیگرملک جیسانہیں۔اگرکہیں اور۱۰۰فیصد قانون کی پاسداری اورعمرانی معاہدے کی
پاسداری ضروری ہے توپاکستان میں اس کی ضرورت ہزارفیصدہےجبکہ حالت ہماری یہ
ہےکہ یہاں یہ چیز۵۰فیصد بھی نہیں۔ پاکستان کوآگے بڑھاناہے تو اس
کاراستہ"قرآن"کی مکمل پاسداری سے ہوکرگزرتاہے۔ اگر ایسا نہیں ہوگاتو یکجہتی
کی دیوارپرکہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی نقب لگتی رہے گی۔
|