میری نظریں سامنے دیوار پر ٹکی ہوئی تھیں جس پر صدر مملکت
ممنون حسین کی کئی ایک تصاویر آویزاں تھیں۔یہ ساری تصاویر جلسہ تقسیم اسناد
کے وقت کھینچی گئی تھیں جب طالب علم اپنی ڈگریاں اُن سے حاصل کر رہے
تھے۔میری ذاتی رائے یہ تھی کہ یہ تصاویر اس لئے آویزاں تھیں کہ نئے داخلہ
لینے والے طالب علم اس نجی تعلیمی ادارے میں بغیر کسی ہچکچاہٹ اور بلا کسی
تامل کے داخلہ لیں۔ مجھے ان تصاویر میں کوئی دل چسپی نہیں تھی کیوں کہ میرا
مدعا یہاں اپنے ایک استاد دوست سے ملنے کا تھا۔ عام طور پر تعلیمی اداروں
بالخصوص پرنسپل دفاتر میں قائد اعظم ؒ اور علامہ محمد اقبال ؒ کی تصاویر
پرنسپل کی کرسی کے ساتھ والی دیوار پر آویزاں ہوتی ہیں لیکن یہاں میرے
سامنے دیوار پر جلسہ تقسیم اسناد کی تصاویر تھیں جب کہ دائیں اور بائیں
جانب کی دیواروں پر چارٹس لٹک رہے تھے جن پر تعلیم بارے مفکرین کے اقوال
اور چند ایک نظمیں لکھی ہوئی تھیں۔یہی وہ وجہ تھی جس کی بناء پر ان میں
میری دل چسپی کا عنصر نہ صرف پیدا ہوا بلکہ تھوڑا سے بڑھ بھی گیا تھا۔ یہ
ایک نجی کالج کے پرنسپل کا دفتر تھا اور جس کا الحاق بھی ایک نجی سیکٹر کی
یونیورسٹی سے تھا۔ ملاقات کے بعد جب میں باہر دروازے کی طرف بڑھا تو مجھے
عقبی دیوار پر بالآخر قائداعظم ؒ کی تصویر نظر آئی۔ یہاں پر بابائے قوم کی
تصویر دیکھ کر دل بہت رنجیدہ ہوگیا۔کیوں کہ آج ہم جس دھرتی پر سکھ کا سانس
لے رہے ہیں اور اپنے ادارے چلا رہے ہیں وہ ان کی اَن تھک محنت کا ثمر
ہے۔ہماری ترجیحات بدل چکی ہیں۔ تعلیم کی اشاعت و ترویج کو ہم نے کاروبار کی
شکل دے دی ہے اور اپنے اس کاروبار سے اتنا لگاؤ کہ بابائے قوم کی تصویر کی
بجائے اپنے کاروبار کی تصاویر نمایاں جگہوں پر آویزاں کی ہوئی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری ترجیحات بہت بدل چکی ہیں۔آپ کو یہ جان کر
حیرت ہوگی کہ 5 فروری ( یوم یک جہتی کشمیر) کو ملک بھر میں عام تعطیل ہونے
کے باوجود ایک نجی تعلیمی جامعہ نے خزاں سمسٹر کا امتحانی پرچہ منعقد
کروایا یعنی کوئی چُھٹی نہیں منائی گئی ۔ حالاں کہ خبروں میں یہ سننے کو
ملا کہ ملک بھر میں تمام سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بند رہے
۔ افسوس ہماری دل چسپی 5 فروری ، 23 مارچ اور 14 اگست میں نہیں رہی، افسوس
ہماری دل چسپی بابائے قوم اور مفکر پاکستان جیسی عظیم شخصیات میں نہیں رہی
اور افسوس ہماری دل چسپی ارض ِ پاک میں بھی نہیں رہی ۔ جن کی بدولت ہماری
پہچان اور الگ شناخت ہے اور یہی سب بڑا احسان ہے۔ بقول ِ شاعر۔
میرے دیس کا ہے مجھے پہ احسان
میں ہوں پاکستانی ‘ میرا دیس ہے پاکستان
آج وطن ِعزیز کو تعلیمی گراؤٹ کا سامنا ہے۔ ہماری ایک بھی جامعہ دنیا کی
پہلی 1000 جامعات کی فہرست میں شامل نہیں ہے ۔ پس ہمیں اپنی سوچ اور خود
غرضانہ ترجیحات کو بدلنا پڑے گا۔ ہمارے سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی تعلیمی
اداروں تعلیم برائے کاروبار کی روش کو ترک کرنا پڑے گا اور تعلیم برائے
تعلیم کے فلسفے پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔ ہمیں اس بات کا بھی ادراک کرنا
پڑے گاکہتعلیم ہی وہ واحد شعبہ ہے جس کی بدولت ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف
میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔
|