انسانی معاشرے کوبہتراورخوبصورت بنانے کے لئے
ضابطے،قوانین ازحدضروری ہوتے ہیں۔جس معاشرے میں نظم وضبط،قوانین اورضابطے
نہ ہوں وہ انسانوں کامعاشرہ نہیں کہلاتاہے۔معاشروں کے ارتقا،تعمیروترقی کے
لئے ضابطوں اورقوانین کااجرا،نفاذاورآگاہی بہت ضروری ہے۔پاکستان میں بھی
گوکہ ہرمسائل کے متعلقہ قوانین موجودہیں لیکن یہ قوانین انگریزی زبان میں
ہیں جبکہ ہمارے ملک کی بڑی آبادی انگریزی زبان سے نابلدہے۔وجہ یہ ہے کہ
ہمارے ہاں اُردو زبان میں پاکستان کے مروجہ قوانین کی تحقیق کے حوالے سے
بہت کم لکھا گیا ہے۔ اِس حوالے سے انتہائی تحقیق پر مبنی اعلی عدلیہ کے
فیصلہ جات اور قانونی نظائر کی عام فہم تشریحات کا مجموعہ کتابی صورت میں
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے تحریر کیا ہے۔ کسی بھی معاشرے
میں اِس کے باسیوں کے مابین رہنے سہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے بُرے
برتاؤ کے کچھ اصول و ضوبط ہوا کرتے ہیں۔یہ اصول و ضوابط ہر معاشرے کے لیے
علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ گویا ہر معاشرہ یا گروہ ایک دوسرے سے الگ الگ
زندگی کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہوتا ہے۔اِسی رہن سہن کے نفاذ کے سبب ہی
اِس معاشرے کی پہچان ہو پاتی ہے۔جو لوگ اپنے اپنے معاشرے کی پیروی کرتے ہیں
وہی لوگ اِس معاشرے کے پُرامن شہری کہلاتے ہیں۔ پُر امن شہری سے مُراد پُر
اُمن ماحول اورپُرامن ملک ہے۔ اِس لیے عالمی سطح پر اقوام عالم کے مابین طے
پاجانے والے معاہدے عالمی اصول و ضوابط کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جنہیں
اقوام عالم کے مابین تعلقات کو پُرامن بنانے کے لیے زیر مطالعہ لایا جاتا
ہے۔
گویا آج کا انسانی ذہن اِس بلند ترین سطع تک رسائی حاصل کر چُکا ہے جہاں سے
آسانی سے ہر کوئی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ قوانین سے عدم آگہی و عدم شناسی
ناقابل قبول بہانہ ہے۔ یہ بات نہ صرف انسانی نقطہ نظر کی ترقی بلکہ معاشری
ترقی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ مگر وہ معاشرے جہاں لوگوں میں ناخواندگی کی
شرح بہت زیادہ ہو، علم کی کمی ہو، سکولوں میں تعلیم ادھوری چھوڑنے کا رحجان
بہت زیادہ ہو،بنیادی انسانی حقوق سے محرومی بلکہ ناواقفیت بھی عام ہو۔ وہاں
کون قانون طلب و رسد کی بات کرے اگر کوئی کرے بھی تو کس حد تک کرسکتا
ہے۔جبکہ تیسری دُنیا کے ممالک نو آبادیاتی نظام کا حصہ رہے ہیں۔اِس لیے اِن
ممالک میں ایک بڑا مسئلہ قومی زبان کا بھی ہے۔ ایسے ممالک میں عام طور پر
حکمران ممالک کی زبان میں کاروبار ِ حکومت چلایا جارہا ہوتا ہے۔جس کے سبب
اِن ممالک کے عوام علوم وفنون اور خصوصاً قانونی معاملات اور اپنے بنیادی
حقوق سے نابلد رہتے ہیں یا انہیں بزور نابلد رکھا جاتا ہے۔ صاحبزادہ میاں
محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کوگزشتہ تین دہائیوں کی پیشہ ورانہ زندگی میں
اپنے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ماحول نظر آیا ہے۔
ہماری % 70 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔کروڑوں افراد
صحت و صفائی اور پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں۔ ناخواندگی کی سطح خطے
کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں سب سے بلند ہے۔ سکول و کالج کی بنیادی تعلیم
سے لاکھوں افراد دور رہنے پر مجبور نظر آتے ہیں ان حالات میں کون کس طرح
اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے؟۔ جبکہ اِسے ا پنے حقوق سے آگہی اور ملکی
قوانین کی سوجھ بوجھ ہی نہ ہو۔ قانون کی تمام کتب غیر ملکی زبان میں ہونے
کے سبب کوئی پھر کیوں نہ کہے گا کہ مجھے قانونی کُتب تک رسائی نہیں ہوئی یا
مجھے ملکی قانونی کا علم نہ تھا۔
جی ہاں! جب تک ریاست اپنے شہریوں کو ترقی کے یکساں ذرائع و مواقع فراہم
