کرپشن

تحریر ۔۔۔ ماصل خان
اس نفسانفی کے دور میں ہر ایک انسان پیسوں کی دوڑ میں لگا ہوا ہے وہ یہ تمیز بھول چکا ہے کہ یہ پیسہ حلال طریقے سے آرہا ہے یا حرام ،بس پیسہ آنا چاہیے وہ کسی طریقے سے ہی کیوں نہ آرہا ہو ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ صحابہ میں بیٹھے صحابہ سے فرما رہے تھے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ میری امت کے کچھ لوگوں کی نیکیاں پہاڑوں سے زیادہ ہونگی ہوں مگر وہ جہنمی ہونگے تو صحابہ نے فرمایا کہ یا رسول اﷲ کیا وہ شرابی ہونگے تو نبیؐ نے فرمایا کہ نہیں تو کیا وہ زانائی ہونگے تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ زانائی بھی نہیں ہونگے تو صحابہ نے فرمایا کہ جہنمی کس وجہ سے ہونگے تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ اس بات کی تمیز بھول چکے ہونگے کہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے حرام کا ہے یا حلال کا بس پیسہ آنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں صدر سے لیکر چپڑاسی سب اس دھندے میں ملوث ہیں۔ کسی بھی محکمہ میں چلے جاؤ وہی رشوت کا بازار گرم ہوگا اگرکسی ایم این اے، ایم پی اے کسی اثر و رثوق رکنے والے کی سفارش ہے تو پھرای لیگل کا م لیگل بھی ہوجائے گااور اگر کوئی عام شہری اپنا لیگل کام کروانے آئے تو بغیر رشوت کے اُسکو ایسے چکروں میں ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ آخر کار رشوت دینے پر مجبور ہوجاتا ہے اور پھر رشوت دیکر وہ اپنا کام کروا لیتا ہے۔ اس طر ح ہماری صحافت میں بھی کالی بھیڑیں گھس چکی ہیں جبکہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اگر اس کو صحیح سمجھا جائے لیکن کچھ صحافی ایسے بھی ہیں جن کو میں صحافی کہنا بھی جرم سمجھتا ہوں۔ دنیا کے ظالموں سے تنگ ہو کر اگر کوئی شخص ان صحافیوں کے ہا تھ چڑھ جاتا ہے تو رہی سہی کسر وہ پوری کردیتا ہے۔ اس لیے عوام میں صحافیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے جب ایسے صحافیوں سے پوچھا جائے کہ آپ نے یہ کیوں کیا تو کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں ہم کو تو اداروں نے کھینچ کررکھا ہوا ہے اگر ہم ایسا نہ کرتے تو کیا کریں اداروں کو بھی تو چلنا ہے کچھ اداروں نے بھی اپنے اداروں کو کنجری کا کوٹھا۔ مینوں نوٹ ویکھا میرا موڈ بنے جو آدمی جتنا زیادہ پیسہ دے گا اُسی کو کارڈ جاری کیا جائے گا اور جو اوریجنل صحافی ہیں نا تو وہ اداروں کو چلا سکتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی کو بلیک میل کرسکتے ہیں وہ تو صرد دونمبر صحافیوں کے لیے خبریں نکلنے تک محدود رہ گئے ہیں میں اپنی بات حبیب جالب کے کلام پر ختم کرتا ہوں۔
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
بے نام سے سپنے دکھلا کر
اے دل ہر جانہ پھسلا کر
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چا ند یہاں نہ نکلا کر
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
ہاں کہنے کو وہ خادم ہیں
یہاں لاٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
یہاں راقم سارے لکھتے ہیں
قوانین یہاں نہ ٹکتے ہیں
ہیں یہاں پرکاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
یہاں ڈالر ڈالر ہوتی ہے
کسوٹی ہے جی ڈی پی اور
کچھ لوگ ہیں عالیشان بہت
اور کچھ کا مقصد روٹی ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
امید کو لے کرپڑھتے ہیں
پھر ڈگری لے کر پھرتے ہیں
جب جاب نہ ان کو ملتی ہے
پھر خودکش حملے کرتے ہیں
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے
اور فوج کا راج ہی سچا ہے
کھوتا گاڑی وال کیوں مانے
جب بھوکا اس کا بچہ ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525330 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.