ویلنٹائن ڈے کی آمد آمد ہے ،اس موقع پر ملک بھر کی
مارکیٹوں میں دکانداروں نے ٹیڈی بئیر ،سرخ رنگ کے دل ،کپڑے ،پرفیوم اور
دیگر اشیاء کی دکانیں سجا دی ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان الیکٹرونک میڈیا
ریگولیرٹی اتھارٹی(پیمرا) نے ٹی وی چینلز پر ویلنٹائن ڈے کی تشہیر اور
نشریات پر پابندی عائد کردی ہے۔پیمرا کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والے
بیان میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے گذشتہ برس جاری کیے جانے والے حکم نامے
کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ عدالتی حکم اب بھی برقرار ہے۔13فروری 2017 کو
دئیے جانے والے اس حکم میں کہا گیا تھا کہ ویلنٹائن ڈے کی نہ کوئی سرکاری
تقریب منعقد ہو گی اور نہ ہی عوامی مقامات پر اسے منانے کی اجازت ہو
گی۔نوٹیفکیشن میں تمام ٹی وی چینلز اور ریڈیو کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ
ہائی کورٹ کے فیصلے کی پاسداری کریں۔یاد رہے کہ گزشتہ سال اسلام آباد
ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز نے ویلنٹائن ڈے کی نشریات پر پابندی لگائی
تھی۔اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو واضح ہو جائے گا کہ ہم کس قدر
عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہیں اسی طرح گذشتہ سال بھی ایسا ہی ہوا اور
عدالتی حکم کو میڈیا نے جیسے تیسے مانا ،مگر عوامی سطح پر اس دن کو جوش و
خروش سے منایا گیا اور اس سال بھی جس انداز سے اس دن کی تیاریاں جاری
ہیں،ثابت کررہا ہے کہ عوامی سطح پر اس دن کو منانے کا رحجان برقرار رہے
گا۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی
14فروری کوویلنٹائن ڈے کی رسم کو بڑے شد و مد سے رائج کیا جا رہا ہے ۔یہ
ایک ایسا ہی تہوار ہے جیسا کہ ایسٹر،دیوالی ،کرسمس،رنگولی وغیرہ ۔جس کا
ہماری روایات،ثقافت اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے مگرافسوس اس دن کی
تیاریاں فروری کا سورج طلوع ہونے سے شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ تہوار14فروری کو
’دل والوں کے نام‘ سے منسوب کر کے منایا جاتا ہے ۔اس روز لوگ اظہار کے لیے
لفظوں کی بجائے پھولوں کا اور لہجے کی شیرینی کے لیے چاکلیٹ کی مٹھاس کا
سہارا لیتے ہیں۔کوئی شک نہیں کہ وطن عزیزمیں موجود این جی اوز،برگر فیملیز
اور نام نہاد قلم کاروں نے اس دن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
اس دن کے حوالے سے ہمارے ہاں دو گروہ پائے جاتے ہیں ایک گروہ وہ ہے جو اس
دن کو منانے کے حق میں ہے اور نہایت جوش و جذبہ سے یہ دن مناتا ہے جبکہ
دوسرا گروہ وہ ہے جو اس دن کو منانا مذہبی طور پر حرام قرار دیتا ہے اور اس
کو منانے سے منع کرتا ہے۔ پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کا تہوار ، سابق صدر
پرویز مشرف کے دور میں مقبول ہونا شروع ہو اجب ان کے دورِ اقتدار کی ابتدا
میں سرکاری ٹی وی نے پہلی دفعہ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر پروگرام نشر کرکے
