الحمدﷲ ہم سب مسلمان ہیں اور ایک مسلم معاشرہ کا حصہ ہیں
۔ہمارا مذہب اسلام ہمیں ہر بھلائی پر عمل کرنے اور ہر برائی سے بچنے کا حکم
دیتا ہے ۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں اس سلسلے میں واضح ہدایات
موجود ہیں۔اگر ہم سب اپنے دین کی خوبیوں کو کھلے دل کے ساتھ اپنالیں تو
ہمارا ماحول و معاشرہ جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔ آج دنیا میں ہر طرف بگاڑ
اور فساد کی فضا عام ہے۔ اس کا اصل سبب یہی ہے کہ ہم بحیثیتِ مجموعی
تعلیماتِ شرعیہ کو پسِ پشت ڈال کر اپنی من مانی زندگی گذار رہے ہیں۔
اسلام ہمیں جن اچھی باتوں کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے ان میں سے ایک شرم و
حیا ہے۔ حیا تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام ، صحابہ کرام رضوان
اﷲ علیہم اجمعین اور نیک لوگوں کی مشترکہ صفت ہے اور اﷲ رب العزت کی ایک
عظیم نعمت ہے۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حیا
ساری کی ساری خیر و بھلائی ہے۔ حیا ایک ایسی خوبی ہے جو انسان کو بری باتوں
اور کاموں سے روکتی ہے اور نیک کاموں کی انجام دہی پر آمادہ کرتی ہے۔ حیا
ہمارے ایمان کا ایک اہم حصہ ہے۔ ایک حدیث شریف میں ارشادِ نبوی ہے کہ بے
حیائی جس چیز میں ہوتی ہے اسے عیب دار بنا دیتی ہے جبکہ حیا جس چیزمیں ہوتی
ہے اسے مزین کردیتی ہے۔
شرم و حیا کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد
میں بچپن سے ہی اچھی اور بری باتوں کا شعور پیدا کریں۔ بچوں کو رشتوں کی
پہچان کروائیں۔اپنوں اور غیروں کے رویوں کا فرق سمجھائیں۔بچوں کو ان کے جسم
کے نازک اور حساس اعضاء کی شناخت کروائیں۔عموماََ اس حوالے سے غفلت کا
مظاہرہ کیا جاتا ہے اور ان موضوعات پر بات کرنے کو ہمارے معاشرے میں معیوب
سمجھاجاتا ہے۔ حالانکہ اسلامی فقہ کے ماہر فقہاء کرام تحریر فرماتے ہیں کہ
چار سال سے کم عمر کا بچہ خواہ لڑکا ہو یا لڑکی اس کا جسم ستر نہیں۔ پھر
چار سال سے زائد عمر کا ہوجائے تو اس کا ستر اس کی آگے پیچھے کی شرم گاہیں
ہوتی ہیں اورجب وہ بالغ ہوکر حدِ شہوت کو پہنچ جائے تو اس کا ستر بالغ کے
ستر کی طرح ہوگااور اس کے ذمے وہی احتیاط لازم ہوگی جو بالغ مرد و عورت کے
ذمہ ستر اور پردے کے حوالے سے لازم ہوتی ہے۔ اسی طرح بچپن میں بچوں کو ایک
بستر میں ساتھ سلایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام میں دس سال کی عمر کے بعد
بچوں کے بستر الگ کردینے کا حکم ہے ۔ایک حدیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ کوئی
مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے اور کوئی عورت دوسری عورت کے
ساتھ ایک کپڑے میں سوئے نہ لیٹے(مسلم شریف)۔علمِ نفسیات نے بھی ایک ساتھ دو
مردوں یا دو عورتوں کا لیٹنا غلط ثابت کردیا ہے کیونکہ اس کا نتیجہ خوشگوار
نہیں ہوتا۔ یہ چیز شہوت میں ہیجان کا باعث ہو جایا کرتی ہے جس سے کبھی مشت
زنی کی طرف رغبت ہوتی ہے اور کبھی اغلام بازی کی تحریک پیدا ہوتی ہے جو
نہایت مبغوض افعال ہیں اور ان کے ارتکاب پر نصوصِ شرعیہ میں لعنت کی گئی
ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ بچے کوبچپن ہی سے شرم و حیا کا جتنا زیادہ عادی
بنا دیا جائے اتنا ہی اچھا ہوگا۔اس حوالے سے والدین کی جانب سے بچوں کو
آگاہی دی جا نی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں مختلف لمس کی پہچان کروانی
چاہیے۔انہیں بتانا چاہیے کہ مناسب لمس کیا ہوتا ہے؟ مثلاََ جس محبت سے ماں
باپ اور گھر کے دوسرے بڑے دادا،دادی، چچا، ماموں وغیرہ بچوں کو پیار کرتے
ہیں اورشفقت سے ہم آغوش ہوتے ہیں، اس میں اور کسی اجنبی کے پیار کے انداز
میں فرق ہوتا ہے۔اسی طرح جس انداز سے اساتذہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں یا دوست
باہم گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے ہیں، اس میں اور کسی غیر فرد کے اندازِ محبت
اور لمس میں بعض اوقات علیحدہ احساس ہوتا ہے۔
کسی اجنبی کا ایسا لمس جس میں بچوں کو خوف محسوس ہو، شرم آئے یا پریشانی
لاحق ہو توفوراََ یہ بات اپنے والدین یا اساتذہ کے علم میں لانی چاہیے۔اسی
طرح بچوں کے جسم کے حساس اعضاء کو اگر کوئی بھی ہاتھ لگائے تو انہیں ہوشیار
ہوجانا چاہیے کہ کچھ گڑبڑ ہونے والی ہے۔ ایسی صورت میں بچوں کو فوراََ شور
مچانا چاہیے اور ایسی جگہ سے بھاگ کر کسی محفوظ جگہ یعنی گھر ہوتو والدین
کے پاس، اسکول ہو تو اساتذہ کے پاس اور اگر کوئی پارک یا تفریح گاہ ہو تو
فوراََ رش والی جگہ پر پہنچ جانا چاہیے۔ اگر کوئی شخص کسی بات یا حرکت کے
حوالے سے بچوں کو تاکید کرے کہ یہ بات کسی کو نہ بتانا تو جان لینا چاہیے
کہ ضرور یہ کوئی غلط بات ہے اور لازمی طور پر یہ بات والدین یا اساتذہ کو
بتانی ہے۔
ان احتیاطی تدابیر کے استعمال سے جہاں ایک طرف بچے شرم و حیا کی صفت کو
اپنائیں گے وہیں دوسری جانب کسی نامناسب بات یا واقعہ سے محفوظ بھی رہ سکیں
گے۔ والدین اور اساتذہ کی بھرپور توجہ اور تربیت اس ضمن میں نہایت مفید
ثابت ہوسکتی ہے۔ |