جس قوم نے اس دن کو منانے کا آغاز کیا تھا اُس کے
نزدیک پہلے دن سے ہی محبت کی کوئی قدر وقیمت نہیں تھی وہ تو جسمانی حوس کے
پجاری لوگ ہیں۔اُن کا مذہب اور قانون اُن کو کھلے عام مرد وعورت کے
جائز،ناجائز تعلقات کی اجازت دیتا ہے۔یعنی اُن کے نزدیک جسم ،جسم کی ضرورت
ہے ایک نہیں تو دوسرا سہی ۔ویلنٹائن ڈے منانے والوذرہ سوچوبھلا جسمانی حوس
کو محبت کا نام دینا مناسب بات ہے؟کیا سال میں صرف ایک دن محبت کے لیے ہونا
چا ہیے ؟جو آج کل چل پڑی ہے رسم (نام نہاد)محبت یعنی حوس کی وہ تو ایک لمحہ
نہیں رکتی یا تو سال بھر صبر کرواور پھر ایک دن محبت کے نام سے منا لو۔
ایسا بھی نہیں ہوسکتا تو بند کردویہ ڈرامہ بازی ۔سال میں ایک دن کومحبت کا
خطاب دے کر خوب جوش وخروش کے ساتھ منانا اور باقی ساراسال انسان کو انسان
نہ سمجھنایہ کیسی محبت ہے؟ یہ ڈرامہ بازی نہیں تو پھراور کیا ہے ؟ جو لوگ
یہ کہتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے محرم رشتوں یعنی ماں،باپ،بہن ،بھائی،میاں ،بیوی
وغیرہ سے محبت کاا ظہار کرکے مناتے ہیں اُن سے سوال ہے کہ کیا یہ سارے رشتے
اسی قابل ہیں کہ ان کے ساتھ سال میں صرف ایک دن اظہار محبت کیا جائے؟کیا ان
رشتوں میں ایسے بناوٹی اظہار محبت کی ضرورت ہے ؟میں تو یہی کہوں گا کہ ہوش
کرو مسلمانوں ۔نہ دو اپنے آپ کو دھوکہ ۔لوٹ آؤ اپنے رب کے دین کی طرٖف کہ
اسی میں بقاء ہے ۔محبت کرو اُس سے جو محبتوں کے صلے دیتا ہے۔جو کبھی وعدہ
خلافی نہیں کرتا۔جوکبھی بے وفائی نہیں کرتا ،جو ہماری غفلتوں اور گناہوں کے
باوجود رحمتیں نازل فرماتاہے ۔بے شک وہی پیدا فرماتا ہے ہمارے دلوں میں ایک
دوسرے کے لیے محبتیں ۔یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ والدین کے دلوں میں اُولادکے
لیے محبت پیدا نہ فرماتا تو وہ اپنے ہی بچوں سے محبت نہ کرتے ۔یوں کہوں کہ
اﷲ تعالیٰ ،رسول اﷲ ﷺ ،اہل بیت اوراہل حق کے سواکوئی محبت کے قابل نہیں
اورنہ ہی کوئی محبتوں کا صلہ دے سکتا ہے تو جھوٹ نہ ہوگا۔اﷲ تعالیٰ کی
مخلوق سے محبت کرنا بھی انسانی فطرت میں شامل ہے اس لیے انسان کو محبتیں
بانٹتے رہنا چاہیے پر حلال و حرام کی تمیز کرتے ہوئے ۔انسان کو دنیاوی محبت
میں اس قدر نہیں بہکنا چاہیے کہ اُسے محبت اور نفسانی خواہشات کی پہچان
بھول جائے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۃ المائدہ میں ارشاد فرمایا ’’ان
لوگوں کی نفسانی خواہشات کی پیروی مت کرو جو پہلے ہی بھٹک چکے ہیں اور
بہتوں کو بہکا چکے ہیں اور سیدھی راہ سے ہٹ چکے ہیں ۔اﷲ تعالی نے اپنے
محبوب نبی حضرت محمدؐ سے کہلوایاکہ کہہ دیجیے میری نماز،میری
قربانی،میراجینا ،اور میرا مرناسب اﷲ تعالی کے لیے ہی ہے۔ایک اور جگہ
