کمزور معیشت ۔۔۔ملک کیسے چلے گا

کاغذی سرمایہ محض کاغذ کا ٹکڑا ہی ہو پر اس کی پشت پہ حکومتوں کا وعدہ ہوتا ہے جو اسے قانونی شکل دے دیتا ہے جب یہ کاغذی سرمایہ دنیا کے قیمتی اثاثے خریدنے کا عمل شروع کرتا ہے تو پرائیوٹائزیشن کے ذریعے قومیائی گئی دولت، سامراجی ہاتھوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔جدید دور نے پوری دنیا کو سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن کے ذریعے ایک اکائی کے تحت رہنے پر مجبور کردیا ہے۔جو ممالک صرف خام مال برآمد کرنے کی پوزیشن میں رہتے ہیں انھیں مشینری بھی درآمد کرنی پڑتی ہے.اس لیے اس کی بیرونی تجارت قرضوں کی محتاج رہتی ہے آپ اپنے سے طاقتور فریقین سے صرف تجارتی دوستی کی بنیاد پر متوازن تجارت کا تصور نہیں کرسکتے پاکستان بھی انہی ممالک میں شامل ہیجو خام مال برآمد کرکے بیرونی تجارت میں ہمیشہ خسارے کا سامنا کرتا ہے پھر اسے آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کے حصول کے لیئے انہی کہ ہدایات کے مطابق معاشی منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے ہمارے بیشتر قومیائے ادارے اور بینک نجکاری شعبے کی تحویل میں دیئے جاچکے ہیں.اسحاق ڈار ہمیشہ غلط گوشوارے پیش کرتے آئے ہیں جن کی حقیقت اب کھل کرسامنے آچکی ہے ۔بیرونی مالی امداد بھی جو اب تک حاصل کی گئی ، اس کی مد میں بھی پاکستان نے عالمی مارکیٹ میں رائج قیمت سے اضافی وصولی کی گئی۔حال ہی میں حکومت نے قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کے لیے مزید 50 کروڑ ڈالر کا قرضہ لے لیا جس کے باعث پاکستان پر واجب الادا قرضوں میں اضافہ ہو گیا۔پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ملکی زر مبادلہ ذخائرمیں کمی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ذخائر تیرہ ارب ڈالر سیبھی کم ہوگئے، غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔

اسٹیٹ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق نو فروری کو ختم ہونے والے ہفتے میں زرمبادلہ ذخائر میں بائیس کروڑ ستر لاکھ ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی، کمی کے بعدمرکزی بینک کے ذخائر کا حجم بارہ ارب تیراسی کروڑ چالیس لاکھ ڈالررہ گیا ہے۔اعداد وشمار کے مطابق زرمبادلہ ذخائر میں نو ہفتے سے مسلسل کمی ہورہی ہے، زرمبادلہ ذخائر میں ہوتی کمی کی وجہ غیر ملکی ادائیگیاں اور قرضے ہیں، ملک پر واجب الادا قرضوں کا حجم نواسی ارب ڈالر کی بلند۔ ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔دوسری جانب جولائی تا جنوری صرف ایک ارب اڑتالیس کروڑ ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ملک میں آئی، غیر ملکی سرمایہ کاری میں 66 فیصد چینی سرمایہ کاری ہے۔ چینی سرمایہ کاری کا حجم ایک ارب ڈالر سے زائد رہا۔معاشی ماہرین کے مطابق زرمبادلہ ذخائر اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ملکی معیشت کی بیرونی کمزوریوں کی عکاس ہے، غیر ملکی قرضوں کے ادائیگیوں کے باعث زرمبادلہ ذخائرمیں کمی کا سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ ہے جس پر قابو پانے کے لیے حکومت نیایک بار پھر مزید قرض لے لیا۔وزارت خزانہ ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے چینی کمرشل بینک سے 50 کروڑ ڈالر قرضہ لیا۔ قرضے پر شرح سود ساڑھے 4 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