محبت کے اس عالمی دن کو عوام سے روشناس کروایا۔وہ دن اور آج کاد ن ویلنٹائن
ڈے دیکھتے ہی دیکھتے ایک صنعت کا روپ دھار گیا۔دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح
پاکستان میں بھی اس دن کومنانے کے حوالے سے کئی دن پہلے ہی تیاریاں شروع ہو
جاتی ہیں اس موقع پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے تحائف مثلاً پھول
،چاکلیٹ ، پرفیوم اور ہینڈ بیگز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں
اور سرخ گلابوں کے گلدستے ہرطرف نظر آتے ہیں۔ 14 فروری کے نزدیک آتے ہی
دکانیں ، شاپنگ مالز، ریسٹورنٹس اور بڑے ہوٹلز سرخ رنگ میں ڈوب جاتے
ہیں۔یعنی دل کی شکل کے سرخ غبارے ہر جگہ آویزاں نظر آتے ہیں۔ بازاروں میں
گلاب کے پھول بیچنے والوں کی تو چاندی ہوجاتی ہے۔ گلاب کی ایک کلی سو سے
ڈیڑ ھ سو روپے میں بکتی ہے اورگلا ب ہے کہ شام تک نایاب ہوجاتا ہے۔
ہر مذہب اپنے اندر کچھ تہوار رکھتے ہیں جو اس مذہب کی پہچان ثابت ہوتے ہیں
۔کبھی آپ نے سنا ہے کہ کسی عیسائی نے عیدالفطر جوش سے منائی؟کسی ہندو نے
عیدالالضحیٰ پر بکرا دیا؟کسی یہودی نے رمضان کے روزے رکھے ؟نہیں نا تو پھر
یہ کیا ہے۔ ہم کیوں مغربی روایات اور ان کے تہواروں کو منانے کے لیے بے تاب
ہیں۔ہر مذہب کی طرح دین اسلام میں بھی نبی کریم ﷺ نے اپنی قوم کو دو تہوار
دیئے۔حضرت انس بن مالک ؓسے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال
میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔ جب آنحضرت ﷺمدینہ تشریف لائے تو صحابہ
کرامؓسے فرمایا:’’اﷲ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلے میں دو اور
تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں: عیدالفطر اور
عیدالاضحی۔‘‘ (صحیح سنن نسائی؛ ۵۶۴۱)۔اسی طرح غیر مسلموں کے رسم و رواج اور
تہواروں کے بارے میں آپﷺ کس قدرسنجیدو اور دورس نگاہ رکھنے والے تھے کہ اس
کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایاجا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپﷺ کے پاس ایک
صحابیؓ آیا اور کہنے لگا کہ’’ میں نے ’بوانہ‘ نامی مقام پر اونٹ ذبح کرنے
کی منت مانی ہے (کیا میں اسے پورا کروں؟) ‘‘۔آپ ﷺنے فرمایا’’کیا دورِ
جاہلیت میں وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں ہوا کرتی تھی؟‘‘ اس نے کہا’’
نہیں‘‘۔ پھر آپ ﷺنے پوچھا ’’ کیا وہاں مشرکین کے تہواروں یامیلوں میں سے
کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوا کرتا تھا؟‘‘ اس نے کہا’’ نہیں‘‘۔ تو آپﷺ نے
فرمایا کہ ’’پھر اپنی نذر پوری کرو کیونکہ جس نذر میں اﷲ کی نافرمانی کا
عنصر پایا جائے اسے پورا کرنا جائز نہیں۔‘‘ (ابوداؤد:۳۱۳۳)اس واقعہ سے
اندازہ ہوا کہ ایسی جگہوں پہ جانا بھی ممنوع ہے جہاں اس طرح کے کام سرانجام
پاتے ہیں۔
ایک طرف ترقی پسند طبقہ کا خیال ہے کہ وہ رسم ورواج جو معاشرے میں پھل پھول
جائیں تو ان کو منا لینے میں کیا حرج ہے؟تو اس کا جواب بہت سادہ ہے کہ
