پولیس کو چکمہ دینے کا اس کے پاس یہ بہترین طریقہ تھا
کہ بچی کی نعش کو گندے پانی کے جوہڑ میں پھینک دے کیونکہ ایک روز قبل ہی
پولیس اور ریسکیو1122 کی ٹیمز نے اس جوہڑ میں سرچ آپریشن کو مکمل کرلیا تھا
اور وہاں سے کچھ حاصل نہ کرسکے تھے لہذا اس نے اسے سب سے زیادہ محفوظ خیال
کرتے ہوئے اپنی چچا زاد 6 سالہ عاصمہ جمیل کی نعش کو پانی کے جوہڑ میں
پھینک دیا اور گھر چلا آیا یہ درندہ صفت نوجوان 18 سالہ علی حیدر تھا جس نے
دو روز قبل فحش مووی دیکھی کی جس کی بنا پر اس پرشیطانیت طاری ہوئی اور
خباثت سے بھرے اپنے دل و دماغ میں چھائی جنسی ہوس مٹانے کیلئے اس کوئی نہ
ملا تو اس نے آسان ترین اور سستاترین شکار اپنے چچا کی بیٹی چھ سالہ عاصمہ
جمیل شیخ کو ہی اپنی درندگی کا نشانہ بنانے کی ٹھانی اور اسے کھانے کی
چیزوں کا لالچ اور جھولے کا جھانسہ دے کرگھر کے قریب بھانے میں لے گیا اور
اپنی ہوس کا شکار بنادیا تکلیف کی شدت کے باعث ننھی معصوم کلی بے ہوشی کی
وادیوں میں چلی گئی اس صور ت حال پراس ظالم درندے پر گھبراہٹ طاری ہوئی
پکڑے جانے کے خوف اور ڈر نے اسے مزید شیطان بنادیا اور گلادبا کر معصوم کلی
کو موت کی وادی میں سلادیا اور اس قریب کے قبرستان میں موجود جھاڑیوں میں
چھپادیا خود بچی کو تلاش کرنے والوں میں شامل ہوگیا تاکہ کسی کو اس پر شک
نہ ہوسکے۔اور پھر مناس موقع پاکراپنے بھائی کی مدد سے مظلوم بچی عاصمہ کی
نعش کو گندے پانی کے جوہڑ میں پھینک دیا جہاں پر وہ پھول کر دو دن کے بعد
اوپر سطح پر تیرتی ہوئی دکھائی دی پولیس کو اطلاع دی گئی جس پر پولیس نے
نعش کو قبضے میں لے لیا
اسی دوران میں پولیس کی روایتی ناقص کارکردگی اور نااہلی کا سلسلہ متوازی
جاری رہا شک کی بنا پر مختلف افراد، عزیز اور رشتہ داروں کو پولیس نے پوچھ
گچھ کیلئے حراست میں لے لیا اور پھر شکاری کے پیر تلے بیٹر آنے کے مصداق
ملزم علی حیدر نے زبان کھول دی اور یوں لودھراں پولیس کی بلے بلے ہوگئی وہ
پولیس جو کہ پانچ رو ز تک تلاش بسیار کے بعد اسے اندھا قتل قرار دے چکی تھی
اب اپنے آپ کو ہیرو کے طور پر پیش کررہی تھی اور اپنی اعلی کارکردگی کا بگل
بجارہی ہے اور تو اور اس مسئلے کے حل کیلئے ایک جے آئی ٹی بھی بنا دی گئی
ہے جو کہ ایک بھونڈا مذاق ہے بے سروپا ہے اور اس کا مقصد سوائے اس کے کچھ
اور دکھائی اور سجھائی نہیں دیتا کہ معاملے کو طول دیا جائے حالانکہ ملزم
اقبال جرم کرچکا ہے اپنی درندگی کو مان چکا ہے تو پھر جے آئی ٹی بنا کر اس
معاملے کو لٹکانے اور طول دینے کی بات سمجھ سے بالاتر اور انصاف کے منافی
دکھائی دیتی ہے یہ تو بالکل اسی طرح ہونے جارہا ہے جس طرح زینب قتل کیس میں
عمران نے اقرار جرم کے بعد اب پھر سے جرم کی صحت سے انکار کردیا ہے اور کیس
کو ایک نئے موڑ کی جانب موڑ دیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیدھی سیدھی
تفتیش کے بعد اس کا جرم ثابت کرکے اسے سزا دلوانے کا بندوبست کیا جائے خواہ
مخواہ معاملات کو طول دینے سے انصاف کی نفی مجرم کو سہولیت اور مظلوم کی دل
شکنی و حوصلہ شکنی کے سوا کچھ نہیں۔زینب سے لے کر عاصمہ تک کے سفر میں