فرمایاکہ صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیاں ہیں ۔قرآن مجید صرف مسلمانو ں کے لیے
ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت کیلئے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ مسلمانوں کی
زندگی قرآنی تعلیمات کے مطابق ہونی چاہیے ۔نشانیاں یاشعاروہ علامتیں ہوتی
ہیں جن سے قومیں پہچانی جاتی ہیں ۔وہ تہوار وہ عبادات جن کی اسلام اجازت
دیتا ہے وہ ہم مسلمانوں کی پہچان ہیں ۔کچھ ایسے تہوار بھی دنیا میں منائے
جاتے ہیں جن کا صرف ہمارے دین میں دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں ملتا
بلکہ وہ جس طریقے سے منائے جاتے ہیں اس سے ہمارا دین ہمیں منع فرماتا ہے ۔
افسوس کہ آج ہماری نوجوان نسل ایسے واہیات تہوار جوش وخروش سے مناکر اپنی
دنیا وآخرت کو تباہ وبربادکررہے ہیں۔ غیر مذہب لوگوں کی پیروی چھوڑ کر اﷲ
تعالیٰ کے دین اسلام کی پیروی کرلیں تو ہماری دنیابھی سنور سکتی ہے اور
آخرت بھی ۔جو تھوڑا سا وقت ہمیں ملا ہے اس دنیا میں گزارنے کیلئے ملاہے اس
کی قدر وقیمت سمجھ جائیں تو ہم کبھی ایک لمحہ بھی ضائع نہ کریں ۔ دنیا میں
بہت سے لوگ وقت کی حقیقی قدروقیمت کااحساس کئے بغیرماہ سال گزارتے چلے جاتے
ہیں ۔ایسے لوگوں کو پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ۔وہ نہیں جانتے کہ
وقت قدرت کاایک گراں قدر تحفہ ہے ۔دنیا میں کسی کے پاس بھی لامحدود وقت
نہیں۔ کوئی بھی اس دنیامیں سدا نہیں رہ سکتا۔اس دنیا میں مختصر وقت کے لیے
آئے ہیں ۔ ہمیں جلد اس دنیا سے جانا ہے۔جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے وقت
بھی ان کوبھول جاتا ۔جولوگ زندگی کے قیمتی وقت کی قدر کرتے ہیں اور احتیاط
،شعور،اور اچھی عادتوں کے ذریعے وقت کو اچھے اور کامیاب طریقے سے گزارتے
ہیں ۔وقت بھی ایسے لوگوں کو ان کے جانے کے بعد تک یاد رکھتا ہے ۔وہ لوگ
مرکربھی نہیں مرتے۔وہ اپنے کارناموں میں زندہ رہتے ہیں ۔اچھائی اور برائی
ہر جگہ موجود ہے کوئی بھی انسان برا نہیں ہوتا ہرانسان اپنے عملوں کی وجہ
سے اچھا یا برا بنتا ہے ۔جس کے(عمل)اچھے وہ اچھا ہوتا ہے اور جو کوئی برے
عمل کرے تو وہ برا۔دور حاضر میں ہمیں شدید ضرورت ہے کہ یہ بات اچھی طرح
سمجھ لیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے ۔میں نے بھی اس موضوع پر بہت سوچا
میری سمجھ میں ایک ہی بات آتی ہے کہ ہم ساری دنیا کے مسلمان اﷲ کے دین سے
دور ہونے کی وجہ سے مشکلات میں گھر چکے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں دنیا کی وہ
تمام برائیاں بھی موجود ہیں اسلام جن سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔جس طرح ہم ہر
سال بڑے شوق سے وہلنٹائن ڈے مناتے ہیں ۔جب کہ مسلمانوں کا اس دن سے دور دور