ثقافت حالات کے مطابق نموپذیر ہوتی رہتی ہے جبکہ مذہب کے احکامات اٹل
ہیں،ان میں اگر تغیروتبدل کر دیا جائے تو وہ اپنی اصل شکل میں برقرار نہیں
رہتے۔اگرچہ مذاہب میں بھی نرمی ہوتی ہے مگر اتنی نہیں کہ اس کے بنیادی
احکامات کو ہی ختم کر کے من پسند بنا دیا جائے۔مذہب اور ثقافت اپنی اصل کے
اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں،اور ان میں کشمکش چلتی رہتی ہے جیسا کہ
ویلنٹائن ہی کی مثال لے لیں کہ خود عیسائی مذہب اس کے خلاف ہے۔اس کے علاوہ
’’ویلنٹائن ڈ ے ‘‘کے ممنوع ہونے کی اخلاقی اور سماجی وجوہات بھی ہیں جو اس
تہوار کو منانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتیں۔ایک اہم پہلو یہ ہے کہ فحاشی اور
عریانی کو ہر مذہب نے حرام قرار دیا ہے۔دین اسلام تو ہے ہی پاکیزہ اور صالح
لوگوں کا دین،اس لیے دین اسلام اس طرح کے غیر اخلاقی تہوار کی حمایت کیسے
کر سکتا ہے۔اور جو کوئی اس کو دین کا حصہ قرار دیتے ہیں ان کے بارے میں بھی
اسلام میں واضح احکامات ہیں اور ان لوگوں کے لیے درد ناک سزا ہے جیسا کہ
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’یقینا ً جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان
لانے والوں کے گروہ میں فحش (و بے حیائی) پھیلے وہ دنیا اورآخرت میں دردناک
سزا کے مستحق ہیں۔‘‘جبکہ ویلنٹائن تو ہے ہی بے حیائی اور فحاشی کا دن۔لہذا
اسے کسی صورت بھی ایک صالح معاشرہ اختیار نہیں کر سکتا۔دین اسلام میں غیر
مسلموں کی مشابہت اور ان کے طورطریقوں سے بچنے کا درس دیا گیا ہے۔حدیث
مبارکہ ہے’’جس نے غیرمسلموں کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے۔‘‘ (ابوداؤد)۔
ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟اور یہ کس طرح سے رواج پایا؟اس کے بارے میں کوئی مستند
اور حتمی رائے موجود نہیں ہے۔ اس حقیقت سے انکار نا ممکن ہے کہ اس دن کا
تعلق بت پرست یونانی یا رومی ادوار سے ہے۔کہیں اسے یونان کی رومانی دیوی
’’جونو ‘‘ (دیوتاؤں کی ملکہ اور عورتوں و شادی بیاہ کی دیوی) کا مقدس دن
مانا جاتا ہے، اوراس روز عام تعطیل ہوتی تھی توکئی لوگ اسے ’’کیوپڈ ‘‘(محبت
کے دیوتا)اور ’’وینس‘‘(حسن کی دیوی)سے موسوم کرتے ہیں جو کیوپڈ کی ماں تھی
اور یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار مانتے ہیں ۔کہیں اس کے
تانے بانے رومیوں کے ’’لپرکالیا فیسٹیول‘‘سے ملائے جاتے ہیں جو زمین اور
عورتوں کی زرخیزی کا دن سمجھا جاتا تھا۔نیز کچھ واقعات ہیں جو اس دن کے
ساتھ منسوب کیے جاتے ہیں۔ذیل میں ان واقعات کی روشنی میں جائزہ لیاگیا ہے
کہ ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟انساٰئیکلوپیڈیا آف بریٹینیکا کے مطابق :’’اسے محبت
کرنے والوں کے تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے‘‘۔انسائیکلوپیڈیا بک آف نالج
کے مطابق:ویلنٹائن ڈے جو (14 فروری)کو منایا جاتا ہے محبوبوں کے لیے خاص دن
ہے‘‘۔بک آف نالج اس واقعہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔’’ویلنٹائن ڈے
کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا
((Luper Caliaکی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی
دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات
یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ
’’ویلنٹائن‘‘ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا
گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی
تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے
ویلنٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے۔
اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ
سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع
کردیا۔‘‘ ( ’ویلنٹائن ڈے‘ از محمد عطاء اﷲ صدیقی، ص ۳) ۔اس دن کا تاریخی پس
منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔پادری ویلنٹائن تیسری صدی کے اواخر میں
روحانی بادشاہ کلا ڈیس ثانی کے زیر حکومت رہتا تھاکسی نافرمانی کی بدولت
بادشاہ نے پادری کو جیل بھیج دیا۔ جیلر کی لڑکی سے اس کی شناسائی ہو گئی
اور وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر اس کی زیارت کے لیے آتی تھی جب
بادشاہ نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے پھانسی دینے کا حکم صادر کیا۔ پادری نے
آخری لمحات میں بھی اپنی محبت کا اظہاراس انداز سے کیا کہ جیلر کی بیٹی کے
نام ایک کارڈ ارسال کیا جس پر یہ عبارت تحریر کی: ’’مخلص ویلنٹائن کی طرف
سے‘‘لیکن ویلنٹاین ڈے کے تہوار کے وجود میں آنے کے حوالے سے یہ روایت بھی
مشہور ہے کہ جب رومن اپنے قدیم مذہب کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے لگے
اور یہ مذہب تیزی سے پھیلنے لگا تو اس وقت کے رومن شہنشاہ کلاڈیوس دوئم نے
تیسری صدی میں رومن نوجوانوں کی شادی پر پابندی عائد کردی کیونکہ شادی کے
بندھن میں بندھنے کے بعد وہ جنگی مہمات میں شریک ہونے سے گریزاں ہونے لگے
تھے۔سینٹ ویلنٹائن نے اس شاہی فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے نوجوان جوڑوں کی
خفیہ شادیوں کا اہتمام کرنا شروع کر دیا۔ جب شہنشاہ کو اس بات کا پتہ چلا
تو اس نے سینٹ کو پھانسی کی غرض سے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔جیل میں اسے
جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی جو کہ خفیہ ہی رہی کیونکہ عیسائی قانون کے
مطابق پادری ساری عمر شادی یا محبت نہیں کر سکتے۔اوراس تہوار کے متعلق کئی
روایات قدیم رومن تہذیب کے دور سے وابستہ ہیں جس میں یہ تہوار روحانی محبت
کے اظہار کے لیے مختص تھا۔ اس ضمن میں بہت سی دیو مالائی کہانیاں اس سے
منسوب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روم کا بانی رومولوس نے ایک بار بھیڑئے کی مادہ
کا دودھ پیا تھا جس کے باعث اسے طاقت اور عقلمندی حاصل ہوئی تھی۔اہل روم اس
واقعے کی یاد میں ہر سال وسط فروری میں جشن منایا کرتے تھے جس میں ایک کتے
اور ایک بکری کی قربانی دی جاتی تھی جن کے خون سے دو طاقتور اور توانا
