تحریر: نصرت جبین ملک
ہو سکتا ہے کہ اگلے پچاس،سو برس بعد کا انسان ایسی مشین رکھتا ہو جو وہ
سونے سے پہلے اپنے سر پر لگا دے تو رات کو آنے والا خواب اس میں ریکارڈ ہو
جایا کرے ٰایک جانب سے آدمی کو فیکس مشین میں ڈالا جا ئے تو دوسری طرف سے
اس کا ڈپلیکیٹ نکل آئے،یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کی اگلی نسلیں چاند پر زمیں
خرید کر وہاں گھر بنا ئیں گداگروں کا آپ کی آمدنی کے لحاظ سے ریٹ فکس ہو جا
ئے،بچے وین پر سکول جانے کی بجائے جہاز پر سکول جایا کریں،ہر قسم کے کام
کاج کے لیٔے آپ کومشینی خادم کی خدمات حاصل ہوں،تمام طرح کی اجناس ہر موسم
میں کاشت کی جا سکیں،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی رہائش پاکستان میں ہو دن
کی ڈیوٹی امریکہ میں انجام دیتے ہوں سیکنڈشفٹ اٹلی میں لگاتے ہوئے رات کو
وطن واپس لوٹے ہوں،کوئی ایسی دوا ایجاد ہو جائے کہ جسمانی وزن ایک گولی کے
استعمال سے کم ہو جائے ہمارے ملک کی ہر سڑک موٹر وے کی طرز کی بنی ہوئی
ہو،یہ سب ممکنات میں شامل ہے کیونکہ ہم ایسے دور کی پگڈنڈی پر کھڑے ہیں کہ
ہم آ ئندہ کے لیٔے کسی حد تک درست اندازے لگا سکتے ہیں لیکن دورِگزشتہ یعنی
موجودہ ترقی کے دور سے کوئی دو سو سال پہلے والے انسان کو مختلف حالات کا
سامنا تھا،وہ دنیا کو گلوبل ویلج کہنے کے چکروں سے آزاد تھا اس نے شائید ہی
سوچا ہو کہ ایک روز ایسا ڈبہ[ٹی وی] ایجاد ہو جائے جو ہزاروں اور سیکڑوں
میل دور بیٹھے انسان کی آواز اور تصویر جادوگری سے آنکھوں کے سامنے لے
آئے،ایک ایجاد سے پوری دنیا آپ کی فنگر ٹپس کے نیچے سما جائے گی فضا میں
صرف پرندے ہی نہ اڑیں گے بلکہ انسان بھی اڑیں گے،انسان عمارتوں پرعمارتیں
بنا کر اہرامِ مصر کو شرما دیں گے آدمی چاند پر قدم رکھے گااور حیران ہو کر
ادھر دیکھتے ہوئے کہے گا ’’ ارے یہاں تو وہ چرخا کاتنے والی بوڑھی ہے ہی
نہیں جسے زمین سے دیکھاکرتے تھے ‘‘ آج ہم ماضی کی اس انسان سے سینکڑ وں سال
کی مسافت پر بیٹھے ہوئے یہ سب دیکھ رہے ہیں اور آئندہ حالات کی بڑی حد تک
درست پیش گوئی کر سکتے ہیں لیکن ہم اس آئندہ آنے والے انسان سے بڑی حد تک
خوش نصیب ہیں کہ ہم جدید اور روائیتی زندگی کے کے حسین سنگم پر زندگی گزار
رہے ہیں ۔ہمارے خون میں پہلے کی طرح نہ سہی لیکن رشتوں کی تاثیر اور تقدس
ضرور موجود ہے۔ہم میں سے بہت سے اب بھی ایسے ہیں جو کسی دوسرے کی بہن اور
بیٹی کو دیکھ کرنگاہیں نیچے کر لیتے ہیں کہ انہیں اپنی بہن،بیٹی کا خیال آ
جاتا ہے۔ آج بھی کوئی دشمن بھی مہمان بن کر ہمارے گھر کی دہلیز پر آجائے تو
ہم دِل کا میل نکال کر دور پھینک دیتے ہیں۔اس تیزی کے دور میں بے شک کچھ
عرصے بعد سہی لیکن ہم اپنے تمام تر امور کو ایک طرف رکھ کر کسی روز اچانک
اپنے والدین کے در پر دستک دے کران سے دعائیں اور شفقت سمیٹنے جا پہنچتے
ہیں۔ابھی بھی کچھ ضمیرفروشوں کو چھوڑ کر بہت سے ایسے افراد ہیں جو رشوت
نہیں لیتے یاجو لوگ رشوت دے یا لے کے اپنا کام کرواتے ہیں تو کئی دن تک
ضمیر ملامت کرتا ہے کہ ہم نے کتنی بڑی غلطی کر دی ہے ۔ روایت کے ابھی بھی
بہت سے انمول خزانے ہمارے ہاتھ میں ہیں لیکن ان کے وجود میں دراڑیں پیدا
ہوتی جا رہی ہیں وہ پہلے کی طرح مضبوط نہیں رہے اس کی وجہ وہ فاصلے ہیں
جنہوں نے انسان کو انسان سے بہت دور کر دیا ہے۔چوپال اور بیٹھکیں نایاب
ہوتی جا رہی ہیں جہاں گاما بابا بلے شاہ کو لے میں سناتا تھا تو جیرا محلے
بھر کے افراد کی نقلیں اتار کرقہقہوں کے انجکشن سے لوگوں کا سیروں خون بڑھا
دیتا تھااب ہمارا ہنسنا رسمی اور مسکرانا ضرورتاّّ ہوتا جا رہا ہے۔ہم موم
کے پتلے بنتے جا رہے ہیں کوئی ذرا سی بات بھی کہہ دے تو ہماری شکل بدل جاتی
ہے۔اب دوسروں کے لیئے رونے اور اپنے آپ پر ہنسنے کا موسم جانے کو ہے کیونکہ
ہمارے مزاج بھی مشینی ہوتے جا رہے ہیں ہم مادہ پرستی کے ٹریک پر چل رہے ہیں
بس آگے نکلنے کی دھن سوار ہے۔وہ اقدار جنہوں نے ہماری معاشرتی زندگی کو
سہارہ دیا ہوا ہے وہ اپنا وجود کمزور پڑتا محسوس کررہی ہیں۔اب کسی کو خبر
نہیں ہوتی کہ ان کے پڑوس میں کوئی رورہا ہے کہ ہنس رہا ہے اور یہی فاصلہ
ہمارے اندر سے انسانیت کا مادہ ختم کر رہا ہے۔ہمارے رشتوں ،دوستوں،گلیوں
اور محلوں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں،یہ آئیندہ آنے والی نسلوں کے لیے
لمحہء فکریہ ہے،بہت ممکن ہے کہ دو سو برس بعد زندگی میں بہت نئی آسانیاں آ
جائیں ،کئی نئے راز بھی آشکاراں ہو جائیں لیکن ایک انمول چیز گم ہو جائے
اور وہ انسان ہے ہر طرف آدمی ہی آدمی ہوں ۔احساس ،حسنِ سلو ک اوردردمندی سے
عاری روبوٹ نما آدمی ہوں اور انسان ناپید ہو جائے اور ڈھونڈنے سے بھی نہ
ملے۔۔۔۔۔۔۔
|