تک کوئی تعلق نہیں بنتا ۔ ویلنٹائن خالصتا غیر مذہب لو گوں کا تہوار
ہے۔اپنے مطالعے کے مطابق میں وہلنٹائن کا ذکر کرتا چلوں کے یہ کب سے اور
کیوں منایا جاتا ہے ۔پہلی دفعہ یہ دن 14فروری 269ء کو ایک سائن وہلنٹائن
نامی شخص کی نسبت سے منایا گیا۔کہاجاتاہے کہ سائن وہلنٹائن کوعیسائیت
پرایمان کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی۔وہ عیسائیت کی مقررہ حدود سے
بالاتر ہوکرخدمات انجام دیا کرتا تھااورسنا ہے پسند کی شادیاں کرواتے وقت
اپنے مذہب کی حدود سے تجاوزکرتا تھا۔پھانسی کے بعد اس کے حامی یہ دن تعزیت
کے طور پر منایا کرتے تھے ۔بعدازاں یہ دن یوم محبت کی شکل اختیار کرگیا
کیونکہ پھانسی سے پہلے جب وہلنٹائن جیل میں تھا تو جیل میں اسے جیلر کی
بیٹی سے عشق ہوگیا ا اور وہ جیلر کی لڑکی کو عشقیہ خطوط لکھا کرتا تھا ْ۔
جیلر کی لڑکی سائن کے لیے گلاب کے پھول لایا کرتی تھی۔سائن وہلنٹائن کے وہ
خطوط اس کی پھانسی کے بعد منظر عام پر آئے تو برطانیہ میں ان خطوط کو بہت
پذیرائی ملی جس کے بعد برطانیہ میں یہ دن تہوارکی شکل اختیار کرگیا ۔شروع
کے دنوں میں یہ تہوار صرف برطانیہ میں منایا جاتا تھاپھر پھیلتا ہوا ہم تک
بھی آپہنچا۔برطانیہ کے نوجوان اس دن محبت کے گیت گاتے ہیں (غیر محرم عورت
ومرد کی محبت میں ایک دوسرے کو پھول،کارڈاورعشقیہ خطوط لکھتے ہیں۔ قصہ
مختصر کہ اس واقعہ سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ جاننے ،سمجھنے کے
باوجود کے یہ تہوار ہمارا نہیں ہے پھر بھی ہماری نوجوان نسل اس دن کو
وہلنٹائن ڈے کے طور پر بھرپورطریقے سے مناتی ہے ۔کتنی شرم کی بات ہے کہ ہم
خود کو مسلمان کہتے ہیں او راﷲ تعالی کے احکامات بھی نہیں مانتے ۔ وہلنٹا
ئن ڈئے مناکرلوگ اپنی نفسانی خواہشات کوعملی جامہ پہناتے ہیں۔جس کی وجہ سے
آج ہم بحیثیت مسلم قوم دنیامیں ذلیل و رسواہورہے ہیں۔و ہلنٹا ئن ڈئے جیسے
واہیات تہوار منا کرہم صرف قیمتی وقت کازیاں ہی نہیں کررہے بلکہ اس طرح
ہماری نوجوان نسل تیزی سے جنسی بے راروی کاشکار ہو رہی ہے۔یہ ہمارے لیے
مقام فکر ہے کہ ہم کافروں کے تہواربڑے جوش وخروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ قارئین
یہ ویلٹئائن ڈے ہر سال 14فروری کو منایا جاتا ہے۔مسلم والدین سے اپیل ہے کہ
اپنے بچوں کواس بد بخت تہوار سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔ اپنے بچوں کو اپنے
مذہب یعنی اسلام کے قریب لانے کی کوشش کریں تاکہ نوجوان اپنا قیمتی وقت
ضائع کرنے کی بجائے اپنے مستقبل کوبہتر بنانے میں خرچ کریں۔ہمارا مستقبل
روشن ہو ۔جب تک نوجوان نسل قرآنی تعلیمات سے واقف نہیں ہوگی تب تک معاشرے
میں پھیلی ہوئی برائیاں ختم نہیں ہونگی - |