نوجوان غسل کرتے تھے اور پھر اس خون کو دودھ سے غسل کرکے دھویا جاتا تھا۔اس
کے بعد ایک عظیم الشان پریڈ کا آغاز ہوتا جس کی قیادت وہ نوجوان کیا کرتے
تھا۔ ان کے ہاتھوں میں چمڑے کا ہنٹر ہوتا تھا جس سے وہ ہر اس شخص کو مارا
کرتے تھے جو ان کا راستہ کاٹنے کی کوشش کرتا تھا۔ رومن خواتین اس ہنٹر کی
ضرب کو اپنے لیے ایک اچھا شگون سمجھتی تھیں کیونکہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ
اس طرح وہ بانجھ پن سے محفوظ رہیں گی۔اس طرح یہ رسم اٹلی میں منسوخ کردی
گئی جہاں یہ راسخ و رائج ہو چکی تھی۔ پھر اس بھولی بسری رسم کو اٹھارویں
اور انیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیا گیا۔یہ دن قدیم رومیوں اور عیسائیوں
کی روایت ہے مگر بعد ازاں اس دن کوسینٹ ویلنٹائن کے ساتھ کیوں منسوب کیا
گیا؟کیونکہ سینٹ ویلنٹائن چھپ کے لوگوں کی شادیاں کراتا تھا جب اس کی اصلیت
کھل گئی تو اسے جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ وہیں 14فروری 270ء کو ،جبکہ بعض
حوالوں کے مطابق 269کومر گیا تو اس کی یا د یا برسی کے حوالے سے یہ دن
منایا جانے لگا۔ اس طرح 14فروری ملکہ جونو،جشن زرخیزی اور سینٹ ویلنٹائن کی
موت کے باعث اہل روم کے لیے معتبر و محترم دن قرار پایا ۔ایک اور روایت کے
مطابق سینٹ ویلنٹائن کا نام کاایک معتبرشخص برطانیہ میں بھی تھا جو بشپ آف
ٹیرنی تھا جسے عیسائیت پر ایمان کے جرم میں 14فروری 269ء کو پھانسی سے دی
گئی تھی ۔چوتھی صدی عیسوی تک اس سن کو تعزیتی انداز میں منایا جاتا تھا
لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یاد گار کا رتبہ حاصل ہو گیا۔ رائج الوقت
ویلنٹائن ڈے کا آغاز پندرویں صدی عیسوی میں اس وقت ہوا جب یورپ ’’نشاہ
ثانیہ‘‘کے عمل سے گزر رہا تھا۔ اسے ایک باقاعدہ تحریک کی شکل فرانس کی
شہزادی ’’پرنسس آف ایزابیل‘‘ نے سن 1400ء میں دی۔ جلد ہی یوم محبت مغربی
یورپ میں مقبول ہو گیا۔ 1797 میں یوم محبت کے عنوان سے ’’محبوب کوخطوط
لکھنے‘‘ کی رسم کا آغاز ہوا۔ جس نے بعد میں ویلنٹائن کارڈ کی شکل اختیار
کرلی۔ اِس صدی کے اختتام تک ویلنٹائن ڈے کے طباعت شدہ کارڈز سامنے آگئے جو
جذبات کے اظہار کا آسان ذریعہ بنے۔یہ برطانیہ کا وہ دور تھا جب عورتوں
مردوں کا گھلنا ملنا زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔امریکیوں میں بھی
ویلنٹائن ڈے کے پیغامات کا تبادلہ اٹھارویں صدی میں شروع ہوا۔ ویلنٹائن ڈے
پر مختلف طرز کے تحفے دینے کا رواج ہے۔ا ِن تحائف میں پہلی بار جو تحفہ
سامنے آیاوہ نقش ونگار والی پیپرلیس تھی جس کو امریکہ میں تیار کیا گیا
تھا۔امریکن گریٹنگ کارڈ ایسوسی ایشن نے اندازہ لگایا ہے کہ دنیا بھر میں اِ
س دن تقریباََ ایک ارب کارڈ بھیجے جاتے ہیں اور اِسی لحاظ سے یہ دوسرا بڑا
دن ہے جس دن اتنے کارڈ بھیجے جاتے ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ کارڈ کرسمس پر
لوگ ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔ ایسوسی ایشن نے ایک اور اندازہ لگایا ہے کہ
