سوشل میڈیا: افکار و نظریات، خیالات و رجحانات

اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملت کا ایک بڑا طبقہ لغویات، خرافات اور بے دینی ولایعنی باتوں میں مصروف ہے۔ چونکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے اس لئے وہ علاحدہ گفتگو کا تقاضہ کرتا ہے۔

سوشل میڈیا

سوشل میڈیا وہ پلیٹ فارم ہے جہاں ہر ذی علم وبے علم، عاقل وغبی، ہوش مند وغافل، بالغ ونابالغ غرض ہر کس وناکس اپنی بات رکھ سکتا ہے، دل کی بات کہہ سکتا ہے، اپنے نظریات، خیالات اور رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔ یہاں میڈیا کی قید وبند ہے اور نہ حق ادارت کی ادائیگی۔ اپنے خیالات کی اشاعت وترسیل کے لئے روایتی پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے بلکہ ہر وقت اپنی بات رکھ دینے کے مواقع میسر ہوتے ہیں۔ بس اس کے لئے ضروری وسائل، تکنک اور مزید آگے بڑھنے کے لئے ضروری علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ مواقع کی طرح یہاں ہر قسم کا مواد بھی موجود ہے اور نظریات وخیالات بھی۔ ہر وہ شخص جسے اس تک رسائی میسر ہے وہ ان مواقع کا بھر پور استعمال کر رہا ہے۔

یہاں موجودمواد، نظریات وخیالات کس حد سود مند اور قابل استفادہ ہیں اس سے صرف نظر کرتے ہوئے اس وقت زیر بحث پہلو اظہار خیال ہے۔ اس وقت ملت اسلامیہ بالخصوص برصغیر کے فرزندان ملت کی طرف سے جن خیالات کا اور جس انداز سے اظہار ہو رہا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملت کا ایک بڑا طبقہ لغویات، خرافات اور بے دینی ولایعنی باتوں میں مصروف ہے۔ چونکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے اس لئے وہ علاحدہ گفتگو کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس وقت ہونے والی بات ملت کے اس طبقہ سے تعلق رکھتی ہے جو مذکورہ طبقہ کے بالمقابل ہوش مند، فکرمند، ذی علم وذی عقل ہے۔

اس طبقہ کی مصروفیت دین، ملت، انسانیت،علم، فلاح وبہبود سے متعلق باتوں میں ہے۔یہاں کا عمومی مزاج سادہ اور جذبات نیک ہیں۔ اس لئے دین کی باتیں یہاں زیادہ گردش کرتی ہیں۔ البتہ اس قسم کی دینداری میں عموماً ‘کٹ’، ‘کاپی’ اور ‘پیسٹ’ سے کام چلایا جاتا ہے۔ یہاں ہر کوئی دین پر عمل کرنے کی نہیں دین کو پیش کرنے بلکہ زیادہ درست بات یہ ہے کہ دین کو ‘پروسنے’ کی کوشش کرتا ہے اور دوسروں سے توقع کرتا ہے کہ وہ اس کی ‘پروسی’ گئی دین کی باتوں پر عمل کریں۔ اس عمل کے ذریعہ اسے امید ہوتی ہے کہ انفرادی، اجتماعی، ملی، ملکی، قومی، بین الاقوامی سطح پر زبردست تبدیلی آئے گی۔ اس طبقہ میں نسبتاً جو زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ ہے وہاں اس کے ساتھ ساتھ فکر،نظریات، خیالات کی باتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کی پیش کش اور انداز بیاں میں بالعموم غالب پہلو جذباتیت اور اس سے مغلوبیت کا ہوتا ہے۔ یہاں مثبت، تعمیری اور سنجیدہ گفتگو کے لئے جگہ کم ہے اور لائق توجہ نہیں سمجھی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف یہاں پیش کردہ فکر سے اختلاف کرنے، ان کی لائن سے ہٹ کر فکر پیش کرنے پر جارحیت کے ساتھ ساتھ تحقیر، تذلیل، لعن طعن اور ذاتیات کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ایک اور چیز باطل افکار ونظریات کی یلغار ہے۔ یہاں طرح طرح کی باتیں اور خیالات پیش کئے جاتے ہیں۔ ان پر تنقید کرنے، انہیں رد کرنے والوں کو ‘ٹرول’ کیا جاتاہے، ان کے خلاف محاذ آرائی شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر صاف محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی پشت پناہ ضرور ہے جہاں سے وسائل، ذرائع، مواد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ رہنمائی بھی حاصل ہوتی ہے۔

