اسلام سے پہلے دُنیا نے جس قدر ترقی کی تھی، صرف ایک صنف
(مرد) کی اخلاقی اور دماغی قوتوں کا کرشمہ تھی، مصر، بابل، ایران، یونان
اور ہندوستان مختلف عظیم الشان تمدن کے چمن آرا تھے، لیکن ان میں صنفِ نازک
(عورت ) کی آبیاری کا کچھ دخل نہ تھا۔ اسلام آیا تو اس نے دو صنفوں (مرد و
عورت) کی جدو جہد کو وسائل ترقی میں شامل کر لیا ۔ اس لیے جب اس کے باغِ
تمدن میں بہار آئی تو ایک نیا رنگ و بو پیدا ہو گیا۔ عورت کو دُنیا نے جس
نگاہ سے دیکھا وہ مختلف ممالک میں مختلف رہی ہے۔ مشرق میں عورت ، مرد کے
دامن تقدس کا داغ ہے، روما اس کو گھر کا اثاثہ سمجھتا ہے۔ یونان اس کو
شیطان کہتا ہے۔ تورات اس کو لعنت ابدی کا مستحق قرار دیتی ہے۔ کلیسا اس
کوباغِ انسانیت کا کانٹا تصور کرتا ہے۔ یورپ ا سکو خدا یا خدا کے برابر
مانتا ہے۔ لیکن اسلام کا نقظۂ نظر ان سب سے جدا ہے، وہاں عورت نسیمِ اخلاق
کی نگہت اور چہرۂ انسانیت کا غازہ سمجھی جاتی ہے۔ امام بخاریؒ نے صحیح میں
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مکہ میں ہم لوگ عورتوں
کو بالکل ہیچ سمجھتے تھے ۔ مدینہ میں نسبتہً ان کی قدر تھی۔ لیکن جب اسلام
آیا اور خدا نے ان کے متعلق آیتیں نازل کیں تو ہمیں ان کی قدر و منزلت
معلوم ہوئی۔ عرب جاہلیت کے رسمِ دُختر کشی پر نظر ڈال کر پیغمبر اسلام ﷺ کے
اس قول پر یَا اَ نْجَثَۃَ ! رُوَیْدَکَ بِالْقَوَارِیْرِ (انجثہ ! دیکھنا
یہ آبگینے ہیں)۔ غور کرو تو تمہیں حضرت عمرؓ کے قول کی تشریح معلوم ہو گی۔
اسلام نے صرف یہی نہیں کیا کہ عورتوں کے چند حقوق متعین کر دیے ، بلکہ ان
کو مردوں کے مساوی درجہ دے کرمکمل انسانیت قرار دیا۔ صحیح بخاری شریف میں
وارد ہو اہے ۔ ’’ مرد اپنے اہل کا راعی بنایا گیا ہے اور اس سے ان کے متعلق
جواب طلب ہو گا ، اور عورت شوہر کے گھر کی راعیہ ہے او ر اس سے اس کے متعلق
باز پرس ہو گی۔ ‘‘(ج۲ص۷۸۳)۔ سنن ابن ماجہ میں اس کی مزید تشریح ہے۔ ’’تم کو
عورتوں پر بجز مخصوص حقوق کے کوئی دسترس حاصل نہیں ، لیکن ہاں جب کوئی گناہ
کریں۔‘‘
اس بنا پر اسلام میں عورت کی جو قدر و منزلت قائم ہوئی وہ بلحاظِ نتائج
دیگر اقوام و مذاہب سے بالکل مختلف تھی، تمام دُنیا اپنی قومی تاریخ پر ناز
کرتی ہے اور بجا طور پر کرتی ہے لیکن اگر اس سے یہ سوال کیا جائے کہ اس
افسانہائے پارینہ میں صنفِ نازک کی سعی و کوشش کا کس قدر حصہ تھا ؟ تو
دفعتاً خاموشی چھاجائے گی اور فخر و غرور کا سارا ہنگامہ سرد ہو کر رہ جائے
گا۔ یونان بے شک اپنی ’’ربات النوع‘‘ کو پیش کر سکتا ہے، ہندوستان متعدد
عصمت و عفاف کی دیویوں کے نام لے سکتا ہے، یورت کا ’’گولڈن ڈیڈس‘‘چند جنگ
آزما عورتوں کو سامنے لا سکتا ہے، لیکن کیا ان کی وجہ سے دنیا نے کچھ بھی
ترقی کی ہے ؟ اور تمدن کا قدم ایک انچ بھی آگے بڑھ سکا ہے ؟ تاریخ ان
