موچی خاتون ’’فائزہ گل‘‘

ضعیف العمر عورت جو جوتوں کی مرمت کا کام کرتی ہے
اس کی رہائش اور جائے روزگار فٹ پاتھ پر ہے

ضعیف العمر عورت جو جوتوں کی مرمت کا کام کرتی ہے
اس کی رہائش اور جائے روزگار فٹ پاتھ پر ہے

برنس روڈ سےایک سڑک آئی آئی چندریگرروڈ کی جانب آتی ہےایس ایم لا کالج سے گزر رہا تھا توفٹ پاتھ پرایک ضعیف العمر خاتون پر نظر پڑی جو، میلی کچیلی چادرپر بیٹھی ، جوتوں کی مرمت کررہی تھی ۔اس کے قریب صرف ایک بڑا بکس راور چند اوزار رکھے ہوئے تھے۔ وہ بڑی مہارت سے پھٹے پرانے جوتوں کو سی رہی تھی ۔موچی کے کام کو خالصتاً مردانہ اور سخت جان لوگوں کا کام تصور کیا جاتا ہےجس میںچمڑے کے جوتے اور چپلوں کی سلائی کرتے ہوئے طاقت و توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، پچپن سالہ موچن، فائزہ گل کو دیکھ کر حیرانی کے ساتھ خوشی بھی ہوئی، ایسا محسوس ہوا کہ’’ صنفی تفریق ‘‘ ختم ہورہی ہے۔ہم نے اپناتعارف کراتے ہوئے پوچھا، کیا آپ اپنے بارے میں ہمارے قارئین کو کچھ بتانا پسند کریں گی؟۔ جس حیرت سے ہم نے انہیں جوتیوں کی سلائی کرتے دیکھا تھا، اس سے کہیں زیادہ حیرت سے انہوں نے ہمیں دیکھتے ہوئے کہا ، کیا بتاؤں ، بیٹا، مجبوری بہت کچھ کراتی ہے۔ یہ کہہ کر چند ثانیے خاموش رہنے کے بعد فائزہ گل نے اپنی داستان سناتے ہوئے کہا، میراتعلق پشاورکے ایک نواحی گاؤں سے ہے، جوچارسدہ کےنزدیک واقع ہے،میںخاندانی موچی نہیں ہوں۔ یہ کام مجبوری میں کررہی ہوں۔انہوں نے بتایا کہ میرے بڑے بھائی پشاور میں گاڑیوں کی مرمت کا کام کرتے تھے۔میں نے چھٹی تک گھر میں تعلیم حاصل کی، مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن پختون روایات کے مطابق گاؤں کی لڑکیوں کا اسکول جانا ممنوع ہے ۔17 سال کی عمر میں میری کی شادی بابر گل نامی شخص سے ہوگئی جوبھائی کےساتھ ورک شاپ میں کام کرتا تھا، اس کے ماں باپ مرچکے تھے،سوائے ایک بہن کے اس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا،وہ بھی قبائلی علاقے میں رہتی ہے۔ پہلےبیٹے کی پیدائش کے بعد میرے شوہر کو آمدنی بڑھانے کی فکر ہوئی توانہوں نے کراچی آنے کا قصد کیا، میں نے بہت منع کیا لیکن مجھے اور بچے کو چھوڑ کروہ کراچی چلے آئے، جہاں بعض رشتہ داروں کی مدد سے انہیں ایک موٹر گیراج میں کام مل گیا۔بعدازاںسٹی اسٹیشن کے پاس ریلوے کالونی میں مکان کرائے پر لے کر مجھے بلالیا۔ جب میں کراچی آئی تو میرے لیے یہاں کا ماحول بالکل اجنبی تھا، ہرچیز پشاور سےمختلف تھی، مجھے یہاں کےرہن سہن کے مطابق خود کو ڈھالنے میں کافی عرصہ لگا۔
