شام کے حالات اور ہماری میڈیا

کام سے فارغ ہوکر سوچا کچھ فیس بک استعمال کیا جائے، فیس بک آئی ڈی کھو ل لی ، کچھ دوستوں نے تصاویر اپلوڈ کی تھی، فیس بک استعمال کرتے ہوئے اچانک میری نظر ایک پوسٹ پر پڑی جس پر لکھا تھا ’’شام میں بمباری ۵۰۰ افراد شہیدہوگئے جن میں ۱۵۰ سے زائد بچے شامل ہیں‘‘ ، یہ خبر پڑھتے ہی انتہائی افسوس ہوئی، لیکن پھر سوچا کہ نیوز چینل دیکھنی چائیے تو وہاں کے حالات معلوم ہوسکے، تو فیس بک چھوڑ کر نیوز چینل چلا دیا، تو ایک چینل پر سرخی چل رہی تھی’’سری دیوی انتقال کرگئی‘‘ سوچا کسی اور چینل کو دیکھا جائے، چینل تبدیل کیا تو اُس پر لکھا آرہا تھا ’’کروڑوں دلوں کی دھڑکن سری دیوی انتقال کرگئی‘‘ میں چینل بدلتا گیا اور تما چینلز پر یہی موضوع پایا، پھر سوچا شاید جو خبر میں نے فیس بک پڑھی جھوٹ یا من گھڑت ہو کیونکہ آج کل سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں بھی بہت آتی ہے، لیکن میرے دل کو چین نہیں آرہا تھا کبھی سوچتا۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہوا ہوگا، پھر خیال آتا کہ کیا پتہ سچ ہو، خیر میں فیس بک پر ڈھونڈتا رہا اور خبر واقعی سچ نکلی، تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا تھا لیکن ایک طرف تو شامی بھائیوں اور بہنوں کے لئے افسوس ہورہا تھا تو دوسری طرف میڈیا پر انتہائی غصہ آرہا تھا کہ شام میں معصوم لوگ شہید ہورہے ہیں اور ہماری میڈیا ایک اداکارہ جو مرگئی اُسے کوریج دے رہی ہے، شام میں لوگ شہید ہورہے ہیں اور ہماری میڈیا کسی اداکارہ کی زندگی ہمارے سامنے پیش کررہی ہے کہ اداکارہ نے بہت اچھی اداکاری کی، وہ بہت اچھی تھی، اُن کی مالا جپتے رہے، کیا ایک اداکارہ شام کے مظلوم مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے یا اُس کے مرنے سے ہمارے ملک یا معیشت پر کوئی فرق پڑتا ہے؟ یہاں پر سوچنے کا مقام ہے کہ کیا اِ سے صحافت کہتے ہیں، یہ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ ریٹنگ کی جنگ ہے اور کچھ نہیں، ہماری میڈیا کو معصوم لوگوں کی جانوں سے زیادہ چینل کی ریٹنگ پیاری ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے ڈرامہ انڈیسٹری کے معروف فنکار قاضی واجد کا انتقال ہوا، ہماری میڈیا سے پوچھا جائے کہ بھارت کی کتنے ٹی وی چینلز نے لیجنڈ ادارکار قاضی واجد کی انتقال کی خبر چلائی۔ مجھے یقین ہے کہ کسی ایک چینل پر ایک چھوٹی سی ٹِکر بھی نہیں چلی ہوگی۔ اور ہماری میڈیا اندھا دھند دن رات سری دیوی کے غم میں نڈھال نظر آئی۔

اگلے دن میں نے اخبار کھول لیا، سوچا شام کے بارے میں کوئی خبر ہوگی، شہ سرخی کی موضوع سری دیوی تھی لیکن فرنٹ پیج پر شام کے حوالے سے کوئی خبر نہیں تھی۔ یہ دیکھ کر میرا غصہ اور بھی شدید ہوگیا۔ زینب کے ساتھ ہونے والے واقع کو تو کوئی نہیں بھُلا سکتا۔ اُس واقع کے کچھ دن بعد کسی چینل کے مارننگ شو میں چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کو نچایا جارہا ہے اُن سے بے ہودہ گانوں پر رقص کروایا جا رہا تھا ، کیا یہ ہے آزادیِ صحافت؟ کیا ایک اسلامی مملکت ہوکر اس مین ایسے شوز ہوتے ہیں؟ ایک زمانہ تھا جب صبح چینلز پر تلاوتِ کلام پاک ہو اکرتا تھا اور آج نیوز چینلز پر مارننگ شوز کی آر میں بے حیائی پھیلائی جار ہی ہے۔ میں اب تک سمجھ نہیں سکا ہوں کہ سری دیوں کی آخری رسومات تک کو دیکھایا گیا لیکن شام کے حالات کو نہیں دیکھایا گیا تو پھر اس آزادیِ صحافت کا کیا مقصد؟ اگر اب ہم یہ کہیں کہ میڈیا غیر جانبداری سے کام نہیں لے رہی تو بے جاء نہ ہوگا، آج مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ ہم جہاں بھی دیکھ لے، کشمیر میں، برما میں، عراق و شام میں، سب جگہوں پر مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے، انہیں شہید کیا جارہا ہے لیکن میڈیا کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمران بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ لیکن معاشرہ تبھی ٹھیک ہوتا ہے، مسائل تبھی حل ہوتے ہیں مظالم تبھی ختم ہوتے ہیں جب آواز اٹھائی جاتی ہے اس وقت شام میں جو کچھ ہورہا ہے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اُسے ہم روک تو نہیں سکتے لیکن اُسکے خلاف آواز بلند کرسکتے ہیں۔ آج کل اِس جدید دور میں ہر کوئی اپنی آواز لوگوں تک باآسانی پہنچا سکتے ہیں۔ سچ لکھنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے کہ سچ لکھتے ہوئے آپ کا ساتھ بہت ہی کم لوگ دیتے ہیں۔ لیکن سچ لکھ کر آپ اپنے ضمیر کو مطمئن کرتے ہیں۔ حبیب جالبؔ کا شعر ہے کہ:
لوحِ جہاں پر نام تمہارا لکھا رہے گا یونہی
جالبؔ سچ کا دم بھر جانا سچ ہی لکھتے جانا

سچ کا ساتھ کبھی نہ چھوڑے۔ کچھ پیسوں یا آسائشوں کی خاطر صرف عارضی سکون ہی پایا جا سکتا ہے۔ لیکن مستقل سکون نہیں، اﷲ سے یہی دعا ہے کہ اﷲ تمام امت مسلمہ پر رحم کریں اور جن حالات سے امت مسلمہ گزر رہی ہے اﷲ تعالیٰ سب بہتر فرمائیں۔
 

Shoaib Sahil
About the Author: Shoaib Sahil Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.