سوالات کا جواب نفی میں دیتی ہے۔
قومی تاریخ کو چھوڑ کر اگر دنیا کی مذہبی تاریخ کا مطالعہ کریں تو صاف نظر
آئے گا کہ اس کے اوراق بھی صنفِ نازک کے عظیم الشان کارناموں سے خالی ہیں۔
مصر اس سلسلہ میں آسیہ رضی اللہ عنہا بنت مزاحم کو پیش کریگا، تورات مریم
بنتِ ہارون علیہ السلام کو آگے بڑھائے گی ، ناصرہ مریم عذرا علیہ السلام کو
سامنے لائے گا۔ ان خواتین کی مذہبی بزرگی اور عظمت مسلّم ہے، لیکن کیا ان
مقدس اور پاک خواتین کو کوئی مذہبی یا اصلاحی کارنامہ تاریخ نے بھی یاد
رکھا ہے ؟ اس کے برعکس اسلام نے جن پردہ نشینوں کو اپنے کنارِ عاطفت میں
جگہ دی انہوں نے دُنیا میں بڑے بڑے عظیم الشان کام سر انجام دیے ہیں جو
تاریخ کے صفحات میں نمایاں طور پرنظر آتے ہیں ۔ آج کے اس موضو ع میں ہم
مسلم خواتین کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں،اور خواتین ڈے کی مناسبت سے
مسلم خواتین کے کارناموں کا سرسری ذکرکرتے ہیں۔ مذہبی خدمات کے سلسلہ میں
سب سے اہم خدمت جہاد ہے اور مسلم خواتین خصوصاً صحابیات رسولﷺ نے جس جوش،
جس خلوص ، جس عزم اور جس استقلال سے یہ خدمت کی ، اس کی نظیر مشکل سے ملے
گی ۔ غزوہ اُحد میں جبکہ کافروں نے عام حملہ کر دیا تھا اور آنحضرت ﷺ کے
ساتھ صرف چند جان نثار رہ گئے تھے ، حضر ت اُمِ عمارہ رضی اللہ عنہ آنحضرت
ﷺ کے پاس پہنچیں اور سینہ سپر ہو گئیں۔ کفار جب آپؐ پر بڑھتے تھے تو تیر
اور تلوار سے روکتی تھیں۔ ابنِ قیمیہ جب دوڑتا ہوا آنحضرتﷺ کے پاس پہنچ گیا
تو حضرت اُمِ عمارہؓ نے بڑھ کر روکا ، چنانچہ کندھے پر زخم آیا اور غار
پڑگیا۔ انہوں نے تلوار ماری لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوا تھا، اس لیے کارگر
نہ ہوئی، جنگ مسیلمہ میں انہوں نے پامردی سے مقابلہ کیا کہ ۱۲ زخم کھائے
اور ایک ہاتھ کٹ گیا۔ غزوہ خندق میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے جس بہادری
سے ایک یہودی کو قتل کیا اور یہودیوں کے حملہ کو روکنے کی جو تدبیر اختیار
کی وہ بجائے خود نہایت حیرت انگیز ہے۔ غزوۂ حنین میں حضرت اُمِ سلیم رضی
اللہ عنہا کا خنجر لیکر نکلنا ایک مشہور بات ہے۔ جنگِ یرموک میں جو خلافت
فاروقی میں ہوئی تھی، حضرت اسمابنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا ، حضرت اُم
ابانؓ ، حضرت اُم حکیم خولہؓ ، ہندؓ اور ام المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ
عنہما نے بڑی دلیری سے جنگ کی تھی اور اسما بنت یزیدؓ نے جو انصار کے قبیلہ
سے تھیں ، خیمہ کی چوب سے ۹ رومیوں کو قتل کیا تھا۔
نہ صرف بری بلکہ بحری لڑائیوں میں بھی صحابیات شرکت کرتی تھیں۔ 28ھ میں
جزیرہ قبرص پر حملہ ہوا تو حضرت اُمِ حرام رضی اللہ عنہااس میں شامل ہوئیں۔