85 فیصد عورتیں ویلنٹائن کی چیزیں خریدتی ہیں۔ا نیسویں صدی میں ہاتھوں سے
لکھے گئے خطوط اِس دن بھیجنے کا رواج تھا جس نے بعد میں گریٹنگ کارڈ کی شکل
اختیار کرلی۔ یوم ِویلنٹائن اب ایک جشن ہی نہیں بلکہ بہت بڑے کاروبار کا دن
بھی ہے۔بیسویں صدی میں امریکہ میں کارڈز کے ساتھ ساتھ مختلف تحائف بھی
بھیجے جانے لگے جو کہ عموماََ مرد عورتوں کو بھیجتے تھے۔اِن تحائف میں سرخ
گلاب کے پھول اور چاکلیٹ جن کو دل کی شکل کے ڈبوں میں رکھ کر سرخ رنگ کے
ربن کے ساتھ سجایا جاتا ہے، شامل ہیں۔ ویلنٹائن ڈے والے دن ہیر ے کے جواہرا
ت بھی تحفے میں دیئے جاتے ہیں۔ا لمختصر ویلنٹائن ڈے کو منانا مذہبی ،اخلاقی
اور معاشرتی سطح پر غلط اور ممنوع ہے۔اسلام نہ صرف برائی کا سد باب کرتا ہے
بلکہ برائی کی طرف جانے والے ہر راستے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔اس لیے
ویلنٹائن ڈے منانا قطعا غیر ضروری ہے اور ان غیر ضروری چیزوں پر ایک پائی
بھی خرچ کرنا فضول خرچی ہے۔
باکس:
دنیا بھر میں یہ دن کس طرح منایا جا تا ہے ؟تو دنیا کے تمام ممالک میں یہ
دن مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے ۔برطانیہ میں ویلنٹائن ڈے کو علاقائی
روایات مانا جاتا ہے۔نور فولک میں ’’جیک‘‘ نامی ایک کریکڑ گھروں کے پچھلے
دروازوں پر دستک دتیا ہے اور بچوں کیلئے دورازے پر ٹا فیاں اور تحائف چھوڑ
جاتا ہے۔ویلز میں بہت لوگ اِس دن کی جگہ 25جنوری کو’’ سینٹ ڈائینونز ڈے‘‘
مناتے ہیں۔فرانس روایتی طور پر ایک کیتھولک ملک ہے، یہاں ویلنٹائن ڈے کو’’
سینٹ ویلنٹین‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہاں یہ دن مغربی ممالک کی طر ح
ہی منا یا جاتا ہے اور سپین میں بھی یہ دن دوسرے مغربی ممالک کی طرح منایا
جاتا ہے۔ڈنمارک اور ناروے میں یہ دن بڑے پیمانے پر نہیں منایا جاتامگرکئی
لوگ اِس دن اپنے ساتھی کے ساتھ رومانوی ڈنر پرجا تے ہیں اور ایک دوسرے کو
کارڈز اور تحائف دیتے ہیں۔سویڈن میں اِس دن کو ’’ آل ہارٹس ڈے‘‘ کہا جاتا
ہے اوریہاں یہ دن پہلی بار1960 میں منایا گیا جس کی بنیاد فلاور انڈسٹر ی
نے رکھی تھی۔فن لینڈ میں اِس دن کو’’فرینڈ ڈے‘‘کہا جاتا ہے اور اِس دن کو
خاص دوستوں کیلئے اور ان کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ سلوانیا اور رومانیا
میں یہ دن عام مغربی ممالک کی طرح منایا جاتا ہے۔ اور اِس دن روایتی طور پر
چھٹی ہوتی ہے۔پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کا تصور نوے کی دہائی کے آخر میں
ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی نشریات کی وجہ سے مقبول ہوا۔ جاپان ، چین، کوریا
اور دوسرے ایشیائی ممالک میں بھی یہ دن منایا جاتا ہے اور اِس دن تحائف،
کارڈز اور خاص طور پر ایک دوسرے کو سر خ گلاب تحفے دئیے جاتے ہیں۔ بھارت
میں بھی اِس دن کو بہت جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔
باکس:
اس غیر شرعی و غیر اخلاقی تہوار کے حوالے سے روزنامہ انصاف نے خصوصی سروے
