اخبار سے اچھی خبر تلاش کرنا اگرچہ جوئے شیر لانے
کے مترادف ہے، تاہم مجھے اگر پسند کی خبر نہ ملے جس پر کالمانہ تبصرہ کر
سکوں تو میں بہت سی خبروں کی بین السطور میں سے اپنے کام کی بات ڈھونڈ
نکالنے کی کوشش کرتا ہوں۔کبھی اچھی خبر نہ ملے تو اس کا مطلب نہیں ہے کہ
’’غیر اچھی‘‘ خبرکالم کے معیار پر پورا نہیں اتر رہی ہوتی، بلکہ ’پِٹ سیاپا‘
کے زمانے میں تو کالم کے لئے بظاہر وہی خبر زیادہ اچھی ہے، جس پر تنقید
وغیرہ کے مواقع زیادہ ہوں۔ خیر آج کا کالم ایک ایسی ہی خبر پر مشتمل ہے، جو
میں نے سعی بسیار کے بعد ایک خبر کی ذیلی سُرخی سے کشید کی ہے۔ گزشتہ روز
ایوانِ بالا میں ہونے والی کارروائی کی خبر پڑھی تو اس جملے نے میرا راستہ
روک لیا، ’’․․․․سکول داخل نہ ہونے والے بچوں کی تعداد کم ہو کر دو کروڑ
28لاکھ پر آگئی․․․․‘‘۔ خبر کی تفصیل دیکھی تو سینیٹ میں یہ اپنے وفاقی وزیر
تعلیم انجینئر بلیغ الرحمن کا دیا گیا بیان تھا۔ ایسا تاثر اُبھرا کہ یہ
تعداد موجودہ حکومت کے آنے سے قبل کروڑوں میں تھی، جو اَب کم ہو کر محض سوا
دو کروڑ رہ گئی ہے، مگر یہ تاثر زائل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی، کیونکہ
کہا گیا تھا کہ یہ تعداد پہلے دو کروڑ 65لاکھ تھی جو حکومت کی شبانہ روز
محنتوں سے 2016,17میں کم ہو کر دو کروڑ 28 لاکھ رہ گئی۔
ایک ڈیڑھ برس میں 37لاکھ کے قریب سکول سے باہر پھرنے والے بچوں کو سکول میں
لے آنا کسی معرکے سے کم نہیں۔ اگر حکومت اسی جوش و جذبے اور ہمت سے کام
لیتی رہی ، اور ہر سال چالیس لاکھ کے قریب سکول سے باہر والے بچے سکولوں
میں داخل ہوتے رہے تو تقریباً اگلے چھ برس میں کوئی بچہ سکول سے باہر نہ
ہوگا۔ تاہم یہ اندازہ لگانا ذرا مشکل ہے کہ ایسے خاندانوں میں آنے والے چھ
سال جنم لینے والے بچوں کی تعداد کتنی ہوگی، اور ان کے سکول داخلے کا کیا
بنے گا؟ لیکن جس سست روی سے سکولوں سے باہر والے بچے داخل کئے جارہے ہیں،
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگلے پانچ برس بعد بھی اسی طرح کا اعلان کیا جائے
گا کہ ’’․․سکول سے باہر بچوں کی تعداد کم ہو کر دو کروڑ کی کم تر سطح پر
آگئی ہے․․‘‘۔ بات ترجیحات کی ہے، انہی وزیر تعلیم نے اول روز سے ہی یہ دعویٰ
کیا تھا کہ بجٹ میں تعلیم پر دو کی بجائے چار فیصد رقم خرچ کی جائے گی، مگر
یہ دعویٰ ابھی تک بیانات کی سطح سے اوپر نہیں جا سکا، یقینا وزیر موصوف کے
پاس کافی دلائل موجود ہیں، مگر بات دلائل کی نہیں نتائج کی ہے۔ وہ بہت اچھی
طرح جانتے ہیں کہ فنڈز کی تقسیم حکومت کے ہاتھ میں ہے اور پیسہ وہیں خرچ
ہوتا ہے، جہاں حکمران پسند کرتے ہیں ۔
تعلیم کا محکمہ چونکہ اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں صوبوں کی تحویل میں جا
چکا ہے، اس لئے صوبوں کی مرضی کہ وہ کونسا نصاب رکھیں، اور کیا معیار قائم
کریں، تعلیم کے فروغ کے لئے کیا اقدام کریں۔ اس ضمن میں وفاقی وزیرتعلیم کے
پاس صرف بیانات دینے کا اختیار ہی ہوتا ہے، لہٰذا وہ اپنے اختیار سے بخوبی
نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ عمل پیرا بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اس پر
زیادہ کام ہوا ہے، ظاہر ہے پنجاب میں اپنی حکومت ہے، کام زیادہ ہی ہوا ہوگا،
مگر وفاقی حکومت ہونے کے ناطے حکومت کا فرض ہے کہ وہ صوبوں کے ترقیاتی
منصوبوں میں بھر پور مدد فراہم کرے۔ گزشتہ دنوں اِنہی وزیر صاحب نے یہ بیان
جاری کیا تھا کہ’’․․․․ حکومت بہت جلد تعلیمی پالیسی کا اعلان کر دے گی
․․․‘‘۔ اس جملے میں سب سے اہم بات ’’بہت جلد‘‘ہے۔ دو لفظوں کا یہ وعدہ اتنا
خوبصورت ہے، کہ اس سے امید کی کرن بھی روشن رہتی ہے، انسان مایوسی سے دور
رہتا ہے، انتظار کی کوفت سے بھی بچت ہو جاتی ہے۔ اپنے وفاقی وزیرتعلیم مذہب
سے لگاؤ رکھنے والے آدمی ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، پارلیمانی نظام کا
مناسب تجربہ بھی رکھتے ہیں، ان کے والد محترم میاں عقیل الرحمن بھی قومی
اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں، اس لئے اُن کی کی ہوئی باتوں کو جھوٹ قرار دینا
اور ان پر تنقید کرنے کا کوئی جواز بنتا نہیں۔ ہاں اگر ’’بہت جلد‘‘ کا وعدہ
کئی سالوں پر محیط ہوجائے اور اس دوران سکول جانے کی عمرکے بچے لڑکپن کی
سرحدیں عبور کرلیں تو یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہ سب کچھ سابقہ
حکومتوں کا کیا دھرا ہے، موجودہ حکومت کو تو کام کرنے کی مہلت ہی نہیں دی
گئی۔ |