میں ایسے معاشرے کا حصہ ہوں جہاں دوسرے کے گریبان میں
جھانکنا فرضِ اولین میں شمار ہوتا ہے لیکن مجھے اس بات سے ذرا بھی دکھ نہیں
کیونکہ میرے اک کے بدلنے سے کچھ بھی نہیں ہونے والا لیکن اتنا ضرور ہے کہ
میرے کوشش کرنے سے اک کاروان بنتا جائے گا اور حالات بدلتے جائیں گے لیکن
اس کے لیے اک جیسی سوچ کا ہونا ضروری ہے۔میرے اک دوست کا اصرار ہے کہ میں
گزشتہ دورِ حکومت میں ہونے والی کرپشن اور حکومت کی کار گزاری پہ تفصیلاً
لکھوں لیکن میرا ضمیر ایسا ہے کہ میں کسی میں بھی برائی کا عنصر کم دیکھتا
ہوں اور اچھائی کو مدِنظر رکھتا ہوں لیکن پھر بھی لکھ رہا ہوں۔پچھلے تین
دورِ حکومت جس میں ق لیگ،پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا دورِ حکومت
رہا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تینوں ادوارِ حکومت میں ملک کو مک مکا
کی سیاست کرکے خوب لوٹا گیا اور ملک کو پائی پائی کا محتاج کردیا گیا لیکن
میری قوم کو عقل تب آتی ہے جب کوئی واقعہ وقوع پذیر ہوچکا ہوتا ہے اور جن
اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔سب سے مشکل حالات کا سامنا اس حکومت نے کیا ہے جو
کہ پاکستان مسلم لیگ نواز شریف اور اپوزیشن تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز
پارٹی پر مشتمل ہے۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اپوزیشن پارٹی تحریک انصاف
نے حکومت پر قابض ن لیگ کو ٹف ٹائم دیا ہے اور یہ سمجھ لیجیے کہ اس حکومت
کے بخیے اْکھاڑ دیئے ہیں اور شریف برادران کو منہ چھپانے کے قابل بھی نہیں
چھوڑا ان کی کرپشن کے قصے ہر خاص و عام اور بچے بچے کی زبان پر ہے۔یوں تو
یہ حکومت شروع دن سے ہی کافی مشکلات کا شکار ہے کبھی وزیر اعظم صاحب کو
عدالت میں گھنٹوں کے بل آنے پہ مجبور کیا جاتا رہا ہے اور کبھی وزیراعظم کی
پوری فیملی کو۔اس کرپشن کیسز کی وجہ سے شریف برادران کو ذلالت کے ان گھڑھوں
میں پھینک دیا ہے کہ یہ ساری زندگی بھی سر اٹھانے کی کوشش کریں پھر بھی
لوگوں کے دل میں ان کی وہ عزت پیدا نہیں ہوگی جو پہلے موجود تھی اسی وجوہ
کی وجہ سے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کیا گیا اور ان کو تاحیات اس
منصب کے لیے نااہل کردیا گیا ستم ظریفی یہ کہ پارٹی کی سربراہی تک کے لیے
نااہل قراردے دیا گیا جو نواز شریف کی سیاست کے تابوت میں آخر کیل ثابت
ہوئی اور وہ اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو پارٹی کا قائم مقام صدر
منتخب کرکے گوشہ نشینی کی طرف قدم بڑھا چکے ہیں جو ان سے قدرے بہتر سیاست
دان ہیں۔لیکن پچھلے ہفتے احد چیمہ کی گرفتاری اور حدیبیہ پیپر ملز کا
ریفرنس دائر ہونے کی وجہ سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے احد
چیمہ کو شہباز شریف کا فرنٹ مین قرار دیا جارہا ہے جو آشیانہ ہاؤسنگ سکیم
کے روح رواں تھے اور اربوں کی کرپشن میں ملوث ہونے کی بازگشت سنائی دی
جارہی ہے یہ بات تو ایک طرف اوپر سے حکومت کے ماتحت بیورکریٹ کا احد چیمہ
کی گرفتاری کے خلاف کام چھوڑدینا یہ بتاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں
بلکہ پوری دال کی دال کالی ہے وقت آتا ہے اور دیکھتے ہیں احد چیمہ کس طوفان
کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں نیب اپنے کام پوری ایمانداری سے کررہی ہے۔اب
کراچی کی طرف آتے ہیں جہاں گندگی نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جگہ جگہ گندا
پانی اور کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں وہاں کوئی بھی کسی کی سنتا نہیں پولیس
گندگی پھیلانے والوں کو گرفتار کررہی ہے اور وہاں کے میئر وسیم اختر صاحب
گندگی اْٹھانے کے حوالے سے خود کو بے بس تصور کروارہے ہیں اب وہاں کی عوام
کو چاہیے کہ اپنی مدد آپ کے تحت جتنا ممکن ہوسکتا ہے اْتنا کام کیجیے آپ کے
سننے والا واقعی کوئی بھی نہیں۔۔۔ |