رات کا آخری پہر تھا۔گلیاں سنسان تھیں۔ مخلوقِ خدا خوابِ
خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔ دریائے دجلہ کی موجیںالبتہ اٹکھیلیاں کر رہی
تھیں۔ ان کا شور دور دور تک سانپ کی سسکار کی مانند لہو منجمد کر رہا تھا۔
دریا کے کنارے ایک حویلی بھوت بنگلے کا منظر پیش کر رہی تھی۔ حویلی کا
پھاٹک آدھا کھلا ہوا تھا۔ اندر ایک آدمی کا سایہ بار بار لہراتا اور پھر
غائب ہو جاتا۔ یہ آدمی ایک گٹھڑی باندھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اُسے
بار بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔جب وہ ایک طرف کے پلو کو پکڑ کر دوسرے
کے قریب لاتا تو دوسرا کھسک کر نیچے چلا جاتا۔ اور جب نیچے والے کو سنبھال
کر اوپر لاتا تو اوپر والا پلو کھسک جاتا۔ کبھی ایک پلو کو منہ میں دباتا
اور دوسرے کو ایک ہاتھ سے گانٹھ دینے کی کوشش کرتا مگر ناکام رہتا۔ اس
باندھنے والے کا صرف ایک ہاتھ تھا۔ اسی لیے اُسے گٹھڑی باندھنے میں مشکل
پیش آ رہی تھی۔ کافی دیر کی تگ و دو کے باوجود جب گٹھڑی نہ بندھ سکی تو
اسے غصہ آ گیا۔ وہ اول فول بکنے لگا۔ گٹھڑی اور حکومت کو گالیاں دینے
لگا۔وہ ایک چور تھا… عادی مجرم!!! اُس نے بیسیوں ڈاکے مارے اور کئی مرتبہ
جیل کاٹی۔ آخری بار ایک چوری کے جُرم میں اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ اب وہ
دلیر ہو گیا تھا۔ سرِعام واردات کرتا اور اڑنچھو ہو جاتا۔ عوام الناس اور
سرکاری ادارے اُس کے نام سے تھرتھر کانپنے لگے۔ لوگوں نے اُسے ’’ہاتھ کٹے
شیطان‘‘ کا نام دے دیا۔
اس حویلی میں بھی وہ چوری کی نیت سے آیا تھا۔ اُسے حویلی سے چند کپڑے ہی
مل سکے جنھیں اُس نے گٹھڑی کی شکل دینے کی کوشش کی تھی۔ اتنے میں ایک بوڑھا
اس کے قریب آ کر رُک گیا اور ہم دردی سے دیکھنے لگا۔ پھر آہستہ سے گویا
ہوا: ’’اگر تم چاہو تو میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔‘‘ ’’ہاتھ کٹے‘‘ نے
سمجھا یہ بھی میری طرح کا کوئی چور ہے۔ کہنے لگا ’’جلدی کرو اور اِسے اچھی
طرح باندھ دو۔ لیکن سنو! میں نے اِسے چُرانے میں کافی محنت کی ہے تمھیں
زیادہ حصہ نہیں ملے گا۔ اس لیے بعد میں پریشان نہ کرنا، ورنہ تمھیں اِس
تلوار کی ضرب ہی بطورِ حصہ مل سکے گی۔‘‘ اُس نے سفاک لہجے میں کہا اور میان
سے تلوار نکال کر لہرانے لگا۔
’’تم فکر نہ کرو۔ میں تم سے کچھ نہیں لوں گا۔‘‘ بوڑھے نے کہا اور گٹھڑی
باندھنے میں مشغول ہو گیا۔ جلد ہی وہ اس کام سے فارغ ہو گیا اور گٹھڑی اٹھا
کر سر پر رکھ لی۔ ’’ہاتھ کٹے‘‘ نے تلوار کی نوک بوڑھے کی کمر سے لگائی اور
اپنے اڈے پر چلنے کو کہا۔ بوڑھا اپنی ہمت کے مطابق قدم اٹھانے لگا ۔ راستے
میں بوڑھے کو ایک دو مرتبہ ٹھوکر لگی اور وہ گرتے گرتے بچا۔ ’’ہاتھ کٹے‘‘
نے اُسے غلیظ گالیاں دیں اور احتیاط سے چلنے کو کہا۔ منزل مقصود پر پہنچ
جانے کے بعد بوڑھا واپس ہونے لگا تو ہاتھ کٹے نے کہا ’’بڑے میاں اپنا حصہ