میدانِ جنگ میں اس کے علاوہ صحابیات او ر بھی کئی خدمات سرانجام دیتی ،
مثلاً پانی پلانا، زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا، مقتولوں اور زخمیوں کو اٹھا کر
میدان جنگ سے لے جان، چرخہ کاتنا، تیر اٹھا کر دینا، خورد و نوش کا انتظام
کرنا، کھانا پکانا، قبر کھودنا، فوج کو ہمت اور داد دینا، چنانچہ حضرت
عائشہؓ ،اُم سلیمؓ، اُم سلیط رضی اللہ عنہما نے غزوہ اُحد میں مشک بھر بھر
کر زخمیوں کو پانی پلایا تھا۔ اُم سلیمؓ اور انصار کی چند عورتیں زخمیوں کی
تیمار داری کرتی تھیں اور اس مقصد کیلئے وہ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ
غزوات میں شریک ہوا کرتی تھیں۔ ربیع بنت معوذؓ وغیرہ نے شہدا مجروحین کو
قتل گاہ سے اُٹھا کر مدینہ پہنچایاتھا۔ ام زیاد الشجعیہ اور دوسری پانچ
عورتوں نے غزوۂ خیبر میں چرخہ کات کر مسلمانوں کی مدد کی ، وہ تیر اُٹھا کر
لاتی اور ستو پلاتی تھیں۔ حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہا نے سات غزوات میں
صحابہ کیلئے کھانا پکایا تھا۔ اغواث اور امارث وغیرہ کی جنگوں میں جو خلافت
فاروقی میں ہوئیں، عورتوں اور بچوں نے گورکنی کی خدمت سر انجام دی۔ جنگ
یرموک میں جب مسلمانوں کا میمنہ ہٹتے ہٹتے حرم کے خیمہ گاہ تک آگیا تو ہند
رضی اللہ عنہا اور خولہ رضی اللہ عنہا وغیرہ نے پر جوش اشعار پڑھ کر لوگوں
کو غیر ت دلائی تھی۔
اشاعتِ اسلام بھی مذہب کی ایک بڑی خدمت ہے، اور صحابیات نے اس سلسلے میں
خاص کوششیں کیں، چنانچہ حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا کی دعوت پر حضرت
عمرؓ نے اسلام قبول کیا۔ اُم سلیم کی ترغیب سے ابو طلحہؓ نے آستانہ اسلام
پر سر جھکایا۔ عکرمہ کی بیوی اُم حکیم رضی اللہ عنہا کے سمجھانے پر مسلما ن
ہوئے۔ اُم شریک دوسیہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے قریش کی عورتوں میں اسلام
پھیلا۔ جو نہایت متقی اور پرہیزگار خاتون تھیں۔
نماز کی امامت بھی ایک اہم کام ہے، اور متعدد صحابیات نے اس کو کبھی کبھی
عورتوں کے مجمع میں انجام دیا ، چنانچہ حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت
اُم سلیمؓ ، اُم ورقہؓبنت عبداللہ، اور سعدہؓ بنت قمامہ عورتوں کی امامت
کیا کرتی تھیں۔ الغرض زندگی کے ہر شعبے میں مسلم خواتین اور خصوصاً صحابیاب
خواتین نے عین اسلام کی رُوح کے مطابق اپنا کردار ادا کر کے رہتی دُنیا تک
آنے والی نسلوں اور خواتین کو پیغام دیا کہ بلا شبہ اسلام وہ واحد دین ہے ،
جس نے خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ انتہائی عزت و وقا ر کیساتھ زندگی
گزارنے کا نصب العین فراہم کیا ہے۔ اور اسلام کے طریقوں پر چل کر ہی ایک
عورت اپنا کھویا ہوا مقام اور وقار و منزلت حاصل کر سکتی ہے۔ |