چند لمحے توقف کے فائزہ گل نے کہا، میرے آٹھ بچے پیدا ہوئے، لیکن نامعلوم بیماری کا شکار ہوکر چھ بچے دنیا سے چلے گئے، ایک بیٹی سائرہ اور بیٹا ضوان باقی بچے۔بچوں کے مرنے کا مجھے اور شوہر کوگہرا صدمہ تھا، لیکن وہ اپنا غم بھلا کر میری دل جوئی کی کوششیں کرتے رہتےتھے۔شادی کےچندسال بعد، میرے والد اور والدہ کا روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا، میںاپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے پشاور گئی توبھائی نے اس موقع پر کافی ضد کی کہ واپس نہ جاؤ، ہمارے گھر میں رہو، لیکن میرے شوہر راضی نہیں ہوئےاور وا پس کراچی آگئے۔ ریلوے کالونی میں مخلوط آبادی ہے، جس میں ان پڑھ طبقے کی تعدادآج بھی زیادہ ہے۔ علاقے کے بچے والدین کی عدم توجہی کے باعث آوارہ گردی کرتے یا کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر کھیلا کرتے تھے۔ بابر ، جب گیراج چلے جاتے تو میرابیٹا رضوان بھی محلے کے لڑکوں کے ساتھ باہر نکل جاتا اور سارا دن کھیلتا رہتا۔ میں بہت منع کرتی ، لیکن لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیا تھا، جس کے بعدمیں نے اپنی ساری توجہ بیٹی پر مرکوز کردی۔ اسے تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا،شروع میں، میں نے اسے گھر پر ہی پڑھایا، بعد میں ریلوے کالونی کے ایک گرلزاسکول میں داخل کرادیا۔ بیٹے کو بھی پڑھانے کی کافی کوشش کی، اسے اسکول میں بھی داخلہ دلوایالیکن آدھی چھٹی میں، وہ وہاں سے بھاگ کر دوستوں کے ساتھ سڑکوں پر پھرتا رہتا تھا۔ میں نے اپنے شوہر سے اس کے بارے میں بات کی ، تو پہلے انہوں نے اس پر سختی کی، ٹیوشن بھی رکھی لیکن اس کی پڑھائی میں عدم دل چسپی دیکھتے ہوئے، وہ اسے اپنے ساتھ گیراج لے جانے لگے۔

دس سال قبل، بابر کو کالا یرقان ہوا،بہت علاج کرایا، لیکن بیماری میں افاقہ نہیں ہوا ،چند ماہ موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعدوہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ شوہر کے انتقال پر بھائی کراچی آئے اور سوئم کے بعدمجھے اور بچوں کوپشاور لےجانے کی بہت کوشش کی لیکن میں نے جانے سے انکار کردیا، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ غصے میں واپس چلے گئے۔ بابر کے مرنے کے بعد میں بالکل بے آسرا ہوگئی، ان کے جو رشتہ دار یہاں رہتے تھے، انہوں نے بھی ملنا چھوڑ دیا۔ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں رہا، بیٹا سترہ سال کاہوگیا تھا، اس نے باپ کے ساتھ موٹر مکینک کا کام سیکھاتھا، لیکن اس کا کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ کچھ دنوں تک گھر کی چیزیں بیچ کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتی رہی، ادھر مکان کا کرایہ بھی چڑھنے لگا۔محلے میں اکثریت غریب لوگوں کی تھی۔ میری شناسا خواتین میں سے چند گھروں میں کام کرتی تھیں۔ میں نے ان سے اپنی پریشانیوں کا ذکر کیا ، ان میں سے ایک خاتون مجھے اپنےساتھ باتھ آئی لینڈ لے گئی، وہاں ایک وکیل صاحب کے بنگلے پر مناسب تنخواہ پر گھر کی صفائی اور برتن دھونے کی ملازمت مل گئی۔ میری بیٹی نے میٹرک پاس کرکے ایس ایم کامرس کالج میں داخلہ لے لیا ، اس کے تعلیمی مصارف بھی بڑھ گئے تھے جب کہ باپ کے مرنے اور میرے کام پر جانے کے بعد بیٹے کو روک ٹوک کرنے والا کوئی نہ تھا، وہ میری غیرموجودگی میں دوستوں کو گھربلانے لگا، جو وہاں بیٹھ کر نشہ کرتے، بیٹا بھی ان کی صحبت میں بگڑتا گیااور منشیات کا عادی ہوگیا۔میں جب تھکی ہاری گھر واپس آتی تو بجائے مجھ سے ہمدردی کرنے کے، پیسے مانگتا، میں نہیں دیتی تو برا بھلا کہتا، میری بیٹی اسے منع کرتی تو اسے زدوکوب کرتا، گھر سے بھاگنے کی دھمکیاں دیتا۔مجبوراً اسے رقم دینا پڑتی، جس سے وہ منشیات خرید کر لاتا اور ساری رات نشہ کرتا۔ صبح دیر تک سوتا ، میں بیٹی کو کالج بھیج کررضوان کا ناشتہ تیارکرتی ، اس کے بعد ریل کی پٹڑیوںکے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی پیدل باتھ آئی لینڈ جاتی، بس سے جانے کی صورت میں دو گاڑیاں بدل کر جانا پڑتا۔

مجھے اللہ کی ذات سے امید تھی کہ میرے بیٹے کو ایک روز اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوگااور وہ غلط صحبتیں چھوڑ کر میرا سہارا بنے گا۔ اس کی عادت و اطوار دن بہ دن بگڑتے گئے ،وہ نشے کی لت پوری کرنے کے لیے گھرکا سامان اونے پونے بیچنے لگا۔ ایک روز میں نے اپنا صندوق کھول کر دیکھا جس میں میرا سونے کازیور رکھاتھا، جو میرے شوہر نے شادی کے موقع پر مجھے دیا تھا، وہ نہیں تھا۔ میں نے بیٹی سے پوچھا لیکن اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جب بیٹے سے پوچھا ، پہلے تو انکارکرتا رہا پھر مشتعل ہوکر جھگڑنے لگا، بات اتنی بڑھی کہ اس نے مجھے گالیاں دیں اور زدوکوب کیا، بیٹی بھی میری مدد کو نہیں آئی۔سرپر چوٹ لگنے کی وجہ سے میں ایک ہفتے تک نوکری پر نہ جاسکی، اس کے بعد جب وہاں گئی تو ان لوگوں نےجواب دے دیا۔بیٹے کے ہاتھوں زیور ملیامیٹ ہونے اور اس کے ناروا سلوک کا مجھے گہراصدمہ تھا، گھرواپس آکرمیری طبیعت بے انتہا خراب ہوگئی ، بیٹی مجھے لے کر سول اسپتال گئی ،ڈاکٹروں نے میرے پھیپھڑوں میں خرابی بتائی، لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے علاج معالجے سے قاصر تھی اس لیے وہ مجھے گھر واپس لے آئی۔ اب میں گھروں میں نوکری کرنے کے بھی قابل نہ رہی، میرے مکان کے سامنےایک بوڑھا شخص رہتا تھا جو موچی تھا، ایک روز میں نے اس کو اپنے گھر بلایا اور اس کا کام سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، پہلے تو وہ انکار کرتا رہا کہ عورتوں کے لیے یہ پیشہ مناسب نہیں ہے لیکن جب میں نے زیادہ ضد کی تو وہ راضی ہوگیا۔ وہ کلفٹن کے علاقے میں تین تلوار کے نزدیک فٹ پاتھ پر بیٹھتا تھا، میں بھی اس کے ساتھ جانے لگی۔ اسے کام کرتا دیکھتی اور وہ بھی مجھے جوتے اور چپلیں سلائی کے لیے دیتا۔ میری بیٹی کو معلوم ہوا تو وہ سخت ناراض ہوئی ، اس کا کہنا تھا کہ یہ نیچ لوگوں کا پیشہ ہے اور لوگ اس سے وابستہ افراد کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے ۔ میرے استاد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ پیشہ کوئی بھی حقیر نہیں ہوتا ۔ میںاپنے استاد کے ساتھ چھ سال تک کا م کرتی رہی، اس کے بعد اس قابل ہوگئی کہ الگ ٹھیہ لگاسکتی تھی، لیکن اوزار خریدنے کے لیے رقم کی ضرورت تھی ، جو میرے پاس نہیں تھی۔ ایک روز وہ وکیل صاحب جن کے گھر پر باتھ آئی لینڈ میں کام کرتی تھی، اپنے ملازم کے ساتھ جوتا سلوانے آئے،مجھے پہچان کر میری خیریت پوچھی۔ ان سے میں نے اپنی ضرورت کا ذکر کیا، انہوں نے دوسرے روز مجھےگھر بلایا اور اتنی رقم قرض حسنہ کے طور پر دے دی جس سے میں ضروری سازوسامان خرید سکتی۔ موچی بابا نے مجھے لکڑی کا ایک بڑا بکس ، سوئی کنڈی ، زمبور پلاس، قینچی،چھوٹی کیلیں (کوکے)، رمبی (جس سے چمڑا کاٹتے ہیں)دھاگا، موم، لوہے کا فرما ( جس پر جوتے اور چپل رکھ کر کیلیں ٹھونکتے ہیں)،درجن کے قریب کالی اور براؤن پالش کی ڈبیہ ، کالے اور براؤن برش ، سمبا( جس سے جوتے میں سوراخ کرتے ہیں) دلوائے۔ اس کے دوسرے دن انہوں نے ایس ایم لاء کالج کی دیوار کے ساتھ گداگروں اور مختلف اشیاء بیچنے والوں کے ساتھ چادر بچھا کرمجھے بٹھایا، میرا بکس کھول کر جوتے مرمت کرنےکا سامان نکال کر رکھا۔ میری بیٹی اسی راستے سے گزر کر کالج آتی جاتی تھی، اس نےجب مجھے یہاں جوتوں کی سلائی کرتے دیکھا تو اس راستے سے گزرنا چھوڑ دیا۔ابتدا میں مجھےیہاں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس مقام پر بیٹھنے والے لوگوں نے مجھے بہت تنگ کیا، انہیں میرا یہاںکام کرنا گوارا نہیں تھا، دوسرے ان میںسے بعض افرادمجھے پولیس یا ایجنسیوں کا مخبر خیال کرتے تھے، لیکن میرے استاد، موچی بابا نے میرا بہت ساتھ دیا۔ میں یہاں دن بھرکام کرتی ہوں، جوتوں کی مرمت اورچمڑے کی چپلیں سیتے ہوئے اکثر میری انگلیاں زخمی ہوجاتی ہیں ، سوئی کنڈی کو چمڑے کے آر پار کرنے میں کافی طاقت صرف کرنا پڑتی ہے۔ شروع میںکبھی تو اس اس قدر آمدنی ہوجاتی کہ میں مہینے کا راشن خریدنے اورمکان کے کرائے کی ادائیگی کے بعد اپنے بیٹے کی نشے کی ضرورت پورا کرنے کے لیے بھی پیسے دیتی۔ لیکن بعض دنوں میں کم گاہک آتے جس سے معمولی آمدنی ہوپاتی۔ گھر جاتی تو بیٹا پیسے مانگتا اورجب میں اس کامطالبہ پورا نہیں کرپاتی تو وہ طیش میں آکر مجھے بری طرح مارتا تھا۔ میری بیٹی گریجویشن کرنے کے بعد ایک بینک میں ملازم ہوگئی۔