جنوری میں حکومت نے 17 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کے کمرشل قرضے لیے۔ رواں مالی سال میں لیے گئے قرضوں کا حجم 6 ارب 60 کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔اقتصادی ماہرین کے مطابق غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی زر مبادلہ ذخائر میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ کم کرنے کے لیے غیر ملکی مزید مہنگے قرضوں کا حصول ناگزیر ہے انکم ٹیکس کا شعبہ ہمارا تنزلی کا شکار ہے عوام کو بالواسطہ ٹیکس کے نیچے دابا جارہا ہے. اس پر مستزاد اسحاق ڈار ہی کی جانب سے ان خساروں اور قرضوں کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لیے سکوک بانڈز اور یورو بانڈز کا اجراء بھی معشیت کے لیے سودمند ثابت نہیں ہوا ۔ 2.5ارب ڈالر کے یورو بانڈز 8.25فیصد سود پر جاری کیے گئے تھے اس سے زیادہ اضافہ عالمی مارکیٹ میں کبھی نہیں دیکھا گیا وہاں اسکی شرح3 فیصد سے زیادہ نہیں. اسحاق ڈار آج کل کورٹ کے احاطے میں اکثر دل پہ ہاتھ رکھے داخل نظر آتے ہیں.کیا پتہ کسی دن ان کے ہاتھ تسبیح کے دانوں پہ بھی تھرکتے نظر آجائیں۔پاکستان کا اشرافیہ طبقہ تو ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ہے. انکم ٹیکس بھی ادا نہیں کرتا لہذا اس خلاء کو پر کرنے کے لیے عام آدمی کی زندگی سیلز اور دوسرے ٹیکس لگاکر اجیرن کردی جاتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے عام آدمی تمام مسائل کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ آئے دن نت نئے ٹیکس کا بوجھ بھی اٹھائے اور یورو بانڈز کا اصل زر اور سود بھی ادا کرے۔

ملکی قرضوں کی ادائیگی کے ضمن میں پاکستانی عوام ابھی تک صرف سود ہی ادا کررہی ہے پھر کس بنا پر آپ اس کمزور معیشت کو ترقی کی راہ پہ گامزن کرسکتے ہیں یا یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ ہم کبھی نہ کبھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ضرور شامل ہوں گے حقیقت تو یہ ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہم ترقی پذیر ممالک کی صف میں بھی کھڑے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔قرضوں کا یہ بڑھتا اضافہ ایک دن ہمیں ملک کے بہترین قیمتی اثاثے فروخت کرنے پر مجبور نہ کردے. زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ ہم اپنی خود مختاری دوسروں کے پاس پھر ایک بار گروی رکھ دیں گے اور عوام کسی اور بہتر سامراج کے غلام ہوجائیں گے کیونکہ پاکستان کے پاس تو قدرتی اور معدنی وسائل جیسے ہیں ہی نہیں.وہ کرومائٹ، کاپر، سونا، چاندی، ماربل،کوئلہ جیسی اور بھی بہت دوسری معدینات نہ نکال سکتا ہے نہ برآمد کرسکتا ہے نہ اسکلڈ لیبر ہے نہ ٹیکنالوجی نہ سرمایہ نہ اس کی مینجمنٹ تو پھر کس کام کی آپ کی لیڈر شپ اور مینڈیٹ کہیں حالات مزید جان بوجھ کے اس لیے تو خراب نہیں کیے جارہے تاکہ موجودہ حکومت کو ہٹانے کے اقدام کو غلط ثابت کیا جاسکے اور آنے والی حکومت اس میں کوئی بہتری لانے کی کوشش کے بھی قابل نہیں رہ پائے ایسے میں باادب ہوکے اپنی قابل عزت حکمرانوں سے بس ایک ہی کمزور احتجاج کرسکتی ہوں۔آپ بھی سوچیں کہ اتنی کمزور معیشت کے ساتھ یہ ملک کب تک چلے گا؟؟؟

Dr Rabia Akhtar
About the Author: Dr Rabia Akhtar Read More Articles by Dr Rabia Akhtar: 17 Articles with 11636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.