تو لیتے جائیے۔‘‘
’’بیٹے! میں ایسے کاموں میں اپنا حصہ وصول نہیں کرتا۔‘‘ بوڑھے نے کہا تو
’’ہاتھ کٹا‘‘ حیران رہ گیا۔’’کیا؟ آپ حصہ لیے بِنا ہی چلے جائیں گے؟ آپ
ہیں کون؟ اور اِس طرح میری مدد کیوں کی؟کہیں آپ حکومتی جاسوس تو نہیں؟‘‘
’’بیٹے! مجھے دنیا جنید بغدادی کہتی ہے۔ اگر کسی دن تمھیں مال کی ضرورت ہو
تو اُسی حویلی میں آ جانا؛ میں تمھیں وہیں پر مِلوں گا۔‘‘ ہاتھ کٹا حیران
رہ گیا۔ وہ بوڑھے کے قدموں میں گر گیا۔ معافیاں مانگنے لگا۔ ’’حضرت! مجھے
معاف کر دیجیے ، مجھے علم نہیں تھا کہ یہ آپ کا گھر ہے۔ میں سمجھا، اتنی
بڑی حویلی ہے تو اس کامالک کوئی امیر کبیر آدمی ہوگا۔ براہِ کرم میری غلطی
سے درگزر فرما دیجیے اور اپنا غلام بنا لیجیے۔‘‘ جنید بغدادیؒ نے اُسے
اٹھایا اور سینے سے لگا لیا۔ یہ ’’ہاتھ کٹا‘‘ جسے حکومت کا خوف ، جیل کی
سختیاں اور عوام کی نفرت راہِ راست پر نہ لا سکی تھی، جنید بغدادیؒ کے حسنِ
خلق کی ایک جھلک ’’امام احمد ابن ساباطؒ‘‘ بنا گئی۔
تہذیبِ جدید نے جہاں ہمیں ایمان و عمل سے کورا کر دیا ہے وہیں حُسنِ اخلاق
بھی بھولی بسری چیز بن چکی ہے۔ عدمِ برداشت معاشرے میں ناسُور کی مانند
پھیلتا جا رہا ہے۔ دینی و دنیاوی ، سیاسی و مذہبی اور عوامی و حکومتی طبقوں
میں اِسے فیشن کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ جب تک ہم کسی کی عزت و غیرت اور عفت
و ناموس کا جنازہ نہیں نکال لیتے ، ہمیں چین نہیں آتا۔ ہمارے اس رویے نے
تعصب، تفرقہ بازی اور تنفر کی جڑیں گہری کر دی ہیں۔حالاں کہ خوش اخلاقی کسی
قوم کی ذہنیت ناپنے کا ایک آلہ ہے۔ جس قوم میں خوش اخلاقی و ایثار اور صبر
و برداشت جتنا زیادہ ہوگا وہ قوم اتنی ہی مہذب کہلائے گی۔ہائے افسوس! کہ
یہی چیزیں معدوم ہونے کے قریب ہیں۔
اللہ تعالی کا ایک نام ’’حلیم‘‘ بھی ہے جس کا مطلب ہے ’’جو سزا دینے میں
ڈھیل دے۔‘‘ لیکن اسی ’’حلیم‘‘ کے نام لیوا آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ’’حق
بات‘‘ کہنے کے زعم میں بڑے دھڑلے سے دل شکنی ہو رہی ہے۔ نتیجۃ تقسیم در
تقسیم کا عمل جاری ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا تھا فمن عفا واصلح فاجرہ علی
اللہ یعنی جس نے معاف کیا اور صلح کر لی ، اس کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس کا قتل کفر
ہے۔‘‘ لیکن دورِ جدید میں مذہب و سیاست کے نام پر یہ سب کچھ نہ صرف جائز بل
کہ کارِ ثواب بن چکا ہے۔دراصل اس رویے کہ جڑ دو چیزیں ہیں: معاملات سے
لاعلمی اور طاقت کا نشہ۔ اور یہ دونوں چیزیں بہترین تربیت،مفید تعلیم اور
اسلامی احکامات سے مکمل بہرہ ور ہونے کی صورت میں ہی ختم ہو سکتی ہیں۔تاکہ
جب کبھی عدمِ برداشت والی صورت پیدا ہو تو یہ کہہ کر گزر جائیں؎
ہر مرحلہء شوق سے لہرا کے گزر جا
آثارِ تلاطم ہوں تو بل کھا کے گزر جا
کانٹے جو لگیں ہاتھ تو کچھ غم نہیں ساغرؔ
کلیوں کو ہر اِک گام پہ بکھرا کے گُزر جا |