وطن عزیز پاکستان خوبصورت جگہوں ہاؤسنگ سوسائیٹیوں ،شاپنگ
مال ،میرج ہالز وغیرہ کے قریب اسے مقامات بھی لازم ہوتے ہیں جہاں ان عمارات
سے عارضی سکون حاصل کرنے والے لوگ کی واش روم فضلہ جمع ہوتا ہے اوروہاں
کوئی جانا پسند نہیں کرتا ایسی ہی کچھ اشرف المخلوق رہائش پزیر ہوتی ہے
جنکو ہم خانہ بدوش یا چنگڑ کہتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کا وہ مظلوم طبقہ ہے
جو جنکو ہم انسان نہیں سمجھتے ۔۔خانہ بدوش خاندان سالہا سال سے چھپڑ کنارے
زندگی بسرکرتے آ رہے ہیں کوڑا سے رزق تلاش کر کے کوڑے کے ڈھیر پر رہنا اور
پھر اسی کوڑے میں مر جانا ان لوگوکا خاصہ ہے ۔اک سوال ذہن میں آتا ہے کہ
٢٠١٨جیسے جدید دور یں بھی یہ لوگ ٢٠٠سال پیچھے کیوں ہیں ؟زاتی مشاہدات کے
بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی اور جدت شعور
سے آتی اور شعور تعلیم سے ممکن ہے لیکن ہمارے ہاں جو خانہ بدو ش خاندان ہیں
انکو تو شائد شعورکا لفظ بھی نا سننے کو ملا ہو اسکی بڑی وجہ یہ ہے شعور
ابلاغ سے ملتا اورابلاغ کا اک بڑا زریعہ سکول پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا ہے
سکول میں ان لوگو کو جانے کی اجازت فقط اس وقت ہوتی ہے جب چھٹی ہو جائے
کیوں وہاں کا کوڑا اٹھا کر ان لوگو نے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہوتا ہے رہی
بات الیکٹرونک میڈیا کی تو ان کی بستیوں میں بجلی نام کی بچیاں تو ملتی ہیں
لیکن لائٹ نہیں سیالکوٹ کے ١١نوجوانوں نے مل کر اسی المیہ کو حل کرنے کی
کوشش کی اورخانہ بدوش بستی مکینوں کے لیئے ٩سکول قائم کر دیئے جن میں بالغ
و نا بالغ تعلیم حاصل کر سکتے ہٰیں ان ١١نوجوانوں نے اپنی ٹیم کا نام
وفاٹرسٹ رکھا ہے ضلع بھر میں ٹوٹل ٣٠مقامات پر جھگی بستیاں ہیں ٩ مقامات پر
سکول قائم ہو چکے ٥ مقامات پر سکولوں کا افتتاح ١ مارچ ٢٠١٨ کو ہوگا ان شاء
اللہ آنجناب سے التماس ہے آپ بھی اپنے ارد گرد نظرانداز کیئے ہوئے طبقہ کا
خیال رکھیں - |