ملازمت ملنے کے بعد اس کے طیور بھی بدل گئے، بیٹی کے نزدیک ماں کا احترام ختم ہوگیا ۔ ایک روز رات کو جب میں گھر پہنچ کر کھانا پکارہی تھی کہ میرا بیٹا مجھ سے پیسے مانگنےکچن میں آیا۔ اس روز میری آمدنی کم ہوئی تھی اس لیے اس کی فرمائش پوری نہ کرسکی۔ جس پر غصے میں آکر اس نے مجھے کچن میں ہی مارنا شروع کردیا ،بیٹی بھی بجائے مجھے بچانے کے، اس کے ساتھ شامل ہوگئی۔ اس دوران ، بیٹے نے مجھے دھکا دیا اور میںجلتے ہوئے چولہے پر اوندھی گرگئی جس کے نتیجے میں میرا سینہ جل گیا، میری چیخ و پکار سن کر محلے کے لوگ آگئے ، ان سے رضوان اور سائرہ نے کہا کہ ماں کو چکر آگیا تھا، جس سے وہ چولہے پر گر کر جل گئی۔ مجھے اسپتال لے جایا گیا ، جہاں برنس وارڈ میں ایک ماہ تک زیر علاج رہی، وہاں کا خرچہ ایک سماجی تنظیم نے اٹھایا۔ اس دوران مجھے اطلاع ملی کہ میرا بیٹا ڈکیتی کی واردات کرتے ہوئے گرفتار ہوگیا۔ میں اسپتال سے چھٹی لے کر سیدھے تھانے گئی، پولیس والوں نے اس پر بری طرح تشدد کیا تھا۔ رضوان نے رو رو کر مجھے وہاں سے چھڑوانے کے لیے کہا۔میںبیٹی کے ساتھ باتھ آئی لینڈ، وکیل صاحب کے گھر گئی، انہوں نے شخصی ضمانت پر اسے رہائی دلوائی۔ گھر واپس آکر کچھ دن تو بیٹا میرے ساتھ ٹھیک رہا،گیراج پر کام کرنے لگا۔ میں ڈیڑھ ماہ سے گھر بیٹھی تھی اس لیے میرے پاس سارے پیسے ختم ہوگئے تھے، بیٹی کو جو تنخواہ ملتی وہ مکان کا کرایہ اور راشن ڈلوانے کے بعد اپنے اکاؤنٹ میں جمع کراتی۔کچھ دنوں بعد رضوان نےگیراج کی نوکری چھوڑدی اور دوبارہ برے دوستوں کی صحبت میں بیٹھنے لگا۔ ایک روز رات کووہ نشے کی حالت میں گھر آیا اور مجھ سے پیسے کا مطالبہ کیا، میرے انکار پر اس نے مجھے گھر سے نکال دیا، بیٹی نے بھی اسی کا ساتھ دیا۔ جب میں باہر نکلی تو میرے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، میں ریلوے کا پل عبور کرکے آئی آئی چندریگر روڈ پر ٹی اینڈ ٹی بلڈنگ کے فٹ پاتھ پر چادر بچھا کر بیٹھ گئی۔ ساری رات میں وہاںبیٹھی رہی، دل میں خوف بھی تھا ۔ صبح میں اپنے ٹھیے پر آکر کام کرنے لگی، اس دوران میری آنکھوں سے آنسو بھی جاری تھے۔ میرے ساتھ بیٹھے لوگوں نے میری حالت دیکھ کر رونے کا سبب دریافت کیا،میں نے جب انہیں اپنی اولاد کی زیادتیوںکے بارے میں بتایا تو انہیں بہت دکھ ہوا۔ ایک بوڑھے شخص نے کہا کہ وہ لی مارکیٹ کے علاقے میں ایک فٹ پاتھ پر سوتا ہے، تم بھی وہیں اپنے سونے کا ٹھکانہ بنا لو۔ کام سے فارغ ہونے کے بعدمیں اس کے ساتھ چلی گئی اور لی مارکیٹ پہنچ کر چادر بچھا کر بیٹھ گئی۔ فٹ پاتھ پر اور بھی لوگ تھے، جن میں ملنگ ٹائپ کےافراد کی تعداد زیادہ تھی۔