نہیں کرتی تو کو ئی کس طرح ایسے امتیازی سلوک والے معاشرہ کو پُرامن معاشرہ
یا پُرامن ملک کہہ سکتا ہے۔کچھ ایسے ہی خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے زیرِ
نظر کتاب" قانون کی حاکمیت " خصوصاً قومی زبان اُردو میں تحریر کی گئی
ہے۔جس میں خصوصیت کے ساتھ ایسے قانونی موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے جو
کہ عوام النا س کی زندگی کے قریب ہیں۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ نے کتاب میں انتہائی ریسرچ کے حامل مضامین لکھے ہیں ۔ یہ کتاب نہ
صرف قانون کے طالب علموں، صحافت سے وابستہ افراد اور عام قارئین کے لیے
انتہائی سود مند ہے بلکہ اِس کے ساتھ ساتھ یہ کتاب سول جج، ایڈیشنل سیشن
جج، پبلک پراسیکیوٹرز کے امتحانات میں بھی ممدو معاون ثابت ہو گی۔ کتاب
کوعرفان لاء بکس پبلشرز ٹرنر روڈ نزد ہائی کورٹ لاہور نے شائع کیا ہے اور
اِس کو دیدہ زیب صفحات پہ چھاپا گیا ہے۔صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کا آبائی شہر لاہورہے۔ اِن کے والد محترم صاحبزادہ میاں
عمردراز ؒمرحوم اُستاد تھے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے
اپنا بچپن اپنے ماموں جان حضرت حکیم عنائت قادری نوشاہیؒ کے زیر سایہ
گزارا۔گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سرگودہا سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج آف کامرس
سرگودہا سے بی کام کیا۔ معاشیات ، بزنس ایڈمنسٹریشن، ایجوکیشن میں
ماسٹرزکیے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیااور ایل ایل ایم کریمنالوجی
کی ڈگری کے بھی حامل ہیں۔ اسلاملک لاء میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ بھی کیا ہے۔
دو دہائیوں سے قانون کی درس و تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔عشق رسول ﷺ کی سرخیل
تنظیم انجمن طلبہء اسلام سے تعلق رہا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے عظیم صوفی
بزرگ حضرت حافظ میاں محمد اسماعیل ؒ المعروف حضرت میاں وڈا صاحبؒ لاہوری کے
خانوادے سے تعلق ہے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کے دادا حافظ
میاں محمد اسماعیلؒ اور پرداد حضرت حافظ میاں محمد ابراہیمؒ متحدہ ہندوستان
میں پولیس کے محکمہ میں بطور افسر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ان کا خاندان
صدیوں سے لاہور میں رہائش پذیر ہے۔ لاہور میں بھاٹی دروازے کے بائیں جانب
مسجد ابراہیمؒ اِن کے پرداد اکے نام سے منسوب ہے جو اُنھوں نے تعمیر
کروائیتھی۔ صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ مختلف قومی و بین الا قوامی
اخبارات و جرائدمیں سماجی اور قانونی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔کالم
نگاروں کی عالمگیر تنظیم ورلڈکالمسٹ کلب کے سنئیر نائب صدر ہیں۔ انسانی
حقوق کے حوالے سے انتہائی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیٹی
پنجاب لاہور ہائی کورٹ بار کے چیئرمین ہیں اور تحفظ ناموس رسالتﷺ کمیٹی
لاہور بار ایسوسی ایشن کے بانی چیئرمین ہیں۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ سلسلہ قادریہ نوشاہیہ میں حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری
نوشاہی ؒ آف زاویہ نوشاہی سرگودہاکے خلیفہ مجاز ہیں۔ گویاصاحبزادہ اشرف
عاصمی نجیب الطریفین ہیں،وہ صرف اعلی پائے کے قانون دان ہی نہیں بلکہ معلم
بھی ہیں اس لئے وہ معاشرے کے نباض ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں جوبھی
لکھادرددل سے لکھاہے اورلکھنے کاحق اداکیاہے۔ان کی کتاب پاکستان کے علمی
میدان میں نیااضافہ ہے جوکہ یقیناہمارے ملک کے تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے
مفیدثابت ہوگا۔ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان کاہرشخص اس کتاب کامطالعہ کرے
تاکہ وہ ایک اچھااورمفیدشہری ثابت ہوسکے۔ |