کیا اورہر طبقہ فکر کے لوگوں سے رائے لی جو قارئین کی نذر ہے۔
مفتی محمد نویدنے اس حوالے سے بتایا کہ ویلنٹائن ڈے ایک بے حیائی کے فروغ
اور اشاعت کا دن ہے جو اب مغربی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے اور ایک مسلمان
کافروں کے کسی دن کو بھی نہیں منا سکتا ،چاہے اس کا تعلق ثقافت سے ہو یا
مذہب سے،خاص طور پر ایسی ثقافت جو بے حیائی پر مبنی ہو وہ حیا ء والے دین
میں کبھی بھی جائز نہیں ہو سکتی۔
سکول ٹیچرنازش وقاص کا کہنا ہے کہ ویلنٹائن ڈے ایک مغربی تہوار ہے جو ہر
سال 14فروری کو منایا جاتا ہے ۔بد قسمتی سے ہمارے مسلم معاشرے کی نوجوان
نسل بھی اس دن کو بڑے جوش و خروش سے مناتی ہے جو سراسر غلط ہے اس سے زیادہ
ہماری بد قسمتی اور کیا ہو گی کہ ہمارا میڈیا بھی اس تہوار کی تشہیر کے لیے
اہم کردار اد اکرتا ہے ۔ہمیں سمجھناچاہیے کہ ہم مسلمان ہیں ہماری اپنی
تہذیب اور ثقافت ہے اور اس قدر خوبصورت تہوار ہیں ،جن کو مناکر ہمیں نا صرف
دلی سکون ملتا ہے بلکہ معاشرہ امن و محبت کا گہوارہ بن جاتا ہے۔
نجی سکول میں بطور استاد خدمات سر انجام دینے والے سبطین منیر کا اس حوالے
سے کہنا ہے کہ سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ویلنٹائن ڈے مناتے ہی
کیوں ہیں جس کا ہمارے مذہب اور ثقافت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ،مگر افسوس
ہماری نوجوان نسل دوسرے ممالک کی روایات کی دیکھا دیکھی ہر تہوار کو منانا
فرض سمجھتی ہے ۔جبکہ یہود و نصاری کے تہوار شرک اور بدعات پر مبنی ہوتے ہیں
،اس لیے مسلمانوں کوان کی رسومات و روایات اپنانے ،تہوار منانے ،ان کی
مشابہت اختیار کرنے اور اپنے آپ کو ان کے رنگ میں رنگنے سے گریز کرنا
چاہیے۔
مفتی محمد وقاص رفیع نے بتایا کہ ہم مسلمانوں کواپنی زندگی کے تمام تر
شعبوں میں کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی خوب کھل کر مخالفت کرکے اُن
کے ساتھ کفار دُشمنی کا اظہار کرنا چاہیے اور حضور نبی کریم ا ، صحابہ کرام
ث، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمۃ اﷲ علیہم کی مبارک سنتوں اور
اُن کی نیک اداؤں پر مر مٹ کر اسلام دوستی کا ثبوت دینا چاہیے۔بالخصوص
14فروری ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ جیسے بدنام زمانہ ’’ڈے‘‘ کے موقع پر تو اور بھی
زیادہ شرم و حیاء، اور حجاب و پردہ کو زیادہ سے زیادہ عام کرکے اِس کو خوب
سے خوب تر فروغ دینا چاہیے۔
طالبہ شامین طارق کا کہنا ہے کہ 14فروری جسے عرف عام میں محبت کے عالمی دن
کے طور پر منایا جاتا ہے مجھے یہ دن بالکل بھی پسند نہیں ہے اور میں بطور
مسلمان اس کی پر زور مخالفت کرتی ہوں ،دیکھیں ضروری تو نہیں کہ انسان اپنے
جذبات کا اظہار اسی ایک دن کرے ،بلکہ آپ جائز انداز سے روز اظہار کر سکتے
ہیں آپ کو اس ایک مغربی دن کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے یہ بالکل فضول
دن ہے اس لیے میرا پیغام ہے کہ اس دن کو منانے کی بجائے اس کی مخالفت کریں
۔
|