رات دو بجے پولیس کی ایک موبائل آئی اور اس میں سے ایک افسر نے مجھے بلا کر کہا کہ ’’اماں یہاں کیوں بیٹھی ہو، یہ خطرناک لوگوں کا علاقہ ہے جو برے کام کرتے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ دھر لی جاؤگی‘‘، جب میں نے انہیں بتایا کہ میرے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے تو انہوں نے میرے بارے میںوہاں لوگوں کو ہدایت دی اور چلے گئے۔ وہ ساری رات میں نے جاگ کر گزاری ، صبح آٹھ بجے پیدل چلتی ہوئی اپنے ٹھیے پر آگئی، رات کو روزانہ میں سونے کے لیے بابا کے ساتھ لی مارکیٹ چلی جاتی تھی۔ دوروز بعد میرا بیٹا اور بیٹی یہاں آئے اور مجھے زبردستی گھر لے گئے۔ بیٹی توصبح اپنی ڈیوٹی پر چلی گئی، بیٹے نے مجھ سے دو روز کی کمائی کے سارے پیسے لے لیے اور اپنے دوستوں کے ساتھ چلا گیا، میں اپنے کام پر آکر بیٹھ گئی ۔ شام کو کام ختم کرکے میں گھر گئی تو بیٹا میرا انتظار کررہا تھا۔اس نے مجھ سے پیسے مانگے، میں نے کہا کہ صبح تو تمہیں دیئے تھے، یہ سنتے ہی اس نے ڈنڈا اٹھا کر مجھے مارنا شروع کردیا، میں گھر سے نکل کر سیدھے آرام باغ تھانے پہنچی۔ ڈیوٹی افسر مجھے جانتا تھا کیوں کہ وہ روزانہ مجھے کالج کے فٹ پاتھ پر موچی کا کام کرتے دیکھتا تھا۔اس نے میری حالت دیکھ کرپولیس موبائل میں ڈال کر فوری طور سے اسپتال پہنچایا اور مرہم پٹی کرانے کے بعد دوبارہ تھانے لایا۔ اس نے میری روداد سن کرپولیس اہل کاروں کو میرے بیٹے کو گرفتار کرنے بھیجا،وہ اسے لے کر آئے، میری بیٹی بھی وہیں آگئی ۔جب ڈیوٹی افسر نے اسے میری شکایت کے بارے میں بتایا تو اس نے کہا کہ ’’ میری ماں کا ذہنی توازن درست نہیں ہے، باہر گر گئی ہوگی جس کی وجہ سے سر پھٹ گیا۔پولیس افسر نے جب بیٹے سے درشت رویہ اختیار کیا تو اس نے اپنی غلطی تسلیم کرلی۔ میری بیٹی نے معاملہ ختم کرانے کے لیے اس افسرکوکچھ رقم دی، جس کے بعد انہوں نے میری طرف سے ایف آئی آر بھی درج نہیں کی۔ میرے بچے مجھے تھانے چھوڑ کر گھر چلے گئے اور میں لی مارکیٹ آگئی۔ صبح سویرے میں اپنے گھر گئی ، میرے دستک دینے پر بیٹی نے دروازہ کھولا، وہ مجھے دیکھ کر بھڑک گئی اور چیختے ہوئے کہا کہ آئندہ اس گھر میں قدم نہیں رکھنا۔جب سے میری زندگی فٹ پاتھوں پر گزر رہی ہے۔ اتنا کہہ کرفائزہ نے چند منٹ خاموشی اختیار کرلی،پھر کچھ یوں گویا ہوئی، میرے اس مقام پر بیٹھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پوسٹ آفس ، ٹیلی فون ملازمین اور عجائب گھر کے ملازمین کی رہائشی کالونیاں، برنس روڈ کے فلیٹ اور دیگر آبادیاں ہیں جن کے مکین اپنے جوتوں اور چپلوں کی مرمت کے لیے میرے پاس آتے ہیں۔ صبح کے وقت روزانہ ہزاروں افراد یہاں سےگزرتے ہیں جن میں چند لوگ اپنے جوتے پالش کرواتے ہیں۔ اکثر خواتین کی راہ چلتے ہوئے چپل ٹوٹ جاتی ہے ، وہ انہیں سلوانے ،بچے اپنے اسکول کے بیگ مرمت کرانے کے لیے لاتے ہیں۔ یہاں قرب وجوار میں کوئی دوسرا موچی نہیں ہے اس لیے گردونواح کے رہائشی اپنے پھٹے ہوئے جوتوں کی مرمت کے لیے میرے پاس ہی آتے ہیں۔ پانچ سے دس ٹانکے لگانے کے بعد جوتے یا چپل کی سلائی مکمل ہوجاتی ہے،بعض دفعہ سلائی کے وقت سپورٹ کےلیے چمڑا بھی لگا ناپڑتا ہے۔میں جوتے کی ایڑیوں اور تلے بھی درست کرتی ہوں لیکن تلے میںسول لگانادقت طلب کام ہے،پورا اپر الگ کرکے سول پر رکھ کرچاروں طرف سلائی کرنا پڑتی ہے یا چپکانا پڑتا ہے، اس سے جوتا ری کنڈیشن ہوجاتا ہے۔میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ میں بازار سے مہنگےقسم کےسول خرید کر لاؤں، حالانکہ اس میں معاوضہ زیادہ مل جاتا ہے۔ بعض افراد تعویز لے کر آتے ہیں جن کے لیے میرے پاس کور موجود ہیں۔ انہیں چمڑے کے کور میں رکھ کر اس کا منہ بند کرکے سلائی کرتی ہوں۔جب میں نے یہ پیشہ اختیار کیا تھا تو روزانہ درجنوں گاہک آتےتھے، اب ان کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ صورت حال صرف مجھے درپیش نہیں ہے بلکہ شہر کے دیگر موچیوں کے ساتھ بھی یہی مسائل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر سمیت شہر کےمختلف علاقوں میںٹھیلے اور فٹ پاتھوں پر درآمد شدہ،سستے چائنیز اور استعمال شدہ جوتے فروخت ہوتے ہیں، لوگ انہیں خرید کر پھٹے پرانے جوتے کچرے میں پھینک دیتے ہیں۔ مجھے فٹ پاتھ پر رہتے ہوئے کئی ماہ ہوچکے ہیں۔ اب میں نےاپنے سونے کاٹھکانہ بدل لیا ہے۔لی مارکیٹ میںرات میری جاگتے ہوئے گزرتی تھی ، مختلف اقسام کے خوف ستاتے تھے،تین بجے شب میری آنکھ لگتی تھی۔ لی مارکیٹ کا فٹ پاتھ چھوڑ کرچند روز سے میں نے اسی جگہ پر اپنے سونے کا ٹھکانہ بنالیا ہے،یہاں زیادہ سکون ہے ۔ بکس ایک طرف کھسکا کر ایک کونے میں چادر بچھا کر لیٹ جاتی ہوں جب کہ شال اپنے بدن پر ڈال لیتی ہوں،یہی میرا بستر ہے اور یہی جائے روزگار۔ یہاں سے صبح کے وقت جو نئے لوگ گزرتے ہیں وہ مجھے گداگر سمجھ کر چند سکے پھینکتے ہوئےچلےجاتے ہیں۔

میں اپنی کمائی سے اتنے پیسےجمع کرنا چاہتی ہوں کہ سر چھپانے کا ٹھکانہ کرائے پر لے سکوں۔ میں موچی کےپیشے سے بھی جان چھڑانا چاہتی ہوں ، میرے بوڑھے بدن کو آرام کی ضرورت ہے لیکن میرے پاس آرام کرنے کا ٹھکانہ بھی نہیں ہے ۔میرے بھائی کو میرے حالات کا علم ہے لیکن موچی کاپیشہ اپنانے کا سن کر انہوں نےمجھ سے تعلق ختم کرلیاہے۔ میں نے شوہر کے انتقال کے بعداپنے بچوں کو پالنے کے لیے محنت مزدوری کی لیکن میں ان کی تربیت ٹھیک طور سے نہیں کرپائی جس کی وجہ سے آج میںشہر کے فٹ پاتھوں پر تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔

rafi abbasi
About the Author: rafi abbasi Read More Articles by rafi abbasi: 208 Articles with 191230 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.