پولیس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے وہ پولیس چاہے پنجاب کے کسی بھی
شہر کی ہو لاہور کی ہو کہ قصور کی یا پھر لودھراں کی۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملک بھر میں ہونے والے پے در
پے ان لرزہ خیز واقعات کا وقوع پذیر ہونا منظر عام پر آنا جہاں ہمارے
معاشرے کی اخلاقی پستی، گراوٹ کی عکاسی کرتا ہے وہیں پر ہماری پولیس کی
کارکردگی اور حکمرانوں کی نااہلی پر بہت سے بڑے بڑے بدنما کالے دھبے بھی
نمایاں کرتا ہے سوال جنم لیتا ہے کہ اس قسم کی قبیح افعال کے محرکات کیا
ہیں ایسے کونسے امور ہیں جن کی وجہ سے جنسی درندگی کے واقعات میں کئی گنا
اضافہ ہورہا ہے آئے روز ملک بھر میں 20 سے زائدواقعات منظر عام پر آرہے ہیں
کہاں پر ہماری اخلاقی تربیت میں کمی رہ گئی ہے کیوں ہمارے دل و دماغ اور
جسموں سے انسانیت اور ایمانیت جیسے انمول تفکرات ختم ہوتے جارہے ہیں اپنے
فرائض سے پہلوتہی کیوں برتی جارہی ہے کیوں ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں
اور اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی کیوں پولیس میں
ابھی تک اپنے فرائض حقیقی معنوں میں انجام دینے کا جذبہ حلول نہ کرسکا کیوں
واقعہ کی شدت کے بعد ہی ہم لکیر پیٹنے کیلئے میدان میں آتے ہیں کیوں قبل
ازیں ہی ان تمام گناہوں جرائم اور ان کے مرتکب افراد پر گرفت نہیں کی جاتی-
دور حاضر میں ہم آسمان کی بلندیوں کو چھونیکی بات کرتے ہیں ستاروں پر کمند
ڈالنے کا شور کرتے ہیں سیاروں کو مسخر کرنے کا راگ الاپتے ہیں لیکن ہم
اخلاقیات کی پستی اور گہرائیوں میں ڈوبتے جارہے ہیں تعلیم ٹیکنالوجی اور
انٹر نیٹ سے یقینا دنیا مستفیدہوئی ہے ہورہی ہے اور اس کے ثمرات سمیٹتی رہے
گی لیکن ہم بحیثیت پاکستانی قوم کے ان جدید علوم سے کچھ حاصل نہ کر پائے ان
کے منفی اثرات کو اپنے اوپر غالب کرلیا اور ان کی تاریکیوں کو مسافر بن گئے
اور ان تاریک اندھیروں سے بچانے کیلئے ہمارے حکمران ہمارے آباؤاجداد اور
ہمارے نام نہاد کرتا دھرتاؤں نے بھی کچھ نہ کیا شعور و آگہی کیلئے کوئی
فورم دیئے گئے نہ بنائے گئے اور نہ ہی بتائے گئے ہماری قوم نے ہر بننے والے
اور استعمال ہونے والی پروڈکٹس ایجاد ہونے والے ٹیکنالوجیز اور نافذ العمل
طریقہ کار کو ہمیشہ غلط انداز اور غلط سمت میں استعمال کیا جو کہ ہماری
ذہنی اخلاقی جسمانی روحانی و ایمانی تنزلی اور پستی پر دلیل کرتی ہے ضرورت
اس امر کی ہے کہ بچوں کو ایسا ماحول فراہم کریں کہ جس کی ہماری اپنی خواہش
ہے اپنے اکابرین بالخصوص اسلامی شعائر کو اپنانے کی ترغیب دی جائے پیار و
محبت اور شفقت کے رویوں کو عام کیا جائے اور ضرورت پڑنے پر سختی سے بھی
احتراز نہ برتا جائے تشدد اور نفرت انگیز امور سے اجتناب برتا جائے بچوں کے
تحفظ کیلئے ضابطہ اخلاق مروج کیا جائے قانون اور پالیسیاں بنائی جائیں اور
مرتکب افراد کے خلاف سخت سے سخت قوانین بنا کر نافذ العمل کئے جائیں اور
درندوں کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ کوئی زینب کوئی فاطمہ یا کوئی عاصمہ
درندگی کی بھینٹ نہ چڑھ سکے۔ |