ان سب کے ساتھ انہوں نے اپنا نشانہ ملت کے بہی خواہوں پر بھی سادھ رکھا ہے۔ یہاں بلادریغ ملی اداروں ، جماعتوں ، تنظیموں ، مدارس ومکاتب، علمائ ، اہل علم، ملی شخصیات وملی قیادت کو ہدف ملامت بنایا جاتا ہے، ان کی تذلیل وتحقیر کی جاتی ہے، ان پر طرح طرح کے بے بنیاد الزامات عائد کئے جاتے ہیں ، ان کی نیتوں پر حملے کئے جاتے ہیں۔ بظاہر ان سب کا مقصد ملت اور اس کے رہنماؤں و اداروں کے درمیان خلیج پیدا کرنا، دوری پیدا کرنا ہے تاکہ ملت کی احیاء کا کام رک جائے اور اسلام دشمن ملت کو اپنی مرضی کے مطابق جدھر چاہیں لے جائیں اور اس کے درمیان جیسی چاہئں گمراہیاں پھیلائیں۔

اس قسم کی مہمات سے ملت کے وہ فرزندان جن کاعمومی مزاج سادہ اور جذبات نیک ہیں اور وہ دین کی طرف مائل اور ملت کے لئے فکر مند ہیں وہ اس قسم کے باطل افکار وخیالات، ملی اداروں اور قیادت کے خلاف منفی مہم جوئی اور منفی وجذباتی لہروں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال میں ہر قسم کی جذباتیت، باطل افکار وخیالات، ملی اداروں اور قیادت کے خلاف منفی مہم جوئی کے بالمقابل خاموش رہتے ہوئے اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہنا یقیناً سود مند اور قابل تعریف عمل ہے اور ملی قیادت اسی پر گامزن ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اپنی باتوں اور حقائق کو انتہائی سنجیدگی اور مثبت ومدلل انداز سے پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

اس کام کو بڑے پیمانے پر کیا جانا چاہئے اور اس کے لئے دستیاب تمام وسائل وذرائع کو استعمال کرنا چاہئے۔ اس کام کو کرتے وقت مختلف اقسام کی جذباتیت، منفی مہم جوئی، الزام تراشی، کردار کشی اور دشنام طرازی کی شکل میں ظاہر ہونے والی ناراضگی سے صرف نظر کرنا چاہئے۔ ردعمل کے طور پر امڈ امڈ کر آنے والے تحقیر وتذلیل کے سیلاب، برپا ہونے والے طوفان بدتمیزی اور مغلظات کی یلغار کا خندہ پیشانی سے استقبال کرنا چاہئے۔ اس پر ناراض ہونے، رنجیدہ وکبیدہ خاطر ہونے کے بجائے اس قسم کے حملوں اور اعتراضات کا جواب دینے میں احسن طریقہ کو اختیار کرنا چاہئے۔ یہ حکم ِ الٰہی ہے اور اس پر عمل پیرا ہوکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعالی وسلم نے بہترین اسوہ بھی پیش کیا ہے۔

جائے شکر ہے کہ فرزندان ملت کا ایک طبقہ اس کام کی طرف متوجہ ہے اور اس کام کو کررہا ہے۔عمومی توجہ حاصل نہ ہونے کے باوجود اس کی طرف سے سنجیدگی کے ساتھ مثبت ومدلل انداز سے دین کو پیش کرنے، ملت کی تعمیر وترقی اور اس کی فلاح وبہبود کے لئے مواد ومعلومات، افکارو خیالات کی ترسیل کا کام ہورہا ہے۔ اس پر اللہ کا یہ فضل ہے کہ فرزندان ملت کا یہ طبقہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سےڈرتا نہیں ہے بلکہ لعنت وملامت کی پروا کئے بغیر انتہائی سنجیدگی سے مثبت اور تعمیری راہ پر گامزن ہے۔

Rao Anil Ur Rehman
About the Author: Rao Anil Ur Rehman Read More Articles by Rao Anil Ur Rehman: 88 Articles with 223806 views Learn-Earn-Return.. View More